غالب کی غزل گوئی | Ghalib ki ghazal goi

 غالب کی غزل گوئی

۔ وفات ۱۸۶۹، دہلیپیدائش ۱۷۹۷، آگرہ

مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ اردو کے ایک عظیم شاعر تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کی دنیا میں ایک انقلاب لایا۔ شعری کائنات میں ان کا اصل میدان غزل گوئی ہے۔ غالب کی غزل گوئی پر بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نےاس میں اپنا الگ مقام و مرتبہ قائم کیا۔ اس غزلیہ روایت میں انہوں نے اپنا الگ راستہ بنایا۔ غالبؔ کودوسروں کے راستے پر چلنا بالکل ناپسند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نیا پن اور جدت کا پہلو غالب ہے۔ ’’دیوان غالب‘‘ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں زیادہ تر حصہ غزلوں کا ہے۔ یہ دیوان غالبؔ کی زندگی میں ہی پانچ بار شائع ہوچکا تھا۔ اس سے ان کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

غالب کی غزلوں میں فارسی  :

غالبؔ کو اردو اور فارسی دونوں زبان پر مہارت حاصل تھی۔ اور انہیں اردو سے زیادہ فارسی پر فخر تھا۔ انہوں نے شروع میں فارسی میں شعر کہے اور اس پر انہیں ناز بھی تھا۔ بعد میں انہوں نے اردو کی اہمیت و افادیت کو دیکھتے ہوئے اردو میں شاعری شروع کی۔ ان کے ابتدائی اشعار کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فارسی آمیز زبان کا استعمال کیا ہے۔ یعنی انہوں نے فارسی کے الفاظ کا استعمال بکثرت کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری مشکل ہوگئی تھی لیکن جلد ہی انہوں نے مشکل پسندی کے راستے کو ترک کیا اور سادہ و آسان زبان میں شعر کہنے لگے۔

غالبؔ کی شاعری کے مشکل ہونے کی ایک وجہ تو  یہی ہے کہ انہوں نے فارسی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا، دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں تشبیہات ، استعارات، علامات اور اشارات بھی موجود ہیں اور ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا تخیل کافی بلند تھا۔ ان کا خیال بہت اونچی اڑان رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری لوگوں کو جلد سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ انہوں نے مختلف مقامات پر بہت سے اشعار  کی تشریح بھی کر دی ہے۔

غالب کی غزلوں میں فکر و فن :

غالبؔ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے  اردو غزل کو فکر و ذہن عطا کیا۔ جیساکہ آل احمد سرور ان کی غزلوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی، غالب نے اسے ذہن دیا۔‘‘

یہ حقیقت بھی ہے کہ غالب سے پہلے اردو غزل کی دنیا بہت محدود تھی۔ اردو غزل کے موضوعات حسن و عشق ہی ہوا کرتے تھے۔ لیکن غالبؔ نے اردو غزل کو نیا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اردو غزل میں نئے نئے موضوعات کو شامل کیا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے زندگی کے حقیقی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

غالب کی غزلوں میں تہہ  داری :

غالبؔ کی غزلوں کی  خصوصیت یہ ہے کہ ان میں تہہ داری موجود ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی غالبؔ کی غزلیں مشکل لگتی ہیں۔ تہہ داری کا مطلب یہ ہے شعر کو ایک بار پڑھنے سے کوئی مطلب  سمجھ میں آئے گا اور دوبارہ اس شعر کو پڑھیں یا اس پر غور کریں تو اس کی تہہ سے کوئی دوسرا معنی بھی نکلتا ہے۔ غالبؔ کی غزلوں  میں یہ خصوصیت جابجا نظر آتی ہے۔

غالب کی غزلوں میں حسن و عشق :

غالبؔ کی شاعری میں حسن و عشق کے موضوعات بھی بکثرت ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ان کی غزلوں میں گہرائی موجود ہے۔ غالبؔ نے اپنی غزلوں میں حسن کی مختلف کیفیات کو پیش کیا ہے  اور عشق و محبت کی واردات کو داخلی انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری میں درد و غم بھی نظر آتا ہے۔ یہ غم ان کی ذات، عشق، فکر معاش اور زمانے غرضیکہ سب سے پیدا ہوتا ہے۔

غالب کی غزلوں میں تصوف :

غالبؔ کی غزلوں میں تصوف کے موضوعات بھی ہیں۔ خاص کر انہوں نے فلسفہ وحدت الوجود کو  موضوع بنایا۔ ان کے یہاں فنا و بقا، انسان دوستی ، ان سے ہمدردی کا جذبہ اور حقیقت ہستی وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔

غالب کی غزلوں میں جدت :

غالب ؔجدت پسند تھے۔ وہ کسی کی پیروی نہیں کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نئے نئے موضوعات اور نئے نئے خیالات موجود ہیں۔ اگر پرانے خیالات کو پیش بھی کرتے ہیں تو اسے بھی منفرد انداز میں پیش کرتے ہیں۔

غالب کی غزلوں میں شوخی و ظرافت :

غالبؔ کی طبیعت میں شوخی و ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ جسے دیکھتے ہوئے حالیؔ نے انہیں حیوان ظریف کہا ہے۔ جو بھی حالت رہی ہو اور مشکل کا دور رہا ہو  غالبؔ ہر وقت شوخی و ظرافت کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن غالبؔ ہنستے رہے اور اپنے شوخ طبع سے لوگوں کو ہنساتے رہے۔ ان کی شاعری میں بھی شوخی و ظرافت کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ اسی طرح طنز و مزاح بھی ان کی شاعری میں موجود ہے۔

غالبؔ کی شاعری کی ایک بڑی اور اہم خصوصیت ان کا دلکش اسلوب اور پر اثر اندازبیان ہے۔ غالبؔ نے بہت ہی عمدہ انداز میں سلاست ، روانی، سادگی اور صفائی سے اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments