شمالی ہند میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا | Shimali Hind mein urdu shayri ka aaghaz o irteqa

 شمالی ہند میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا

            اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز دکن میں ہوا اوروہیں اسے ترقی بھی ملتی رہی۔ جب کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کا آغاز بہت دیر میں ہوا۔ جب ولیؔ دکنی 1700ء کو دہلی گئے اور وہاں کے لوگوں نے ان کا کلام سنا تو انہیں اس اس بات پر حیرانی ہوئی کہ اردو جیسی زبان میں بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ پھر ولیؔ دہلی سے واپس چلے گئے اور 1720ء میں پھر ان کا دیوان دہلی پہنچا۔ اہل دہلی نے ولیؔ کا دیوان ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور انہیں اب صحیح اندازہ ہوا کہ اردو جسے گری پڑی زبان تصور کیا جاتا تھا اس میں بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ اس طرح پورے شمالی ہند میں اس کا چرچا عام ہوگیا اور وہاں بھی اردو زبان کو اپناتے ہوئے اردو شاعری میں اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اردو شاعری کو ترقی ملتی گئی۔

دیکھا جائے تو ولیؔ دکنی کے دہلی جانے سے پہلے ہی چند شاعروں نے شمالی ہند میں اردو شاعری کا بیج بو دیا تھا۔ اس سلسلے میں پہلا نام امیر خسرو کا آتا ہے۔  ان کی کچھ غزلیں اردو کی شکل میں موجود ہیں۔ امیر خسرو کو اردو کا پہلا غزل گو شاعر بھی کہا گیا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے فارسی کے شاعر مسعود سعد سلمان کو بعض لوگوں نے پہلا اردو شاعر مانا ہے لیکن ان کے شعری نمونے موجود نہیں ہیں۔

اس سلسلے میں دوسرا نام افضل پانی پتی کا آتا ہے۔  انہوں نے مثنوی کی شکل میں ایک بارہ ماسہ (بارہ ماسہ:فراق شوہر میں عورت کا ہر مہینے اپنے شوہر کو یاد کرکے تڑپنا اور اس کا ذکر کرنا)لکھا۔شمالی ہند کی اردو شعری روایت میں اس کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے علاوہ جعفر زٹلی کا بھی تعلق شمالی ہند سے ہے۔ انہوں نے بھی اردو میں شاعری کی۔ ان کے بھی اردو کلام موجود ہیں۔

            ان تینوں شاعروں کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے شمالی ہند میں اردو شاعری کی بنیاد ڈالی۔ پھر جب ولیؔ دکنی اور ان کا دیوان دہلی پہنچا تب شمالی ہند کے لوگوں نے اردو کی اہمیت کا اندازہ کیا اور اس زبان میں شعر و شاعری کرنے لگے۔

شمالی ہند کے ابتدائی شعرا :

شمالی ہند کے ابتدائی شعرا میں خان آرزوؔ، آبروؔ،ناجیؔ اور مضمونؔ قابل ذکر ہیں۔ولیؔ کے شمالی ہند جانے کے  بعد انہوں نے ہی سب سے پہلے اردو میں شاعری کا آغاز کیا۔ اس وجہ سے ان کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔ ان شعرا کے کلام کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایہام گوئی (دو معنی والے الفاظ) کو جگہ دی ہے جسے شاعری کے لیے نقصان دہ مانا جاتا ہے۔ کیونکہ شاعر اس تجربے میں اپنی فکر کھو بیٹھتا ہے اور ساتھ ہی قاری کو بھی سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

1۔ آرزو:

    ان کا پورا نام سراج الدین علی خان آرزوؔ ہے۔ آرزو اپنے عہد کے ایک بڑے فارسی شاعر تھے۔ انہوں نے شمالی ہند میں اردو شاعری کی روایت میں حصہ لیا۔ اردو دنیا میں ان کے 27 اشعار موجود ہیں۔ ان کے اردو اشعار تو کم ہیں لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک تو وہ ابتدائی شاعر تھے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے دوسرےاہم شاعروں کی تربیت کی۔ ان کے اثر سے ہی بہت سے لوگوں نے اردو میں شعر گوئی کی طرف اپنا رجحان بنایا۔ ان کے شاگردوں میں آبروؔ، مضمونؔ، سوداؔ اور میرؔ قابل ذکر ہیں۔

2۔ آبرو

شمالی ہند کے اردو شعری روایت میں نجم الدین شاہ مبارک آبروؔ کا نام بھی اہم ہے۔ خوشگوؔ نے انہیں اردو شاعری کا آبرو کہا ہے۔ ان کی شاعری میں بھی ایہام گوئی پائی جاتی ہے۔ ان کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جو ایہام گوئی سے پاک بھی ہیں۔ جو بہت موثر ہیں۔

3۔ ناجی

 اسی طرح محمد شاکر ناجیؔ نے بھی اردو شاعری کی روایت میں حصہ لیا۔ ان کی شاعری میں صنعتوں کی کثرت ہے جو کہ ان کی شاعری کی ایک خامی ہے۔ کیونکہ ان کے ایسے اشعار جہاں صنعتوں کا استعمال زیادہ ہوا ہے وہ بناوٹی نظر آتے ہیں۔ خصوصاً انہوں نے ایہام گوئی کی طرف زیادہ توجہ دی جس سے ان کی شاعری پیچیدہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے غزل کے علاوہ قصیدے اور مرثیے بھی لکھے۔

4۔ مضمون

 ان ابتدائی شعرا میں مضمونؔ کو بھی اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اردو شاعری کی روایت میں حصہ لیا۔ ان کے یہاں بھی ایہام گوئی کا زور ہے۔

            اس کے بعد شمالی ہند میں اردو شاعری کی روایت میں دو اہم نام بھی قابل ذکر ہیں۔ ایک ظہور الدین حاتم اور دوسرے جان جاناں مظہرؔ۔ ان دونوں شاعروں نے سب سے پہلے ایہام گوئی کی مخالفت کی اور اردو شاعری کو ایہام گوئی سے پاک کرنے کی کوشش کی۔

5۔ حاتم

ظہور الدین حاتم دہلی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے بچپن میں ہی شاعری سے اپنی دلچسپی پیدا کرلی تھی۔ ان کی ابتدائی شاعر ی کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شروع میں ایہام گوئی کو اپنایا۔ لیکن جلد ہی انہوں نے اس کی خرابیوں کا اندازہ لگاتے ہوئے۔ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر انہوں نے اپنی شاعری کا انتخاب کیا جو مجموعہ "دیوان زادہ" کے نام سے منظر عام پر آیا۔

6۔ جان جاناں

 مرزا مظہر جان جاناں عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ انہوں نے اردو میں بھی شاعری کی۔انہوں نے ایہام گوئی سے اپنی شاعری کو محفوظ رکھا۔ انہوں نے صاف، ستھرااور پر اثر شاعری اردو شعری روایت کو عطا کرکے ایک اہم اضافہ کیا ہے۔

7۔ فائز

 اسی عہد سے تعلق رکھنے والے ایک اور شاعر ہیں جن کا نام نواب صدرالدین محمد خان فائزؔ ہے۔ ان کی شاعری میں عشق کے موضوعات زیادہ ہیں۔

            یہ وہ شعرا ہیں جن کا تعلق دہلی سے تھا۔ انہوں نے شمالی ہند میں سب سے پہلے سنجیدگی سے شاعری کا آغاز کیا۔ اور انہی کے ذریعہ باقاعدہ اردو شاعری کی روایت قائم ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ انہیں شمالی ہند کے دورِ اول کے شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔

شمالی ہند میں اردو شاعری کا دوسرا دور :

مذکورہ شعرا کے بعد میرؔ، دردؔ،سوزؔ اور سوداؔ  اردو شاعری کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان شعرا کو دوسرے دور میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی روایت میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اسے آسمان کی بلندی تک پہنچایا۔ انہوں نے اردو شاعری کو نیا راستہ دکھایا اور نیا انداز و اسلوب اور نئی فکر عطا کی۔ ان شاعروں کے موضوعات میں تصوف کو کافی  اہمیت حاصل رہی ہے۔ خصوصاً دردؔ اور سوز کے یہاں تصوف کے رنگ زیادہ ہیں۔ جب کہ میرؔ اور سوداؔ کے یہاں کم ہے۔ زبان و اسلوب کے اعتبار سے بھی یہ دور اہم رہا ہے۔ کیونکہ ان شعرا نے اپنی شاعری میں سادگی، سلاست اور روانی پیدا کی ۔

میر تقی میر :

            اس دور کا سب سے بڑا اور اہم نام میر تقی میرؔ کا ہے۔ ان کی پیدائش 1722 یا 1723 کو آگرہ میں ہوئی اور وفات 1810ء کو ہوئی۔ میرؔ اپنے عہدکے سب سے بڑے شاعر تو تھے ہی لیکن کچھ لوگوں نے انہیں اردو کا سب سے بڑا شاعر مانا ہے۔ میرؔ کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دلی کیفیات کو سادے الفاظ اور بول چال کی زبان میں بہت ہی پر اثر انداز سے شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اور اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری جب ان کی شاعری پڑھتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کی خود کی دلی کیفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔ چونکہ میرؔ کی زندگی پریشانیوں سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے روزی کی تلاش میں آگرہ سے دہلی اور پھر وہاں کے نا آسودہ صورت حال سے لکھنئو کا سفر کیا۔ اس دوران انہیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سےمیرؔ بالکل ٹوٹ چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں درد وغم، آہ، محرومی، مایوسی اور اداسی صاف طور پر نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی تمام کیفیات کے اظہار میں آسان، بول چال اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے شعری وسائل کا بھی سہارا لیا ہے جو کہ بہت پر کشش ہوتے ہیں۔ میرؔ کی یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جس سے میرؔ کی عظمت قائم ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی شاعری سے اردو شاعری کی روایت کو نیا آہنگ و اسلوب ملتا ہے۔

سودا :

            اس عہد کے دوسرے بڑے شاعر محمد رفیع سوداؔ ہیں۔ ان کی پیدائش 1712ء کو ہوئی اور وفات 1781ء کو زیادہ آم کھانے کی وجہ سے ہوئی۔سوداؔ پہلے فارسی کے شاعر تھے۔ جب خان آرزوؔ نے انہیں اردو میں شاعری کرنے کا مشورہ دیا تو وہ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے اردو شعری روایت میں حصہ لے کر تقریباً تمام اصناف شاعری کے دامن کو وسیع کیا۔ خاص طور سے ان کی غزلیں اور قصیدے قابل ذکر ہیں۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ میرؔ سے الگ راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے یہاں داخلیت نہیں بلکہ دلکشی ہوتی ہے۔ یعنی انہوں نے شاعری کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی  ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی غزلوں سے زیادہ ان کے قصیدے مقبول ہوئے۔ قصیدے کی روایت میں انہیں "قصیدے کا نقاش اول" کہا گیا ہے۔ اور ہجویہ قصیدہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ سوداؔ نے قصیدے کی روایت میں حصہ لے کر اسے بلند مقام پر پہنچایا۔ انہوں نے قصیدے کے تمام اجزا کو بھی اپنانے میں کامیابی حاصل کی۔ زبان و اسلوب کے حوالے سے دیکھا جائے تو سوداؔ وہاں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مناسب اور موزوں اسلوب کو اختیار کیا۔

درد :

            شمالی ہند کی شعری روایت کے دوسرے دور کے تیسرے بڑے اور اہم شاعر خواجہ میر دردؔ ہیں۔ درد کی پیدئش 1721ء کو ہوئی اوروفات 1785ء کو ہوئی۔ دردؔ ایک صوفی بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی صوفیانہ خیالات کثرت سے نظر آتے ہیں۔ درد نے غزل کو اختیار کیا اور اس میں تصوف کے مضامین کو جگہ دی ہے۔ اسی لیے انہیں صوفی شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں بھی میرؔکی طرح سوز و گداز  اور درد موجود ہے۔

سوز :

درد ؔ کے بعد محمد میر سوزؔ نے اس شعری روایت کو قائم رکھا۔ ان کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے فارسی کے مشکل الفاظ اور عربی کے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا ہے اور خالص اردو میں شاعری کی ہے۔ اور اسی سے انہوں نے اپنی شاعری میں لطف پیدا کی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو ان کی شاعری میں کوئی گہرائی نہیں ہے۔ لیکن زبان کی لطافت کی وجہ سے ان کی شاعری مقبول ہوئی۔

یہ وہ چار بڑے شعرا ہیں جن کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔ انہوں نے اس دور میں اردو شاعری کو آسمان کی بلندی تک پہنچایا۔ دیکھا جائے تو ان کے دور میں اور بھی شعرا تھے جنہوں نے اردو میں شاعری کی۔ گرچہ وہ شعرا ان چاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن ان کی اپنی اہمیت مسلم ہے۔ ان شعرا میں محمد قیام الدین قائمؔ چاندپوری اور میر دردؔ کے چھوٹے بھائی خواجہ میر اثرؔاور میر حسنؔ قابل ذکر ہیں۔ قائم ؔ اپنی مثنویوں اور غزلوں کی وجہ سے ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ میر اثرؔ اپنی عشقیہ مثنوی "خواب و خیال" کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں اہم مقام کے حامل ہیں۔ اسی طرح میر حسنؔ کو ہم ان کی لاجواب مثنوی سحر البیان کی وجہ سے جانتے ہیں۔

دہلی سے شاعروں کی ہجرت :

             اس کے بعد جب دہلی پر لگاتار حملہ ہونے لگا تو بہت سے لوگوں نے دہلی سے لکھنئو کا رخ کیا۔ اس سے پہلے سوزؔ اور سوداؔ وغیرہ جب لکھنئو گئے تو اہل لکھنئو نے اردو شاعری کا تذکرہ سنا لیکن لکھنئو میں شاعری کی باقاعدہ بنیاد انشاؔ، جرات اور مصحفی کے ذریعہ قائم ہوئی۔ یہ تینوں شاعر دہلی سے لکھنئو گئے اور وہاں اردو شاعری کی بنیاد رکھی۔ پھر لکھنئو میں شعر و شاعری کی روایت کو مزید ترقی ملی۔ لکھنئو کے شاعروں کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اصلاحِ زبان اور لفظوں کے انتخاب پر زیادہ زور دیا۔ انشاء اللہ خاں انشاؔ کی غزلیں ، قصیدے، مثنویاں، نظمیں اور قطعات قابل ذکر ہیں۔خصوصاً ان کے قصیدے بہت دلکش ہوتے ہیں۔ یحیٰ امان جراتؔ نے بھی  ارود شعری روایت میں حصہ لیا اور اپنی شاعری میں عشق کے معاملات کو زیادہ جگہ دی ہے۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ نے اپنی کثیر شاعری سے اردو شاعری کی روایت کے دامن کو وسیع کیا۔ شاعری کے ان کے آٹھ دیوان ہیں اور ایک قصیدے کا خاص دیوان ہے۔

دہلی میں دوبارہ شاعری کا ماحول :

            پھر جب دہلی کی حالت میں بہتری آئی تو ایک بار پھر وہاں شعر و شاعری کی محفل قائم ہوئی۔ جس میں شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ، مرزا اسداللہ خاں غالبؔ، محمد مومن خاں مومنؔ اور آخری مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ وغیرہ نے حصہ لے کر اردو شاعری کی روایت میں قیمتی اضافہ کیا۔ ذوقؔ نے غزلیں اور قصیدے کہے۔ قصیدہ نگاری میں انہیں کافی مقبولیت ملی۔ دیکھا جائے تو سوداؔ کے بعد دوسرے بڑے قصیدہ نگار ذوق ہی ہیں۔ اس طرح انہوں نے غزل کے ساتھ قصیدہ نگاری کی روایت میں بھی اضافہ کیا۔

غالب :

            اس عہد کا سب سے بڑا نام غالبؔ کا ہے۔ انہوں نے اردو شعری روایت میں نئے موضوعات اور نئے مضامین کو شامل کر کے شاعری کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالبؔ سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی، غالبؔ نے اسے ذہن دیا۔ ان کی شاعری میں تخیل کی بلندی، تہہ داری، فلسفیانہ انداز کے ساتھ ساتھ شوخی و ظرافت بھی موجود ہے۔ گویا غالبؔ نے اردو شاعری کو ہر اعتبار سے مالا مال کیا چاہے اس کا تعلق موضوعات سے ہو یا زبان و بیان اور اسلوب سے۔

مومن :

            اسی عہد سے تعلق رکھنے والے شاعر مومنؔ کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ مومن اس عہد کے دوسرے بڑے شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے غزل کو اختیار کیا اور اس میں حسن و عشق کی باتوں کو الگ الگ اور نئے نئے انداز میں بیان کیا ہے۔ مومن اپنے اسی اچھوتے انداز کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوئے۔

لکھنئو میں شاعری :

            قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عہد میں جہاں دہلی میں ان شعرا نے اردو شاعری کی روایت میں حصہ لے کر اسے نئی بلندی اور بلند مقام عطا کی وہیں ساتھ ہی لکھنئو میں بھی ناسخؔ اور آتشؔ جیسے اہم شاعروں نے ارود شاعری میں حصہ لے کر اس روایت میں زبان و بیان کے اعتبار سے اضافہ کیا۔ انہوں نے اردو زبان کو سنوارا اور صاف ستھرا کیا۔ شیخ امام بخش ناسخ اس سلسلے میں سرِ فہرست ہیں انہوں نے اصلاح زبان پر زیادہ زور دیا اور اردو شاعری کی زبان میں دلکشی اور روانی پید ا کی۔

            اسی طرح خواجہ حیدر علی آتشؔ نے بھی اردو شاعری میں زبان کو حسن عطا کیا اور اسے دلکش بنایا۔ اسی عہد سے تعلق رکھنے والے دیا شنکر نسیم کا بھی نام اہم ہے جو اپنی مثنوی "گلزار نسیم" کی وجہ سے اردو شعری روایت میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس عہد میں اردو شاعری کی صنف مرثیہ نگاری کی روایت میں میرخلیقؔ، میر ضمیرؔ، انیسؔ اور دبیرؔ نے حصہ لے کر اس میں نئے اضافے کیے۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments