دلی کالج اور اردو زبان و ادب
مختصر تعارف :
اردو زبان و ادب کی ترقی میں جہاں دیگر اداروں اور تحریکوں نے نمایاں کردار ادا کیا وہیں دلی کالج کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ اس کالج کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اردو زبان کو کہانیوں اور داستانوں سے نکال کر آزاد اور علمی فضا میں لا کھڑا کیا۔ کیونکہ اس کالج کا مقصد ہی تھا جدید علوم کو عام کرنا۔ اس لیے اردو کو ترقی کرنے اور اپنے دامن کو وسیع کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ اس کالج میں جن علوم کی تعلیم دی جاتی تھی چاہے وہ ریاضی ہو یا جغرافیہ، تاریخ یا سائنس اس کا ذریعہ تعلیم اردو کو بنایا گیا۔ یعنی ان تمام علوم کو اردو میں پڑھایا جاتا تھا اس لیے اردو زبان کو مزید ترقی ملتی گئی۔
دلی کالج کا قیام اور اس کا مقصد :
دلی کالج کا قیام1825ء میں ہوا۔ اس کالج کا مقصد یہ
تھا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی یا دیگر علوم کی تعلیم دی جائے اور انہیں پرانے
خیالات اور روایات سے نکال کر جدید تعلیم کی طرف لایا جائے۔ شروع میں لوگوں نے اس
کی مخالفت کی۔ لیکن بعد میں لوگوں کا
رجحان اس کالج کی طرف بڑھا اور اس کالج کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ پھر لوگوں نے دل
کھول کر اس کالج کا تعاون بھی کیا۔ چونکہ اس کالج کا مقصد تعلیم کو فروغ دینا تھا
اس لیے اس میں طلبا سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ بلکہ اچھے اور محنتی طلبا کو وظیفہ
بھی دیا جاتا تھا۔ شروع میں اس کالج میں پڑھانے کے لیے اردو میں کتابیں موجود نہیں
تھیں۔ اس لیے صرف لکچر کے ذریعہ ہی کام چلایا جاتا تھا۔ پھر ضرورت کے مد نظر اسی
کالج کے ماتحت "ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی" قائم کی گئی۔ تاکہ علمی
کتابوں کو اردو میں منتقل کرکے چھاپا جاسکے۔ اس سوسائٹی سے منسلک دو شخصیتوں کے نام
قابل ذکر ہیں۔ ایک ماسٹر رام چند اور دوسرے مولانا صہبائی۔ ان کی نگرانی اور کوششوں
سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اور فارسی و انگریزی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔
اس طرح اس سوسائٹی کے تحت 100 سے زیادہ کتابیں تیار ہوئیں۔ جس سے اردو زبان کو
فائدہ ہوا۔ یعنی اردو زبان کو مختلف علوم کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ملا۔
دلی کالج میں غیر ملکی شخصیات کی خدمات :
اس کالج کو ترقی
دینے میں غیر ملکی شخصیتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں مسٹر ٹیلر، ڈاکٹر
اسپرنگر اور مسٹر کارگل کے نام کافی اہم ہیں۔ خاص کر ڈاکٹر اسپرنگر نے کالج کے کام
میں زیادہ حصہ لیا اور اردو زبان میں مختلف زبانوں کی کتابوں کو منتقل کرانے میں
اہم کردار ادا کیا۔
دلی کالج کی کتابوں کا مجموعی جائزہ :
اس ادارے میں جو
اردو کتابیں تیار ہوئیں وہ قانون، ریاضی، سائنس، تاریخ، جغرافیہ اور اردو ادب وغیرہ
پر مبنی ہیں۔ ان میں ولیم میکناٹن کی قانون کی کتابیں اور ماسٹر رام چندر جن کو
ریاضی سے خاص دلچسپی تھی، ان کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مختلف
تصانیف مثلاً تاریخ ہند، تاریخ اسلام، تاریخ ایران، تاریخ یونان و روما، تاریخ
خاندان مغلیہ، تاریخ کشمیر وغیرہ بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی طرح ادبی کتابیں
کلیلہ و دمنہ، قصہ چہار درویش ، تذکرہ شعرائے ہند، جامع الحکایات، تاج الملوک و
بکاولی، بدر منیر ،شکنتلا، راماین اور مہابھارت وغیرہ کے ترجمے ہوئے۔ سوداؔ، میرؔ،
دردؔ اور جراتؔ وغیرہ کے دیوان بھی وہیں شائع ہوئے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دلی کالج
کے تحت تھوڑی سی ہی مدت میں مختلف موضوعات پر اردو کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اس سے
اردو کو فروغ بھی حاصل ہوا اور ساتھ ہی ہندوستانی عوام کو جدید تعلیم حاصل کرنے
میں مدد ملی اور پھر اس کالج نے بہت سے لوگوں کی سرپرستی بھی کی۔
دلی کالج کے طلبا :
اس کالج کے طلبا
میں مولوی نذیر احمد، محمد حسین آزاد، پنڈت من پھول، ماسٹر رام چندر، مولوی ذکاء
اللہ، پنڈت موتی لال، میر ناصر علی اور مولوی کریم الدین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ماسٹر رام چندر :
ماسٹر رام چندر
اسی کالج کے طالب علم تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی کالج میں سائنس کے استاد
مقرر ہوئے۔ انہیں ریاضی سے بے حد دلچسپی تھی۔ انہوں نے ریاضی کی کئی کتابوں کا
اردو میں ترجمہ بھی کیا جس سے ان کی دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا
ہے۔انہوں نے اس کے علاوہ بھی علمی کتابیں لکھیں جن میں عجائب روزگار اور تذکرۃ
الکاظمین کو کافی شہرت ملی۔ انہوں نے علمی، سائنسی اور معاشرتی موضوعات پر بھی
مضامین لکھے۔ ان کی تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سادہ اور صاف زبان کو
اپنایا ہے۔
مولوی نذیر احمد :
اس کالج کے دوسرے
طلبا جن کی تربیت اس کالج نے کی ان میں مولوی نذیر احمد اور محمد حسین آزاد کا نام
اہمیت کا حامل ہے۔ مولوی نذیر احمد نے اردو کو داستان کی دنیا سے نکال کرناول
نگاری کی طرف لایا اور اردو میں ناول نگاری کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔ انہوں نے ہی
اردو کا سب سے پہلا ناول لکھا۔ وہ ناول "مراۃ العروس" ہے۔ اس کے علاوہ
بھی انہوں نے کئی بہترین ناول لکھے۔ اسی طرح محمد حسین آزاد ایک مورخ اور نقاد کی
حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں میدانوں میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا
ثبوت پیش کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اردو زبان کو ایک رنگین اسلوب بھی عطا کیا۔
مولوی ذکاء اللہ :
ان کے علاوہ
مولوی ذکاء اللہ کا نام بھی اہم ہے۔ مولوی ذکاء اللہ فارسی ، اردو، تاریخ اور
ریاضی وغیرہ میں ماہر تھے۔ ان کی دو کتابیں "تاریخ ہندوستان" اور آئین
قیصری" بہت مشہور ہوئیں۔ مولوی کریم الدین نے بھی اردو زبان کی خدمت کی۔ ان
کی کتاب "تذکرۃ النسا" قابل ذکر ہے۔ اسی طرح بہت سے ادیبوں نے اس کالج
سے تعلیم پائی اور پھر انہوں نے اس تعلیم و تربیت کے ذریعہ اردو کی خدمت کی۔ اس
طرح اس کالج نے اردوزبان و ادب کی خدمت کی جسے تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی ہے۔
دلی کالج کے رسائل و جرائد :
دلی کالج نے
رسائل اور اخبار کے ذریعہ بھی اردو کی خدمت کی۔ یعنی اس کالج کے ذریعہ مختلف رسائل
اور اخبار بھی نکلے۔ ان میں فوائد الناظرین، خیر خواہ ہند اور محب وطن قابل ذکر
ہیں۔ اس کے ذریعہ اردو صحافت اور مضمون نگاری کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ساتھ ہی لوگوں
کے اندر ادبی ذوق بھی پیدا ہونے لگا۔ بہر حال اس طرح اس کالج کے ذریعہ اردو کو
ترقی ملی اور اردو زبان و ادب میں نئے اور جدید علوم کے ذخیرے جمع ہوئے جس سے اردو
زبان اب دیگر زبانوں کے بالمقابل کھڑی ہوسکتی تھی۔
علم و ادب کی
خدمت کرنے والا یہ کالج تا دیر قائم نہ رہ سکا۔ اس کی وجہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی
تھی۔ یعنی اس دوران شر پندوں نے اس کا کتب خانہ لوٹ لیا اور اس میں آگ بھی لگا دی۔
یہی نہیں بلکہ کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر کو قتل کردیاگیا۔ اس طرح اس کالج کو برباد
کردیا گیا۔ سات سال یہ کالج بند رہا۔ سات سال بعد 1864ء میں لوگوں نے اس کالج کو
پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور آخر تقریباً پچاس سال کی عمر
پانے کے بعد یہ کالج 1877ء میں بند ہوگیا۔
اس کالج کے بارے
میں کہا جاتا ہے کہ یہ صرف کالج ہی نہیں بلکہ اس کی ایک تحریک کی حیثیت تھی۔اس نے
نئے نئے خیالات و تصورات سے اردو زبان کو مالا مال کیا اور اردو نثر کو علمی اسلوب
اور سائنسی انداز عطا کیا۔ اس کے ذریعہ اس نے اردو نثر کے لیے نئے راستے کھولے اور
اردو کو روشنی بھی ملی جس کے سہارے اردو زبان و ادب آج اتنی ترقی کر گئی کہ دوسری
زبانوں کے مقابلے میں کسی بھی اعتبار سے کم نہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments