غالب کی خطوط نویسی
مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے
جانے جاتے ہیں۔ لیکن شاعر کے ساتھ غالب ایک بڑے نثر نگار بھی تھے۔ان کی نثر کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نثر نگاری میں
بھی ان کو اہم مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ انہوں نے نثر کو ایک نیا راستہ دکھایا۔
انہوں نے چند چھوٹی چھوٹی نثری کتابیں اور خطوط لکھے۔ ان کتابوں کی اہمیت زیادہ
نہیں ہے کیونکہ ان کی زبان پیچیدہ ہے۔ جب کہ ان کے خطوط ان سے الگ ہیں۔ غالب نثر
کی دنیا میں اپنے خطوط کی وجہ سے ہی جانے جاتے ہیں۔ ان کے خطوط کے مجموعے عود ہندی
اور اردوئے معلیٰ قابل ذکر ہیں۔
دیکھا جائے تو غالبؔ سے پہلے اردو خطوط
نویسی کی روایت قائم تھی۔ خاص کر فارسی میں خط لکھے جاتے تھے۔ غالبؔ کے ابتدائی
خطوط بھی فارسی میں ہیں لیکن بعد میں انہوں نے اردو کی طرف توجہ کی اور پھر اپنے
نرالےاور عمدہ اسلوب کے ذریعہ اردو خطوط
نگاری میں حصہ لے کر اردو نثر کو نیا راستہ دکھایا۔
سر سید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
انہوں نے جدید نثر کی بنیاد ڈالی لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو غالبؔ نے اپنے خطوط
کے ذریعہ جدید نثر کے نمونے پیش کردیے تھے۔ انہوں نے اس کے لیے ایک راستہ ہموار
کردیا تھا جس پر سرسید وغیرہ نے چل کر باقاعدہ جدید نثر کی عمارت کھڑی کی۔
غالبؔ کے زمانےمیں جو اردو نثر لکھی
جارہی تھی اس میں مشکل الفاظ اور محاوروں پر زور دیا جاتا تھا۔ عبارت کو مسجع و
مقفع بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ قافیہ پیمائی کی جاتی تھی۔ اردو زبان کو مشکل سے
مشکل بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اس وقت اسی کو مہارت سمجھا جاتا تھا اور اسی کی
تعریف ہوتی تھی۔ لیکن غالبؔ نے ان کی کمیوں کو پہچان لیا اور اس سے خود کو بچاتے
ہوئے اپنا ایک الگ راستہ بنایا اور سادہ، عام فہم اور بول چال کی زبان کو اختیار
کرنا پسند کیا۔ یہ خصوصیات ان کے خطوط میں ظاہر ہیں۔
غالبؔ کے خطوط کی خوبی یہ ہے کہ انہوں
نے ہرمعاملے میں اپنا الگ راستہ نکالا۔ غالبؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے
مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ یعنی غالبؔ اس انداز سے خط لکھتے ہیں جیسے معلوم ہوتا ہے
کہ وہ خط نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ سامنے
بیٹھ کر باتیں کر رہے ہیں۔ اسی انداز کی بنا پر غالبؔ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ غالبؔ نے خط کو پوری ملاقات بنا دیا۔
غالبؔ کے زمانے میں خطوط میں جو القاب
استعمال کیے جاتے تھے وہ بہت لمبے ہوتے تھے۔ غالبؔ نے اسے رد کیا اور اپنا الگ
راستہ بناتے ہوئے مختصر القاب استعمال کیا۔ مثلاً بھائی جان، میر جان، بندہ پرور
وغیرہ۔ کہیں کہیں تو مکتوب الیہ کا نام لے کر خط شروع کرتے ہیں۔ ان کے ایسے خطوط
بھی ہیں جہاں القاب استعمال ہی نہیں کیے گئے۔
اسی طرح دعا و سلام وغیرہ جسے آخر میں
لکھا جاتا تھا غالبؔ نے اس طریقے کو نہیں اپنایا۔ غالبؔ کو جب سلام یا دعا لکھنا
ہوتا ہے تو کبھی شروع میں، کبھی درمیان
میں اور کبھی آخر میں لکھتے ہیں۔
خط کے آخر میں نام بھی لکھا جاتا ہے
اور نام سے پہلے آپ کا مخلص وغیرہ جیسے الفاظ لکھے جاتے ہیں ۔غالبؔ نے اسے بھی ترک
کرکے صرف اپنا نام لکھااور بعض خط میں تو
نام بھی نہیں لکھتے۔ اسی طرح تاریخ جو کہ شروع میں اور کنارے یا آخر میں لکھی جاتی ہے۔ غالبؔ نے شروع ، درمیان اورآخر جہاں چاہتے ہیں تاریخ
لکھ دیتے ہیں۔بہر حال اس طرح غالب نے اپنا جداگانہ راستہ نکالا اور خطوط نگاری کی
روایت کو نیا نیا راستہ دکھایا۔
غالبؔ نے اپنے خطوط کو شوخی و ظرافت سے
بھی پر لطف بنایا ہے۔ دیکھا جائے تو غالبؔ کے مزاج میں شوخی و ظرافت کوٹ کوٹ کر
بھری تھی۔ اسی لیے حالیؔ نے انہیں حیوان ظریف کہا تھا۔اسی کا اثر ان کے خطوط میں
بھی نظر آتا ہے۔ غالبؔ ایسا انداز اس لیے اختیار کرتے تھے تاکہ مکتوب الیہ ان کے
خطوط پڑھ کر خوش ہو۔ اس کا اظہار انہوں نے خود بھی کیا ہے۔
غالبؔ کے خطوط کی سوانحی اہمیت بھی ہے۔
ان کے خطوط میں ان کی زندگی، خاندان، آبا واجداد وغیرہ کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود
ہے۔ان کی زندگی سے جڑے تقریباً تمام واقعات ان کے خطوط میں موجود ہیں۔ ان کی زندگی
میں آنے والی پریشانیاں، غم، خوشیاں ان کے خطوط کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ان کی کامیابیوں
اور ناکامیوں کا بھی ذکر ہے۔ یہاں تک کہ ان کی شراب نوشی، جوا کھیلنا اور اس کے
جرم میں جیل جانا، پنشن بند ہونا اور دوبارہ اس کا جاری ہونا وغیرہ غرض یہ کہ
غالبؔ کے خطوط میں ان کی زندگی سے جڑی تمام باتوں کا ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے
خطوط ایک سوانح نگار کے لیے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ سوانح نگار ان کے خطوط سے ان
کی زندگی سے جڑی چھوٹی بڑی باتوں کو بآسانی حاصل کرلیتا ہے اور غالبؔ کی سوانح کو
کامیابی کے ساتھ لکھ سکتا ہے۔ غالبؔ کے
خطوط کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے خطوط میں اس عہد کی دلی کی تصویر صاف طور
پر نظر آتی ہے۔ خاص کر 1867ء کی پہلی ناکام جنگ آزادی کے حالات کا ذکر موجودہے۔ اس وقت دلی کے ہزاروں گھر
برباد ہوچکے تھے بلکہ پوری دلی اجڑ چکی تھی۔ بے شمار لوگ اس ہنگامے میں مارے گئے۔
ان میں ہندوستانی بھی تھے اور انگریز بھی۔ غالبؔ نے ان تمام کا ذکر کیا ہے۔
غالبؔ نے اپنے
خطوط میں علمی مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے اپنے خطوط میں اپنے کئی اشعار
کی تشریح بھی کی ہے۔ وہاں بھی انہوں نے خالص علمی انداز اپنایا ہے۔ اس طرح ان کے
اشعار کو سمجھنے کے لیے ان کے خطوط بھی اہمیت کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے
استدلالی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ یوں تو استدلالی نثر کا بانی سرسید کو مانا
جاتا ہے لیکن دیکھا جائے تو غالبؔ نے اس کا پہلا نقش اپنے خطوط میں پیش کردیا تھا۔
غالبؔ نے اپنے
خطوط میں شعری وسائل کا بھی سہارا لیا ہے۔ خاص طور سے انہوں نے تشبیہ کے ذریعہ
اپنے خطوط کو دلکش بنایا ہے، بہر حال اس طرح انہوں نے اپنے خطوط کو ہر اعتبار سے
منفرد بنایا اور اپنے متعدد اسالیب کے ذریعہ ایسی نثر کی بنیاد ڈالی جسے جدید اردو
نثر کی پہلی کڑی کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments