میر تقی میرؔ کی غزل گوئی | Meer Taqi Meer ki ghazal goi

 میر تقی میرؔ کی غزل گوئی

میر تقی میر ؔ کا  اصل نام محمد تقی تھا۔ میرؔ کی پیدائش 1722-23ء کو آگرہ میں ہوئی اور وفات 1810ء کو لکھنئو میں ہوئی۔ میرؔ اردو کے ایک  بڑے اور عظیم شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے ایک بڑے شاعر ہونے میں کسی کو انکار نہیں۔ بلکہ بڑے بڑے شاعروں نے ان کی عظمت کو مانا ہے۔ غالبؔ جو اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے انہوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ جیساکہ  اپنی شاعری میں لکھتے ہیں:

ریختے کے تمہیں  استاد نہیں  ہو  غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

ان کی عظمت کا راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دل پر گزرنے والی بات کو سادہ اور بول چال کی زبان میں بیان کیا۔ میر نے اسے اس انداز سے بیان کیا ہے جسے پڑھنے والے کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے دل پر گزرنے والی بات ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ میرؔ نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔

میر کی شاعری میں درد و غم:

میر کی شاعری  میں درد و غم، مایوسی، اداسی اور ناکامی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اور یہ درد و غم ان کی ذات اور زمانہ دونوں سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر میرؔ اسے اپنے اشعار کا حصہ بناتے ہیں۔ خاص کر ان کے ذاتی غموں کی تصویر ان کی غزلوں میں موجود ہے۔ چونکہ غموں نے میرؔ کو بے حال کر دیا تھا، بچپن سے ہی ان کو پریشانیوں  اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی زندگی بہت پریشان کن تھی۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا اور پھر منہ بولے چچا بھی چل بسے تھے۔ سوتیلے بھائی سے کچھ امید تھی لیکن انہوں نے ان کے ساتھ دشمن جیسا برتاؤ کیا۔ آگرہ سے دہلی روزگار کے لیے گئے تھے لیکن سوتیلے بھائی کے برتاؤ کی وجہ سے میرؔ کافی پریشان ہوئے۔ دلی کی گلیوں میں بھٹکتے رہے۔ یہاں تک کہ غموں نے ان کو دیوانہ بنا دیا۔ اسی طرح نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی  نے حملے کر کے دلی کو برباد کردیا تھا جس کی وجہ سے میرؔ اور زیادہ پریشان ہوئے۔ یہاں تک کہ دلی کے اجڑجانے کے بعد  میرلکھنئو ہجرت کرگئے۔

یہی وہ جوہات ہیں جن سے میر کی شاعری درد وغم سے بھری ہوئی ہے۔ چونکہ میرؔ کی آواز دل سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے اس لیے پڑھنے والے ان کے اشعار سے فوراََ متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میرؔ کا درد وغم قاری کو اپنا درد و غم معلوم ہونے لگتا ہے۔

میرؔ کی غزل میں عشق :

عشق مجازی: میر کی غزل میں عشق کے موضوعا ت بھی ہیں۔ ان کے عشق و محبت کے موضوعات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ رسمی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ یعنی میرؔ نے کسی سے عشق کیا اور اس عشق سے انہیں جو چوٹ لگی اسی کا عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں خلوص اور سچائی کا احساس ہوتا ہے۔ میرؔ کی شاعری میں عشق کی ناکامیوں اور محرومیوں کا بھی ذکر ہے۔ وہاں انہوں نے غم اور تڑپ کا اظہار کیا ہے جو پڑھنے والے دل کو بھی تڑپاتی ہے۔ مثلاً:

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

عشق حقیقی اور تصوف:

میرؔ غزلوں میں عشق حقیقی کے موضوعات بھی ہیں اور تصوف کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں صبر، دررمندی، غموں سے نباہ، دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے جو موضوعات ہیں وہ اسی تصوف کی دین ہے۔

سادگی کاعنصر:

میرؔ جس بھی موضوع کو اپنی شاعری میں اختیار کرتے ہیں اور جو بھی خیال پیش کرتے ہیں اسے بہتر اور عمدہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے جذبات میں سچائی اور سادگی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ان کے یہاں بناوٹ بالکل نہیں ہے۔

میر کی غزل میں موسیقیت:

میرؔ کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نغمگی، موسیقیت  اور ترنم  کا عنصر بھی موجود ہے۔ میرؔ مترنم بحروں کا بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

پتا پتا  بوٹا  بوٹا  حال  ہمارا  جانے  ہے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

چھوٹے مصرعے:

میرؔ کی غزلوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے چھوٹے مصرعوں کا بھی بخوبی استعمال کیا ہے۔ان چھوٹے مصرعوں کی خوبی یہ ہے کہ میرؔ ان میں بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے دل کے دردکی کیفیت کو جہاں بیان کیا ہے وہاں ان کا شعر اور زیادہ پُر اثر بن جاتا ہے۔ مثلا:

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو  آتا  ہے  جب  نہیں  آتا

الفاظ کا استعمال:

میرؔ نے اپنی شاعری میں سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو مشکل بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے سادگی کو اہمیت دی ہے۔ انہوں نے فارسی اور عربی کے الفاظ کا استعمال بھی بہت کم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں سادہ، آسان اور عام فہم ہیں۔

تشبیہات و استعارات کا استعمال:

میرؔ کی شاعری میں مختلف صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس کے ذریعہ بھی میرؔ نے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ہے۔ خاص کر انہوں نے تشبیہات و استعارات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ یہاں بھی انہوں نے سادگی کا خاص خیال رکھا ہے اور بہت سادہ انداز میں اپنی بات یا خیال کو پیش کیا ہے اور یہ تشبیہیں اس کو حسن عطا کرتی ہیں۔ مثلاً:

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہوں

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

پیکر تراشی:

میرؔ کی غزلوں کی ایک خوبی پیکر تراشی ہے۔ یعنی میرؔ اپنی غزلوں میں حالات یا واقعات کی تصویر لفظوں کے  ذریعہ بناتے ہیں جس سے وہ منظر قاری کے سامنے آجاتا ہے اور اسے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کے سامنے کی بات ہے اور شاعر جو کچھ بھی کہہ رہا ہے یا جس کی تصویر کشی کر رہا ہے وہ اس کے سامنے کی چیز ہے۔ مثلاً:

چلتے  ہو  تو  چمن کو  چلیے  کہتے  ہیں  بہاراں  ہے

پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے

میرؔ پیکر تراشی میں بھی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیتے ہیں جن سے ان کی شاعری میں اور زیادہ اثر اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔


ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments