فورٹ ولیم کالج کی لسانی و ادبی خدمات | Fort William College ki lisani wa adabi khidmaat


فورٹ ولیم کالج کی لسانی و ادبی خدمات

 فورٹ ولیم کالج کی لسانی و ادبی خدمات 

مختصر تعارف:

اردو  زبان و ادب کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کا ایک اہم مقام ہے۔ اس کالج نے اردوکی جو خدمت کی اسے کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ اس کالج نے اردو کے دامن کو وسیع کیا۔ اسے نیا انداز  واسلوب بھی عطا کیا اور زبان کی سادگی کا ایک عمدہ راستہ دکھایا۔ ساتھ ہی اس نے ترقی کا نیا راستہ دکھایا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس کالج کے قیام کا مقصد انگریز افسروں کو ہندوستانی تہذیب اور زبانوں سے واقف کرانا تھا تاکہ انہیں تجارتی اور سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں۔ بہر حال گرچہ اس کالج کا مقصد کچھ اور تھا لیکن اس سے اردو کو جو فائدہ ہوا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

فورٹ ولیم کالج کا قیام لارڈ ولزلی کے ذریعہ 10/ جولائی 1800ء میں ہوا لیکن اس کی تاریخ پیچھے ہٹا کر 4/ مئی 1800ء درج کی گئی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ 4/ مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان کو انگریزوں نے شکست دی تھی۔ اس سے انگریزوں کو بہت خوشی ملی تھی اور ان لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ  "اب ہندوستان ہماراہے" اس دن کو یادگار بنانے کی خاطر لارڈ ولزلی نے 4/ مئی کی تاریخ درج کرائی۔

بہر حال جب کالج کھل گیا اور ہندوستانی زبانوں کا شعبہ بھی قائم ہو گیا تو کتابوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ اس وقت پڑھانے یا سکھانے کے لیے کوئی مناسب کتاب موجود نہیں تھی۔ اس لیے جان گلکرسٹ جو ہندوستانی شعبے کے نگراں تھے انہوں نے اس وقت کے قلم کاروں اور استادوں کو بلا کر اس کالج سے منسلک کیا تاکہ وہ قصے کہانیاں سنا کر انگریزوں کو اردو بولنا سکھائیں اور فارسی اردو کی مشکل کتابوں کا ترجمہ کرکے آسان کتاب تیار کیا جاسکے جس سے انگریز آسانی کے ساتھ اردوسیکھ سکیں۔ پھر قلم کاروں اور استادوں کو کالج میں لانے کے بعد اس کالج میں چھاپہ خانہ بھی کھولاگیا تاکہ جو کتابیں لکھی جائیں وہ فوراً چھپ جائیں۔ بہر حال اس طرح کالج کا باقادہ آغاز ہوا اور بہت جلد عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت وغیرہ کی کتابوں کا اردو ترجمہ ہوا اور اسے چھاپا بھی گیا۔

جان گلکرسٹ:

اس کالج سے جڑا سب سے اہم نام جان گلکرسٹ کا ہے۔ گل کرسٹ ہندوستانی شعبے کے نگراں تھے۔ گل کرسٹ نے اس کالج سے پہلے ہی اردو سیکھ لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلکرسٹ کو اردو سے بے حد دلچسپی تھی۔ انہوں نے اردو لغت اور قاعد جیسی کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے اس کالج سے جڑ کر اردو کی ہر اعتبار سے خدمت کی۔ خود تو انہوں نے کتابیں لکھیں اور ساتھ ہی انہوں نے کالج کے لیے اردو کی کتابیں لکھنے کے لیے پورے ملک کے بڑے بڑے قلم کاروں کو جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر انہی کی کوششوں سے کتب خانہ اور پریس کا قیام بھی ہوا۔ انہوں نے اردو قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے انہیں انعامات بھی دلائے۔ انہوں نے قلم کاروں کو مشورہ بھی دیا کہ وہ اردو زبان اور نثر کو جتنا آسان اور عام فہم ہوسکے بنائیں۔ پھر یہیں سے آسان اردو زبان کی بنیاد قائم ہوئی۔ یعنی اس کالج سے پہلے جو اردو کتابیں موجود تھیں وہ بہت مشکل ہوتی تھیں۔ اس وقت لوگ مشکل زبان کے استعمال کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ لیکن اس کالج نے اردو کو آسان اور سادگی کا راستہ دکھایا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نام میر امن کا ہے۔

میر امن:

میر امن کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اردو نثر کو آسان، سادہ اور عام فہم بناکر پیش کیا اور اردو زبان کو سادگی کا نیا راستہ دکھایا۔ اس راستے کی تقلید غالبؔ اور سرسیدؔ وغیرہ نے بھی کی۔ یوں باقاعدہ سادگی کی روایت قائم ہوئی۔ میر امن نے عطا حسین تحسین کی کتاب "نو طرز مرصع" کو آسان، سادہ اور عام فہم زبان میں تبدیل کرکے  اردو نثر کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ اس کتاب کا ترجمہ میر امن نے "باغ و بہار" کے نام سے کیا۔ یہ کتاب سادگی کا بہترین نمونہ ہے۔اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس کتاب کی اہمیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ میر امن بھی  اسی کتاب کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ان کی دوسری کتاب "گنج خوبی" ہے۔ یہ کتاب  "اخلاق محسنی" کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو اتنی شہرت نہیں ملی جتنی "باغ و بہار" کو ملی۔

سید حیدر بخش حیدری:

حیدریؔ کا تعلق بھی اسی کالج تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین میں حیدریؔ ایسے شخص ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ حیدری دہلیؔ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ایک کہانی "قصہ مہر و ماہ" لکھی جسے لے کر وہ کلکتہ گئے۔ وہاں جاکر انہوں نے یہ کہانی گلکرسٹ کے سامنے پیش کی۔ گلکرسٹ کو یہ کتاب بہت پسند آئی اور پھر انہیں منشی کی حیثیت سے کالج میں رکھ لیا۔ پھر اس کالج سے جڑ کر انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور ترجمے بھی کیے۔ ان کتابوں میں لیلیٰ مجنوں(امیر خسرو کی مثنویوں کے قصوں کا نثری ترجمہ)، ہفت پیکر (منظوم تصنیف)، تاریخ نادری (ترجمہ)، گلشن ہند(شعرائے اردو کا تذکرہ)، طوطا کہانی، گل مغفرت اور آرائش محفل قابل ذکر ہیں۔ ان میں سب سے مقبول کتاب "آرائش محفل" ہے۔ یہ حاتم طائی کے فارسی قصے کا ترجمہ ہے۔

میر شیر علی افسوس:

افسوسؔ بھی اس کالج کے ایک اہم مصنف تھے۔ انہوں نے شیخ سعدیؔ کی"گلستاں" کا اردو ترجمہ "باغ اردو" کے نام سے کیا۔ اس میں انہوں نے عربی اور فارسی کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بعد میں اس کی مقبولیت کم ہوگئی۔ ان کی دوسری کتاب "آرائش محفل" ہے جو منشی سبحان رائے بٹاولی کی کتاب "خلاصۃ التواریخ" کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ایک تاریخ کی کتاب ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت زبان کی سادگی، سلاست اور روانی ہے۔

میر کاظم علی جوان:

میر کاظم بھی کالج کے اہم مصنف تھے۔ انہوں نے اس کالج کے لیے کئی اہم کتابوں کا ترجمہ کیا۔ انہوں نے للو لال جی کی مدد سے کالی داس کی "شکنتلا" کا برج بھاشا سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح انہوں نے "تاریخ فرشتہ" کا بھی ترجمہ کیا۔انہوں نے قرآن پاک کی بھی ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک طویل نظم "بارہ ماسہ" لکھی جس میں ہندوستان کی فصلوں اور تہواروں کا بیان ہے۔ اسی طرح انہوں نے للو لال جی کو سنگھاسن بتیسی لکھنے میں مدد کی۔

میر بہادر علی حسینیؔ

حسینیؔ فورٹ ولیم کالج کے شعبہء تصنیف میں میر منشی کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کالج سے سب سے پہلے حسینیؔ ہی منسلک ہوئے۔ان کی سب سے اہم کتاب "اخلاق ہندی" ہے۔ یہ سنسکرت کی اخلاقی کہانیوں کا اردو ترجمہ ہے جسے انہوں نے فارسی ترجمہ "مفرح القلوب" سے اردو میں منتقل کیا۔ اسی طرح انہوں نے قصہ بے نظیر و بدر منیر (مثنوی سحرالبیان کا بھی قصہ یہی ہے) کا اردو ترجمہ  "نثر بے نظیر" کے نام سے کیا۔ اس کے علاوہ تاریخ آسام بھی ان کی کتاب ہے۔ اسی طرح انہوں نے گلکرسٹ کی قواعد کو بھی آسان زبان میں پیش کیا۔

نہال چند لاہوری:

انہوں نے فارسی کتاب "گل بکاولی" کا اردو ترجمہ کیا جو مذہب عشق کے نام سے معروف ہے۔ اس کتاب کی زبان آسان اور عام فہم ہے۔

مظہر علی ولاؔ:

مظہر علی ولاؔ کا بھی تعلق اسی کالج سے تھا۔ انہوں نے "مادھونل و کام کندلا""ہفت گلشن" اور "تاریخ شیر شاہی" کا اردو ترجمہ کیا۔ اسی طرح للو لال جی کی مدد سے انہوں نے "بیتال پچیسی" کا اردو ترجمہ کیا۔

بینی نرائن جہاں:

بینی نرائن جہاں کا نام بھی اسی کالج سے منسلک ہے۔ انہوں نے "دیوان جہاں" اور "چار گلشن" لکھی۔ دیوان جہاں اردو شاعروں کا تذکرہ ہے اور "چار گلشن" ایک عشقیہ داستان ہے۔

مرزا علی لطف:

مرزا علی لطف بھی اس کالج سے وابستہ رہے۔ انہوں نے اردو شاعروں کا تذکرہ مرتب کیا۔ ان کے تذکرے کا نام "گلشن ہند" ہے۔

ان کے علاوہ مولوی اکرام علی نے عربی کتاب "اخوان الصفا" کا اردو ترجمہ کیا۔ للو لال جی نے میر کاظم کی مدد سے سنگھاسن بتیسی لکھی۔ مرزا جان طپش نے فارسی قصے کو اردو نظم میں "بہار دانش" کے نام سے ترجمہ کیا۔ شیداؔ نے "اخلاق جلالی" کا ترجمہ "جامع الاخلاق" کے نام سے کیا۔ حمید الدین بہاری نے کھانا بنانے کے طریقے پر ایک کتاب "خوان الوان" لکھی اور اسی طرح فطرت نے "انجیل" کا ترجمہ کیا۔

فورٹ ولیم کالج سےمنسلک یہ وہ مصنفین ہیں جنہوں نے اردو کتابیں لکھ کر اردو نثر کو فروغ بخشا۔ ان کے علاوہ بھی کئی مصنفین تھے جنہوں نے اردو کی خدمت کی۔ ان تمام کتابوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کالج میں دستانوں اور قصے کہانیوں کی کتابیں زیادہ  لکھی گئیں۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments