دبستان لکھنئو کی شاعری | Dabistan e Lucknow ki shayari

دبستان لکھنئو کی شاعری

دبستان لکھنئو کی شاعری

جب دہلی پر لگاتار حملے ہونے لگے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا اور وہاں کی معاشی حالت بہت خستہ ہوگئی تو لوگوں کا وہاں رہنا مشکل ہوگیا۔ اس لیے وہاں کے باکمال لوگوں نے دہلی کو چھوڑ کر فیض آباد اور لکھنئو وغیرہ کا رخ کیا۔ ان میں اردو شعرا بھی تھے  جنہوں نے لکھنئو کو اپنا مسکن بنایا۔ لکھنئو کی تہذیب و معاشرت دہلی سے بالکل الگ تھی۔ دہلی میں ہر طرف لوگ تنگ حال تھے لیکن لکھنئو میں تمام طرح کی سہولیتیں فراہم تھیں۔ لکھنئو میں عیش و عشرت  کاماحول تھا اور ہر طرف خوشحالی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماحول کا اثر اردوشاعری پر بھی ہوا اور وہی رنگ ان کی شاعری پر  بھی پڑا۔

شروع میں جن شعرا نے لکھنئو کا رخ کیا ان میں سوداؔ میر اور سوزؔ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان شعرا پر لکھنئو کے ماحول کا اثر قائم نہ ہوا۔ وہ اپنے دہلوی رنگ پر ہی قائم رہے۔ ان کے بعد جراتؔ، انشاؔ، مصحفیؔ اور رنگینؔ وغیرہ لکھنئو گئے۔ ان کی شاعری کی ابتدا تو دہلی میں ہوئی لیکن ان کا عروج لکھنئو میں ہوا۔ ان شعراپر لکھنئو کا پورا اثر قائم ہوا اور انہوں نے لکھنئو کے رنگ میں اپنی شاعری کو رنگنا شروع کیا۔ معاملہ بندی اور ریختی گوئی کو اختیار کیا جانے لگا جو اہل لکھنئو کو بہت پسند آئی۔ اس طرح ان شاعروں کے ذریعہ لکھنئو میں اردو شاعری کا نیا دبستان وجود میں آنے لگا اور پھر انہیں کے اثر سے ناسخ اور آتش نے باقاعدہ لکھنئو میں اردو شاعری کا نیا دبستان قائم کیا جسے دبستان لکھنئو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے زبان کی اصلاح پر زیادہ زور دیا اور اردو زبان کو سنوارا اور سجایا۔

اس کے بعد ناسخ اور آتش کے شاگردوں نے اور دوسرے شعرا نے اس نئے رنگ کو مزید چمکایا اور لکھنئو کی تہذیب اور وہاں کے رنگ کو انہوں نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔

آتشؔ اور ناسخؔ وغیرہ نے غزل کی روایت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد دیا شنکر نسیم نے مثنوی "گلزار نسیم" لکھ کر مثنوی کی روایت میں اضافہ کیا۔ اسی طرح ضمیرؔ، خلیقؔ، انیس ؔاور دبیرؔ وغیرہ نے مرثیہ نگاری کو عروج تک پہنچایا۔

لکھنئو کی شاعری کی خصوصیات:

چونکہ لکھنئو میں امن و سکون کی زندگی تھی، وہاں کے لوگ عیش و عشرت اور رنگ رلیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسی ماحول میں اردو شاعری کو ترقی ملی جس کی وجہ سے لکھنئو کی پوری معاشرت کا اثر اردو شاعری پر قائم ہوا۔ دہلی میں جہاں داخلیت اور جذبات نگاری سے کام لیا جاتا تھا وہیں لکھنئو کے عیش پرست ماحول نے اردو شاعری میں خارجیت کو جنم دیا۔ دہلی کی شاعری میں جہاں معنوی گہرائی ہوتی تھی ، لکھنئو میں کی شاعری میں ظاہری خوبصورتی پر زور دیا گیا۔ یعنی لکھنئو والوں نے شاعری کو ظاہری طور پر خوبصورت بنایا۔ شاعری کے اندر جو جذبات ہوتے تھے اس پر ان کی کوئی توجہ نہ رہی۔ بلکہ سراپا نگاری اور معاملہ بندی سے شاعری کو رنگین بنایا گیا۔

لکھنئو کی شاعری میں ابتذال اور عریانیت پائی جاتی ہے۔ جراتؔ اور انشاؔ نے اس کی بنیاد ڈالی اور ناسخؔ نے اسے عروج تک پہنچایا۔ یعنی دہلی میں عشق و محبت کی باتوں میں دلی جذبات اور ہجر ووصال کی باتوں میں درد اور تڑپ ہوتی تھی لیکن لکھنئو کی شاعری میں محبوب کا تصور بدل گیا۔ لکھنئو میں محبوب کے بیان میں عریانیت سے کام لیا گیا۔ یعنی محبوب کے جسم کے ایک ایک عضو/ حصے کی خوبیاں بیان کی جانے لگیں۔ اس کی چوٹی سے لے کر ایڑی تک کی خوبصورتی کو کھل دکھایا گیا۔ ان کے زیورات اور لباس کو بھی ظاہر کیا گیا۔ اسی طرح ان کی محبت کے جذبات میں بازاری پن، ابتذال،معاملہ بندی اور فحش گوئی نظر آنے لگی۔

لکھنئو کی شاعری میں عورت کو اہم مقام حاصل ہے۔ ان شاعروں کے خیالات اور جذبات میں عورتیں رچی بسی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ریختی کا وجود ہوا۔ اسے رنگینؔ اور انشاؔ نے پروان چڑھایا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کی زبان اور محاوروں میں پیش کیا۔ اسے لکھنئو کی شاعری پر نہ مٹنے والا داغ مانا جاتا ہے۔

دہلی کی شاعری کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہاں آہ کی شاعری ہوتی تھی جب کہ لکھنئو میں واہ کی شاعری ہونے لگی۔ چونکہ لکھنئو میں پر امن اور خوش حالی کی زندگی تھی اس لیے اسی اثر سے وہاں کی شاعری میں واہ کی کیفیت نظر آتی ہے۔

لکھنئو کی شاعری میں تصوف کے مضامین نہ کے برابر ہیں۔ جب کہ دہلی کی شاعری  کی ایک خصوصیت تصوف ہے۔ دہلی صوفیائے کرام کا مرکز رہا ہے جب کہ لکھنئو کا ماحول رنگین تھا اس لیے تصوف کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔

لکھنئو کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہاں طویل غزلوں کا رواج ہوا۔ یعنی لکھنئو کی غزلیں بہت طویل ہوتی تھیں جب کہ دہلی کی غزلیں بہت مختصرہوا کرتی تھیں۔ طویل غزلوں سے غزل کو فائدہ کے بجائے نقصان ہوا، کیونکہ غزل کو طویل بنانے کے چکر میں غیر اہم اشعار شامل ہونے لگے۔ اسی طرح اس میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج ہوا۔ اس سے لکھنئو کے شعرا اپنی طاقت اور زور دکھانا چاہتے تھے ۔

لکھنئو کی شاعری میں تشبیہات و استعارات کثرت سے نظر آتےہیں۔ حالانکہ دہلی کی شاعری میں بھی ان کا استعمال ہوا  لیکن وہاں ضرورت کے تحت اور معنوی حسن پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ لیکن لکھنئو کے شعرا نے اپنی رنگین مزاجی کی وجہ سے بہت استعمال کیا۔ کچھ شعرا مثلاً محسن کاکوروی ، انیسؔ، دبیرؔ اور نسیم وغیرہ نے خوبصورت تشبیہوں کو اپنایا لیکن دوسرے شعرا نے محض صنعت کے طور پر ان کا بہت استعمال کیا جس سے ان کی شاعری بے لطف نظر آتی ہے اور اصل مقصد غائب ہوجاتا ہے۔

اسی طرح محاوروں کا بھی استعمال دبستان لکھنئو والے غیر ضروری طور پر کرتے ہیں۔ اور صرف شوقیہ طور پر بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ دہلی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے لیکن دہلی والے وہیں استعمال کرتے ہیں جہاں ٖضرورت ہو۔

اسی طرح لکھنئو والے بھاری بھرکم الفاظ سے بھی شاعری کو بوجھل بناتے ہیں۔ ان کے یہاں تکلف اور تصنع نظر آتا ہے۔ لکھنئو کی شاعری میں عربی اور فارسی کے الفاظ بھی بہت ہوتے ہیں۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments