دبستان دہلی کی شاعری | Dabistan e dehli ki shayari

دبستان دہلی کی شاعری


 دبستان دہلی کی شاعری

جب ولی دکنیؔ 1700ء کو دکن سے دلی گئے اور بعد میں ان کا دیوان 1720ء کو دہلی پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے ان کی شاعری کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا کہ اردو زبان میں بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے وہاں فارسی میں شاعری کی جاتی تھی اور اہل دہلی اردو کو گری پڑی زبان سمجھتے تھے جب انہوں نے ولیؔ کی شاعری کو دیکھا تو ان کا رجحان اردو کی طرف بڑھا اور اس طرح دہلی میں باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز ہوا۔

ولیؔ کے دہلی جانے کے بعد جن لوگوں نے سب سے پہلے اردو میں شاعری کی ان میں خان آرزوؔ، آبروؔ، ناجیؔ، مضمونؔ، شاکرؔ، حاتمؔ، مرزا مظہر جان جاناں اور فائز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ دہلی میں سب سے پہلے انہوں نے ہی سنجیدگی سے اردو شاعری کا آغاز کیا۔ اسی لیے انہیں دہلی کے دور اول کے شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔

ابتدائی شعرا کی شاعری کو دیکھا جائے تو ان کے یہاں ایہام گوئی زیادہ نظر آتی ہے۔ چونکہ ایہام گوئی شاعری کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی تھی اس لیے حاتم اور مظہر جان جاناں وغیرہ نے اس کی مخالفت کی۔

اس کے بعد میرؔ، دردؔ، سوزؔ اور سوداؔ وغیرہ نے اردو شاعری میں حصہ لے کر اردو شاعری کی روایت میں اضافہ کیا۔ ان شعرا کو دوسرے  دور میں رکھا گیا ہے۔ یہاں سے اردو شاعری کو کافی ترقی ملی اور صحیح معنوں میں دبستان دہلی  کا قیام یہیں سے  ہوتا ہے۔ اس کے بعد غالبؔ، ذوقؔ، مومنؔ اور بہادر شاہ ظفرؔ کا دور شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے شعری اسلوب اور نئے نئے موضوعات کے ذریعہ اردو شاعری کی روایت  میں اہم اضافہ کیا۔

بہر حال ان شعرا نے دہلی میں رہ کر اردو شاعری کو فروغ بخشا۔ ان کی شاعری میں مختلف رنگ اور موضوعات نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو چیزیں واضح طور پر نظر آتی ہیں یا اس وقت جن پہلوؤں کو شاعری کا حصہ بنایا گیا اور جو اسالیب اختیار کیے گئے  وہ دبستان دہلی کی خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔

دہلی ہمیشہ سیاست کا مرکز رہی ہے۔ اس وقت جب دہلی میں اردو شاعری کا آغاز ہوا تو دہلی کی حالت بہتر نہ تھی۔ ہر طرف سے دہلی پر حملے ہو رہے تھے۔ خاص کر احمد شاہ ابدالی اور  نادر شاہ نے جو ہندوستان میں تباہی مچائی اس کا اثر دہلی  اور وہاں کے باشندوں پر بھی پڑا۔ اس کا اثر اردو شعرا پر بھی رہا۔ جہاں ہر شخص پریشان حال تھا۔ ان کا جینا مشکل تھا، وہیں اردو شعرا پر بھی مشکلات آئے۔ کئی شعرا نے دہلی سے لکھنئو کا رخ کیا۔ بہرحال یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں غم، درد، محرومی اور تصوف جیسےموضوعات نظر آتے ہیں۔ یہی  وہ موضوعات ہیں جو دہلی کی شاعری کی خصوصیات میں شامل ہیں۔

دبستان دہلی کی خصوصیات

1۔ تصوف:

دبستان دہلی  کی شاعری کی ایک بڑی خصوصیت تصوف ہے۔ خاص کر میرؔ، دردؔ، سوزؔ ، سوداؔ ، ذوقؔ اور غالبؔ کے یہاں تصوف کا رنگ  واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت ایسے حالات ہوگئے تھے کہ لوگ ترک دنیا کی طرف مائل تھے۔ ان کی زندگیاں مشکل تھیں۔ اس لیے انہوں نے معبود حقیقی کو یاد کرنا شروع کیا اور اپنے کلام میں تصوف کے مضامین کو اختیار کرنا شروع کیا۔

چونکہ شروع میں اردو شاعری پر فارسی کا اثر زیادہ تھا اس لیے بھی اس وقت اردو شاعری میں تصوف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی طرح دہلی صوفیائے کرام کا مرکز بھی رہی ہے اس لیے اس کا بھی اثر اس وقت کے شعرا پر رہا۔ میرؔ اور دردؔ تو خود صوفی تھے ۔ اس لیے ان کے یہاں تصوف کا رنگ سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔مثلاً  :

نظر  میرے دل  کی پڑی  درد کس پر

جدھر دیکھتا ہوں وہی رو برو ہے (درد)

2۔ داخلی واردات، غم، دکھ،، حزن و یاس اور سوز و گداز:

            دبستان دہلی کی شاعری میں قلبی واردات، غم، اداسی، یاس اور محرومی کے جذبات کثرت سے نظر آتے ہیں۔ اس وقت کے تقریباً تمام شاعروں کے یہاں یہ رنگ نظر آتا ہے۔ خاص کر میرؔ  کی شاعری تو اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں کسی کو سکون نصیب نہیں تھا۔ اس وقت کے حالات نے لوگوں کے اندر اتنا غم بھر دیا تھا کہ وہ سارے غم شاعری میں بھی نظر آنے لگے۔یعنی شاعروں نے ان حالات سے پریشان ہوکر اپنے دکھ درد کا اظہار اپنی شاعری میں کیا۔ مثلاً:

زندگی   ہے  یا   کوئی  طوفان   ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے (درد)

 

ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے

درد و غم اتنے کئے جمع کہ دیوان کیا(میرؔ)

   3۔ جذبات عشق و محبت:

            دبستان دہلی کی شاعری میں عشق کے موضوعات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور اور ہر دبستان کے شاعروں کے یہاں عشق کا موضوع غالب رہا ہے۔ لیکن دہلی کی شاعری میں عشق کے جذبات کو جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ منفرد ہے۔ دہلی کی عشقیہ شاعری میں پاکیزگی ہے۔ دہلی کی شاعری میں داخلی جذبات کی ترجمانی ہے۔ ہجر و وصال کی پاک کیفیت ہے۔ بے وفائی کے موضوعات میں درد اور تڑپ ہے۔ ان کے یہاں خارجی معاملات نہیں ہیں۔ یعنی محبوب کے جسم یا اس کے اعضا کی خوبصورتی اور خوبیوں کو بیان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اہل دہلی بس عشق کے سچے اور پاک صاف جذبات کو ہی پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی دہلی کی شاعری میں  عشق حقیقی کے موضوعات کی بھی کثرت ہے۔

4۔ سادگی:

            دہلی کے شعرا کے مزاج میں سادگی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ ان کی شاعری میں سادگی نظر آتی ہے۔ دہلی کے شعرا کے خیالات بھی سادہ ہوتے ہیں اور ان خیالات کے اظہار کا انداز بھی سادہ ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں سادگی، صفائی، بے تکلفی اور بے ساختگی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں ہندی کے شیریں الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے مشکل الفاظ کا استعمال نہیں کیا بلکہ ہر جگہ سادگی اور سلاست کا خیال رکھا ہے۔مثلاً:

زندگی  ہے یا کوئی  طوفان  ہے

ہم تو  اس جینے کے ہاتھوںمرچلے

5۔ لطیف استعارات و تشبیہات:

دہلی کے شاعروں نے صنعتوں کا بھی استعمال کیا ہے جن میں استعارات اور تشبیہات قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے یہاں دلکشی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اسے صرف برائے صنعت استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی شاعری میں معنوی حسن اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اسے اپنایا۔

            اس کے علاوہ داخلیت، معنی آفرینی، الفاظ کی پاکیزگی ، صفائی ستھرائی اور  اختصار وغیرہ بھی دہلی کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ چونکہ دہلی میں غزل کو فروغ ملا اور تینوں ادوار کے شعرا نے غزل گوئی کو ہی اختیار کیا اس لیے غزل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان خصوصیات کا تعین کیا گیا ہے۔ اس وقت غزل کے علاوہ قصیدے اور مثنویاں وغیرہ بھی لکھی گئیں لیکن غزل کی روایت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments