اردو زبان کی تاریخ | Urdu Zaban ki tareekh

اردو زبان کی تاریخ

زبانیں انسانی ضرورتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے انسانی ضرورتیں بڑھتی ہیں زبان کو بننے اور سنورنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔خاص طور پر جب دو قومیں آپس میں ملتی ہیں تو اس وقت ان دونوں قوموں کے آپسی رشتوں کی وجہ سے زبان و تہذیب کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اردو زبان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ  دو مختلف قوموں کے اختلاط سے ہی اردو کا جنم ہوا۔ یعنی جب مسلمان ہندوستان آئے اور خصوصاً دسویں صدی عیسوی میں دلی اور اس کے آس پاس ان کا قیام ہوا تو زبان میں تبدیلیاں آنے لگیں اورآہستہ آہستہ ایک نئی زبان کا وجود ہوا جو مختلف ناموں سے گزرتی ہوئی  اردو کے نام سے مقبول ہوئی۔

چونکہ اردو ہندوستان میں رائج  زبانوں سے مل کر بنی اس لیے ہندوستان کی قدیم زبانوں کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے تاکہ اردو کی تاریخ کو باآسانی سمجھا جا سکے۔

 ہند آریائی زبانیں:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 1500سال قبل آریہ سماج کی آمد ہندوستان میں ہوئی۔ آریہ یہاں کی دراوڑ قوم کو شکست دے کر شمالی ہند پر قابض ہوئے اور دراوڑ لوگ دکن کی طرف ہجرت کرگئے۔ کچھ ایسے دراوڑ بھی تھے جو وہیں مقیم رہے۔ پھر یہیں سے دو قوموں کا اختلاط شروع ہوتا ہے۔ اس طرح دراوڑ اور آریہ دونوں نے ایک دوسرے کا اثر قبول کرنا شروع کیا اور زبان و بیان اور الفاظ کا لین دین شروع ہوا۔ اب دونوں قوموں کے آپسی رشتے کی وجہ سے آریائی زبان میں تبدیلیاں آنے لگیں۔ لیکن یہ تبدیلی آریوں کے لیے اچھی بات نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی زبان کو مقامی زبان یا بولیوں سے پاک صاف کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے اسے پھر سے منظم کرکے صرف ٹکسالی الفاظ کو ہی جگہ دی اور مقامی بولیوں کے الفاظ کو نکال پھینکا۔ اس طرح یہ زبان سنسکرت (شستہ)کے نام سے وجود میں آئی جسے کافی فروغ بھی حاصل ہوا۔ لیکن اس میں ادبیت پیدا ہونے کی وجہ سے عوام کا رشتہ اس زبان سے ٹوٹنے  لگا۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ دیگر زبانوں کا جنم ہوا۔

ہند آریائی زبانوں اور ان کے ارتقائی ادوار کو      محققین نے جو شکل دی ہے وہ یوں ہے:

1۔ قدیم ہند آریائی 1500 ق م سے 500 ق م تک

  وسطی ہند آریائی 500 ق م سے 1000ء تک

3۔ جدید ہند آریائی 1000ء سے موجودہ عہد تک

1۔قدیم ہند آریائی:

قدیم ہند آریائی تقریباً 900 سال پر محیط ہے۔ اس کو بھی پانچ منزلوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

1۔ وید کی منزل: اس میں مذہبی زبان کو اہمیت حاصل تھی۔

2۔ پاننی کی منزل: اس  میں سنسکرت عالموں کی زبان بن گئی۔

3۔ رزمیہ منزل: اس میں سنسکرت سرکاری زبان بن گئی۔

4۔ ٹکسالی منزل: اس میں سنسکرت کے اصول متعین کیے گئے جس کی وجہ سے اس زبان سے عوام کی دوری قائم ہوئی۔

5۔ پالی  پراکرت یعنی پالی منزل: جب سنسکرت کے اصول بنائے گئے تو سنسکرت سے عوام کا رشتہ ختم ہونے لگا اور جس زبان کا جنم ہوا وہ پراکرت کہلائی۔ یہ وہی منزل ہے۔

 2۔وسطی ہند آریائی:

اس دور میں  پراکرت کا آغاز و ارتقا ہوا۔ یہ زبان ترقی کرتی گئی اور الگ الگ مقامات پر اس کی شکلیں بدلتی گئیں۔ محققین نے ان علاقوں کے مد نظر اس پراکرت کو پانچ حصوں میں بانٹ کر دیکھا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مہاراشٹری: اسے ادبی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے یہ سب سے اہم مانی جاتی ہے۔ یہ مہاراشٹر میں بولی جاتی تھی۔

2۔ شورسینی پراکرت: یہ سنسکرت سے بہت قریب تھی۔ اس کا علاقہ متھرا اور اس کے اردوگرد کا علاقہ تھا۔ اس میں کھڑی بولی اور برج بھاشا کو اہمیت حاصل تھی۔

3۔ ماگدھی: اس کا علاقہ جنوبی بہار تھا۔ چونکہ یہ علاقہ آریوں کے مرکز سے دور تھا اس لیے اس کو اہمیت نہیں دی گئی۔

4۔ اردھ ماگدھی: یہ پراکرت شورسینی اور ماگدھی کے درمیانی حصے میں بولی جاتی تھی۔ یعنی بہار اور الٰہ آباد کے درمیان کا علاقہ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے شورسینی اور  ماگدھی کی درمیانی کڑی بھی کہا گیا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس زبان کو گوتم بدھ اور مہاویر جین نے اپنایا۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہی اس وقت معیاری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔

5۔ پشاچی: یہ پراکرت کشمیر اور پنجاب پر پھیلی تھی۔

 3۔ جدید ہند آریائی:

جس طرح  سنسکرت سے عوام کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا اور اس کی جگہ پراکرت کا وجود ہوا اسی طرح پراکرت کو ادبی مقام حاصل ہونے کی وجہ سے عوام کا اس سے رشتہ ٹوٹنے لگا۔ اور عوام بول چال کی زبان بولنے لگے۔ جو زبان عوام نے بولنا شروع کیا وہ اپ بھرنش (بگڑی ہوئی زبان)کہلائی۔ دھیرے دھیرے عوام کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس کی طرف مائل ہونے لگے اور اپ بھرنش کو بھی فروغ ملنے لگا۔ یوں اپ بھرنش کو بھی پانچ حصوں میں بانٹا گیا ہے۔

1۔ شورسینی اپ بھرنش: متھرا کا علاقہ ہے۔ وہاں بولی جانے والی دو بولیوں کھڑی اور برج بھاشا کو اہمیت حاصل ہے۔ انہی بولیوں سے مل کر ہندوستانی زبان بنی جسے آج اردو اور ہندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی کے تحت راجستھانی، پنجابی اور پہاڑی بولیاں بھی آتی ہیں۔

2۔ماگدھی اپ بھرنش: یہ بہار سے بنگال اور آسام تک پھیلی ہوئی تھی۔بہار کی بولیاں اسی سے نکلیں ہیں۔

3 ۔ اردھ ماگدھی: یہ بہار سے الٰہ آباد تک کے علاقے پر مشتمل ہے۔ اودھی، چھتیس گڑھی اور بھوج پوری اسی سے بنی ہیں۔

4۔ مہاراشٹری اپ بھرنش: یہ مہاراشٹر میں بولی جانے والی اپ بھرنش ہے۔

5۔ پراچڈ اور کیکئی اپ بھرنش: پراچڈ سے سندھی اور کیکئی سے لہندا زبان پیدا ہوئی۔

            اس طرح دیکھا جائے تو اردو، ہندی، گجراتی، پنجابی، اودھی، راجستھانی، بنگالی، آسامی، اڑیا، مراٹھی اور سندھی جدید ہند آریائی زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

مغربی ہند اور اس کی بولیاں:

            مغربی ہند سے مراد مدھیہ دیش کے حدود ہیں۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں سنسکرت، شورسینی پراکرت اور شورسینی اپ بھرنش کو فروغ حاصل ہوا۔پھر اسی سے جدید یا نئی بولیوں کا جنم ہوا۔ وہ بولیاں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ کھڑی بولی (ہندوستانی)  : یہ مغربی ہندی کے شمال مغربی علاقہ میں بولی جانے والی بولی ہے۔

2۔ برج بھاشا: یہ متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقے میں بولی جانے والی بولی ہے۔

3۔ ہریانوی: یہ ہریانہ میں بولی جانے والی بولی ہے۔

 4۔بندلی: یہ بولی بندیل کھنڈ میں بولی جاتی تھی۔

 5۔قنوجی: یہ بولی فرخ آباد  میں بولی جاتی تھی۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments