دکن میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا | Deccan Mein Urdu Shayri Ka Aaghaz o Irteqa

 دکن میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا

دکن میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا

دکن میں اردو شاعری

اردو شاعری کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا باقاعدہ آغاز دکن میں ہوااور اس کا آغاز صوفیائے کرام اور نیک لوگوں نے کیا۔ان کی شاعری میں زیادہ تر صوفیانہ خیالات ہوا کرتے تھے۔ دکن میں تقریباً تمام شعری اصناف کی طرف توجہ دی گئی۔ خصوصاً مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور رباعی وغیرہ کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ جب کہ ابتدا میں غزل کی طرف دکن کے لوگوں کی توجہ کم رہی۔ اس وقت کے اکثر دکنی شعرا نے کوئی نہ کوئی مثنوی ضرور لکھی ہے۔ اس سے ایک تو ان کی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے، کیونکہ مثنوی لکھنا معمولی بات نہیں۔ دوسرا اس سلسلے میں ان کی دلچسپی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ مثنوی کے بعد مرثیہ اور قصیدہ کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو ان ابتدائی اصناف شاعری میں مذہبی اور صوفیانہ رنگ غالب ہے۔ بعد میں جب لوگوں نے اس زبان کی اہمیت کا اندازہ لگایا تو شعرا و ادیب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور صوفیانہ موضوعات کے علاوہ نئے نئے اور الگ الگ موضوعات کو جگہ دی جانے لگی۔

دکن میں صوفیائے کرام کے کارنامے

دیکھا جائے تو اردو کا آغاز شمالی ہند میں ہوا لیکن وہاں یہ صرف بول چال کی زبان تک ہی محدود تھی۔ جب علاء الدین خلجی اور محمد شاہ تغلق نے دکن کا رخ کیا اور کثیر تعداد میں لوگ دکن گئے جن میں صوفیائے کرام بھی تھے تو وہاں انہوں نے اس زبان کو اپناتے ہوئے اپنا پیغام عام کیا جس سے اس زبان کو ترقی ملنے لگی۔ پھر انہوں نے اس زبان میں شعر و شاعری بھی شروع کی۔ جب چودہویں صدی عیسوی میں بہمنی سلطنت کا قیام ہوا تو اردوشاعری کو مزید ترقی کرنے کا موقع  ملا۔ اس دور کے سب سے اہم صوفی خوانہ بندہ نواز گیسو دراز تھے جو ایک نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کی متعدد نظمیں منظر عام پر ہیں۔ان کی نظم "چکی نامہ" کو کافی شہرت ملی۔ تاریخی اعتبار سے اس نظم کو دیکھا جائے تو اس کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ یہ نظم  اردو کی پہلی نظم ہے۔بہمنی دور سے تعلق رکھنے والے ایک درباری شاعر فخر الدین نظامی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ ان کی مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ" ہے جو کہ اردو کی پہلی مثنوی ہے۔

اسی طرح پندرہویں صدی کا رخ کریں تو وہاں تین اہم صوفیائے کرام کے نام آتے ہیں۔ ان تینوں کے صوفیانہ کلام سے اردو شاعری کی روایت میں اضافہ ہوا۔ پہلے صوفی شاہ میراں جی شمس العشاق ہیں۔ ان کی دو مثنویوں "خوش نامہ" "خوش نغز" اور ایک طویل نظم "شہادت التحقیق" کو کافی شہرت حاصل ہے۔اسی طرح ان کے بیٹے برہان الدین جانمؔ بھی ایک شاعر تھے۔ انہوں نے غزلیں اور دوہے بھی کہے۔ان کی بھی کئی شعری تصانیف ہیں۔ ان میں وصیۃ الہادی، سکھ سہیلا، ارشاد نامہ، رموز الواصلین اور بشارت الذکر وغیرہ کو مقبولیت ملی۔ان کے بعد ان کے بیٹے امین الدین اعلیٰ نے بھی شعر گوئی میں حصہ لیا۔ ان کی نظم "وجودیہ" کو کافی شہرت ملی۔

دکن کی مختلف سلطنتوں میں اردو شاعری :

جب بہمنی  سلطنت کا خاتمہ ہوتا ہےاور پانچ آزاد ریاستیں بنتی ہیں تو اردو زبان و ادب کو مزید ترقی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان میں دو ریاستیں خاص مقام رکھتی ہیں۔ ایک قطب شاہی ریاست اور دوسری عادل شاہی ریاست۔ یہ دونوں اردو زبان و ادب کے مراکز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں اردو کو حد درجہ  فروغ حاصل  ہوا۔ اسی دور میں اعلیٰ درجے کے شاعر بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ارود ادب کو ایک خوشگوار راستہ دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ادوار کو اردو ادب کی تاریخ میں کافی اہمیت حاصل ہے۔

بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد جن پانچ خود مختار ریاستوں کا قیام ہوا وہ احمد نگر، گولکنڈہ، بیدر، بیجاپور اور گجرات ہیں۔

احمد نگر میں اردو شاعری

احمدنگر میں نظام شاہیوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس ریاست میں دو شاعروں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک اشرف بیابانی اور دوسرے حسن شوقی ہیں۔ اشرف بیابانی نے ایک طویل نظم "لازم المبتدی" اور ایک مثنوی "نوسرہار" لکھی جسے کافی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کی ایک اور تصنیف  "واحد باری" بھی ہے جو عربی، فارسی اور اردو کی منظوم لغت ہے۔حسن شوقیؔ کا تعلق نظام شاہی سلطنت اور عادل شاہی سلطنت دونوں سے ہے۔ انہوں نے دو مثنویاں لکھیں۔ ایک "ظفر نامہ نظام شاہ" جو کہ رزمیہ مثنوی ہے اور دوسری مثنوی "میزبان نامہ" جو بزمیہ مثنوی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ غزلیں بھی کہیں۔

گولکنڈہ میں اردو شاعری

دوسری خود مختار ریاست گولکنڈہ ہے۔ گولکنڈہ میں قطب شاہی خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ اردو ادب کے لیے یہ دور بہت اہم رہا ہے۔ اس ریاست کے حکمرانوں نے بھی اردو کے فروغ میں حصہ لیا۔ خصوصاً شاعری کو ترقی کرنے کے راستے ہموار ہوئے۔ 

محمد قلی قطب شاہ

قطب شاہی خاندان کا ایک اہم بادشاہ محمد قلی قطب شاہ ہے جس کو اردو سے حد درجہ لگاؤ تھا۔یہی نہیں بلکہ وہی اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ قطب شاہ نے بہت سے اشعار کہے اور مختلف اصناف سخن میں انہوں نے طبع آزمائی کی۔ خاص طور سے ان کی نظمیں قابل ذکر ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ہر طرح کے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ لیکن مذہب اور عشق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ اس بادشاہ کی اہمیت اردو شاعری میں اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔

محمد قطب شاہ

محمد قلی قطب شاہ کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا محمد قطب شاہ تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی اردو ادب کی سرپرستی کی۔ محمد قطب شاہ بھی خود ایک شاعر تھا اور اس کا اردو دیوان بھی موجود ہے۔

عبداللہ قطب شاہ

اس کے بعد عبداللہ قطب شاہ بادشاہ بنا تو اس نے بھی اردو کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے زمانے میں اردو شاعری کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ عبداللہ قطب شاہ خود ایک شاعر تھا۔ اس کی شاعری اردو ادب کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے۔

قطب شاہی خاندان کے یہ تینوں بادشاہ اردو ادب کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان بادشاہوں کی خاص بات یہ ہے کہ ایک تو وہ خود شاعر تھے اور ان کے شعری کارنامے بھی اردو ادب کے لیے قیمتی اضافہ ہیں۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے دیگر اردو شعرا کی سرپرستی بھی کی۔ جس سے اردو شاعری کو ترقی کرنے کا مزید موقع ملتا گیا۔ ان شعرا میں ملا وجہیؔ، ابن نشاطیؔ اور غواصی ہیں جنہوں نے اردو شاعری کی روایت میں اضافہ کیا۔ ملا وجہی قطب شاہی دور کے سب سے بڑے نثر نگار اور شاعر تھے۔ انہوں نے 1609ء میں مثنوی "قطب مشتری" لکھی جو کافی مشہور ہوئی۔ اس میں محمد قلی قطب شاہ اور مشتری کی عشقیہ داستان کو پیش کیا گیا ہے۔

ابن نشاطی

اس دور کا دوسرا بڑا اور اہم شاعر ابن نشاطی ہے۔ ابن نشاطی نے فارسی قصے کو منظوم شکل دے کر مثنوی "پھول بن" لکھی۔

غواصی

غواصی بھی قطب شاہی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ غواصی نے غزلیں، قصیدے اور مثنویاں وغیرہ لکھیں۔ ان میں ان کی دو مثنویوں "سیف الملوک و بدیع الجمال" اور "طوطی نامہ" کو شہرت ملی۔

بیدر:

تیسری ریاست بیدر ہے۔ وہاں بھی اردو زبان کو تھوڑی بہت ترقی ملی۔ وہاں کے دو شاعر فیروزؔ اور قریشیؔ کو شہرت ملی۔ فیروز نے ایک مثنوی "پرت نامہ" کے نام سے لکھی۔ اس میں عبدالقادر جیلانی کی تعریف کی گئی ہے۔ اس طرح قریشی نے نظم "ولایت نامہ" اور مثنوی "بھوگ" بھی لکھی۔

بیجاپور:

چوتھی ریاست بیجاپور ہے۔ بیجاپور میں عادل شاہی حکومت قائم ہوئی۔ وہاں بھی بادشاہوں کے ذریعہ اردو کی سرپرستی ہوئی۔ وہاں مختلف شعرا نے اردو شاعری کی روایت میں حصہ لے کر اہم اضافہ کیا۔ عادل شاہی دور کے ایک شاعر عبدلؔ کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ یہ ابراہیم عادل شاہ کا درباری شاعر تھا۔ اس کی طویل نظم "ابراہیم نامہ" کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی طرح وہاں کا دوسرا اہم شاعر کمال خاں رستمیؔ ہے جس نے ایک فارسی نظم کا ترجمہ کیا جو "خاور نامہ" کے نام سے منظوم شکل میں موجود ہے۔عادل شاہی دور کا سب سے معروف اور اہم شاعر ملا نصرتیؔ ہے۔ نصرتیؔ نے اردو شاعری کو بچپن سے ہی اپنایا اور اس کی روایت میں گراں قدر اضافہ کیا۔ نصرتیؔ کو جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ اس کی تین مثنویوں کی وجہ سے ملی۔ وہ مثنویاں "گلشن عشق" "علی نامہ" اور "تاریخ اسکندری" ہیں۔ ان میں "گلشن عشق" اور "علی نامہ" کو کافی شہرت ملی۔ "گلشن عشق" ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ اس میں منوہر اور مدمالتی کے عشق کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس مثنوی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے عہد کی تہذیب اور معاشرت کا عکس بھی پیش کرتی ہے۔ دوسری مثنوی "علی نامہ" ایک رزمیہ مثنوی ہے۔ اس میں علی عادل شاہ ثانی کی حکومت کے ابتدائی دس سال کے  واقعات کو ذکر کیا گیا ہے۔ اردو کے لیے عادل شاہی دور اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ انہی کی بادشاہت میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا۔

 گجرات:

پانچویں اور آخری ریاست گجرات ہے۔ گجرات میں صوفیائے کرام کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ حاصل ہوا۔ ان میں شیخ بہاء الدین باجن اور خوب محمد چشتی قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کی روایت میں بھی اضافہ کیا۔ شیخ بہاء الدین باجن کی تصنیف "خزائن رحمت" ہے جس میں دوہے اور اشعار بھی ہیں۔ ان کی مثنوی "جنگ نامہ ساڑی و پشواز" کو اہمیت حاصل ہے۔ خوب محمد چشتی بھی ایک صوفی شاعری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی مثنوی "خوب ترنگ" کو شہرت حاصل ہوئی۔ اس میں تصوف کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔

ولی محمد ولیؔ:

دکن کے اردو شعرا میں سب سے اہم نام ولی محمد ولیؔ کا ہے۔ اردو دنیا میں انہیں ولی دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو اردو شاعری میں انہیں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ انہوں نے مختلف اصناف شاعری کو اپنایا لیکن غزل کی طرف زیادہ توجہ دی۔ اس سلسلے میں انہیں غزل کا بابائے آدم کہا گیا ہے۔ ولیؔ نے غزل کو نیا رنگ و روپ اور نیا لہجہ و انداز عطا کیا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی غزل کو سادہ اور سلیس بنا کر پیش کیا ہے۔ ولیؔ صاحب دیوان بھی ہیں۔ اور اس دیوان کی خصوصیت یہ ہے کہ جب ان کا یہ دیوان شمالی ہند پہنچا تو شمالی ہند کے لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر ان لوگوں کو اندازہ ہوا کہ اردو میں بھی شاعری کی جاسکتی ہے اور پھر اس طرح شمالی ہند میں بھی اردو میں شاعری کی جانے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ولیؔ اور ان کا دیوان دونوں اردو دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

  سید سراج اورنگ آبادی:

ولیؔ کے بعد دکنی شعرا میں دوسرا بڑا اوراہم نام  سید سراج اورنگ آبادی کا ہے۔ انہوں نے بھی مختلف اصنافِ شاعری کو اختیار کیا لیکن وہ ایک غزل گو کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے کلیات میں تقریباً دس ہزار اشعار موجود ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں ولیؔ دکنی کے اثرات بھی موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں بھی سادگی اور سلاست پائی جاتی ہے۔

بہر حال اس طرح ان تمام مذکورہ دکنی شعرا نے اردو زبان کو اختیار کرتے ہوئے اردو میں اپنے خیالات کو منظوم شکل عطا کی۔ اس سے ایک تو اردو زبان کوس فروغ ملا اور دوسرا اس سے اردو شاعری کے متعدد اصناف کا آغاز اور ارتقا ہوا اور اردو شاعری کو فروغ حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی کائنات میں دکن ہر اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔چاہے ہم اسے لسانی اعتبار سے دیکھیں یا ادبی حیثیت سے۔ دونوں اعتبار سے دکنی خدمات قابل ذکر ہیں۔ 


ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments