شمالی ہند میں اردو نثر | Shimali Hind mein urdu nasr

شمالی ہند میں اردو نثر

مختصر تعارف :

شمالی ہند میں اردو نثر کا آغاز شاعری کے مقابلے میں بہت تاخیر سے ہوا۔ اسی طرح نثر کے حوالے سے دکن سے اگر شمالی ہند کا مقابلہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ  دکن میں اردو نثر کا آغا پہلے ہوا اور دکن میں اردو نثر نے جب ترقی کے کئی منازل طے کر لیے تب شمالی ہند میں اردو نثر کا آغاز ہوا۔ چونکہ شمالی ہند والوں کے نزدیک اردو زبان کی زیادہ اہمیت نہ تھی اور وہ فارسی میں لکھنا فخر کی بات سمجھتے تھے اس لیے وہاں اردو نثر کا آغاز بعد میں ہوا۔

شمالی ہند میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش :

بہر حال دیکھا جائے تو سب سے پہلے شمالی ہند میں جو نثری نمونے چھوٹے چھوٹے فقروں اور جملوں کی صورت میں نظر آتے ہیں وہ میر جعفر زٹلی کے جملے اور فقرے ہیں۔ یعنی میر جعفر زٹلی نے شمالی ہند میں سب سے پہلے اردو نثر کا نمونہ پیش کیا۔ اس کے بعد فضل علی خاںفضلیؔ نے اردو نثر کو اختیار کیا ور ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب  "روضۃ الشہدا" (جو ہر محرم کی مجلسوں میں پڑھی جاتی تھی) کا اردو ترجمہ کیا۔چونکہ یہ کتاب فارسی میں تھی اس لیے عام لوگوں کا سمجھنا مشکل تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے فضلیؔ نے اس کا اردو ترجمہ کیا جو "کربل کتھا" کی شکل میں شمالی ہند کی پہلی اردو نثری کتاب بن کر 1731ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں واقعات کربلا اور شہادتِ امام حسین کا بیان ہے۔ دیکھا جائے تو اس کتاب میں عربی اور فارسی کے الفاظ کا استعمال بہت ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ مذہنی کتاب ہے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت فارسی اور عربی کا بہت رواج تھا۔ اس لیے ان کی نثر پر اس کا اثر مرتب ہوا۔

            اسی طرح سوداؔ نے نثر کا نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مرثیوں کے مجموعہ پر ایک اردو نثر میں دیباچہ لکھا۔ یہ نثری نمونہ بھی شمالی ہند کے نثری ارتقا میں اہمیت کا حامل ہے۔

شمالی ہند کے نثری ارتقا میں قرآن پاک کے دو تراجم بھی قابل ذکر ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے دو بیٹوں نے جن کا نام رفیع الدین اورشاہ عبدالقادر تھا 1786ء اور 1790ء میں قرآن شریف کے ترجمے کئے جو شمالی ہند کے ابتدائی نثری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

میر عطا حسین تحسین کی نثر نگاری :

اسی عہد میں میر عطا حسین تحسین نے بھی اردو نثر کے میدان میں قدم رکھااور انہوں نے 1775ء میں مشہور فارسی داستان "قصہ چہار درویش " کا اردو ترجمہ کیا جو "نوطرز مرصع " کے نام سے شائع ہوئی۔زبان و اسلوب کے حوالے سے دیکھا جائےتو یہ کتاب بہت مشکل ہے۔لیکن اردو نثری روایت میں کافی اہم ہے۔

محمد باقر آگاہ کی نثر نگاری :

اس کے بعد محمد باقر آگاہ کا نام آتا ہے جنہوں نے بہت سے اردو دیباچے لکھے اور ایک اردو کتاب "ریاض السیر" لکھی۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دیباچوں اور اس کتاب میں سادہ اور آسان زبان و اسلوب اختیا رکیاہے۔

عیسوی خاں بہادر کی نثر نگاری :

اسی طرح عیسوی خاں بہادر کا بھی تعلق اسی زمانے سے تھا۔ انہوں نے بھی اردو نثر میں 1752ء میں ایک اردو داستان "قصہ مہر افروز دلبر" لکھی۔ یہ داستان بھی سادہ، آسان اور عام فہم زبان میں لکھی گئی۔ اسی طرح آسان اور سادہ زبان میں شاہ عالم ثانی نے بھی 91/1790ء میں ایک اردو کتاب "عجائب القصص" کے نام سے لکھی۔

فورٹ ولیم کالج میں نثر نگاری :

اس کے بعد فورٹ ولیم کالج میں اردو نثر کو مزید ترقی ملی۔ یہ کالج انگریزوں کو اردو سکھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاکہ ہندوستان میں رہ کر ان کو اپنے تجارتی و دیگر معاملات میں آسانی مل سکے۔ اس سے اردو زبان کو ترقی کرنے کا موقع ملا اور پھر رفتہ رفتہ اس کالج کے ذریعہ بہت سی اردو کتابیں شائع کی گئیں۔ اردو کی خدمت کے حوالے سے اس کالج کا سب سے بڑا اور اہم نام جان گل کرسٹ کا ہے۔ اس کالج میں انہیں ہندوستانی زبان کے شعبے کا نگراں بنایا گیا۔ گل کرسٹ نے اس کالج سے پہلے ہی اردو سیکھ لی تھی۔ انہوں نے اردو لغت اور قواعد جیسی کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے اس کالج میں رہ کر اردو کی ہر اعتبار سے خدمت کی۔ خود تو انہوں نے کتابیں لکھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کالج کے لیے اردو کی کتابیں لکھنے کے لیے پورے ملک کے بڑے بڑے قلم کاروں کو جمع کرنے میں اہم کرداربھی ادا کیا۔ پھر ان کی ہی کوششوں سے کتب خانہ اور پریس کا قیام بھی ہوا۔

گل کرسٹ کے بعد اس کالج کا دوسرا اہم نام میر امن کا ہے۔ میر امن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو نثر کو سادہ اور آسان و عام فہم بناکر پیش  کر کے اردوکو ایک نیا راستہ دکھایا۔ انہوں نے عطا حسین تحسین کی کتاب"نو طرز مرصع" کو سادہ، آسان اور عام فہم زبان میں تبدیل کر کے اردو نثر  کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا۔ کیونکہ میر امن سے پہلے مشکل الفاظ و زبان کو استعمال کرنا زیادہ اچھامانا جاتا تھا۔میر امن نے "باغ و بہار" لکھ کر سادہ نثر کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ میر امن کی دوسری نثری کتاب "گنج خوبی" ہے۔

            سید حیدر بخش حیدریؔ بھی اس کالج سے جڑے تھے۔ اس کالج  کے وہ ایک ایسے مصنف و مترجم ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں "طوطی کہانی" اور" آرائش محفل" کو کافی شہرت ملی۔ آرائش محفل حاتم طائی کے فارسی قصوںکا اردو ترجمہ ہے۔

اس کے بعد میر شیر علی افسوسؔ کا نام آتا ہے۔ انہوں  نے "آرائش محفل"کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ "گلستا ن سعدی" کا ترجمہ "باغ اردو" کے نام سے کیا۔ "خلاصۃ التواریخ" بھی فارسی بھی ایک کتاب  کا ترجمہ ہے۔

اس کالج سے سب سے پہلے منسلک ہونے والے میر بہادر علی حسینی تھے۔ انہوں نے بھی کئی اردو کتابیں لکھیں۔ ان میں "اخلاق ہندی" (ترجمہ فارسی کتاب مفرح القلوب) اور "نثر بے نظیر" کو مقبولیت ملی۔ "نثر بے نظیر"مثنوی "سحرا لبیان" کا ترجمہ ہے۔

ان کے علاوہ میر کاظم علی جوان نے بھی کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے شکنتلا، تاریخ فرشتہ اور قرآن پاک کا بھی ترجمہ کیا۔ اسی طرح نہال چند لاہوری نے گل بکاولی کی کہانی کا فارسی سے اردو میں ترجمہ "مذہب عشق" کے نام سے کیا۔ مظہر ولا نے بھی کئی کتابوں کے ترجمے کیے۔ ان میں بیتال پچیسی اور تاریخ شیر شاہی اہم ہیں۔ بینی نراین جہاں نے بھی اردو نثر میں "دیوان جہاں" اور "چار گلشن" جیسی کتابیں لکھیں۔ للو لال جی نے میر کاظم علی جوان کی مدد سے "سنگھاسن بتیسی" لکھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی مصنفین و مترجمین تھے جنہوں نے اردو نثر کی روایت میں حصہ لے کر اہم اضافہ کیا۔

لکھنئو میں نثر نگاری :

اس کے علاوہ لکھنئو میں بھی اردو نثر کی کئی کتابیں وجود میں آئیں۔ انشاء اللہ خاں انشاؔ جن کا شمار لکھنئو کے ابتدائی شاعروں میں ہوتا ہے، انہوں نے نثر میں بھی کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی سب سے اہم کتاب "رانی کیتکی کی کہانی" ہے۔ یہ بہت سادہ اور صاف زبان میں لکھی گئی۔ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ ان کی دوسری کتاب "دریائے لطافت" ہے۔ انشا نے ایک اورکتاب لکھی۔ اس کا نام "سلک گہر" ہے۔ یہ ایک کہانی کی کتاب ہے جس میں انہوں نے نقطے والے الفاظ کا استعمال نہیں کیا ہے۔

اسی طرح فقیر محمد گویاؔ نے "بستان حکمت"، غلام امام شہید نے "مولود شریف" اور "انشائے بہار بے خزاں" اور رجب  علی بیک سرور نے "فسانہ عجایب" لکھ کر اردو نثر میں اہم اضافہ کیا۔ "فسانہ عجائب" ایک داستان کی کتاب ہے جسے انہوں نے 1824ء میں لکھی۔ اس کتاب میں لکھنئو کی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن اس کی عبارت بہت مشکل ہے۔

دہلی میں دلی کالج اور نثر نگاری :

اس کے بعد 1825ء میں دہلی میں انگریزی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا جو 32/1831ء میں دلی کالج کے نام مشہور ہوا۔ اس کالج کے تحت بھی اردو نثر کی آبیاری ہوئی۔ اس کالج کے مصنفین نے اردو نثر میں بہت سی کتابیں لکھیں۔ اس کالج کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سائنس، نجوم، ریاضی، فلسفہ، منطق اور تاریخ کی کتابیں زیادہ لکھی گئیں۔دلی کالج کے اہم مصنفین رام چندر، امام بخش صہبائی، ذکاء اللہ ، پیارے لال اور مولوی نذیر وغیرہ تھے جنہوں نے اردو نثر کی کئی کتابیں لکھیں۔

غالب کی نثر نگاری :

اردو نثر کی تاریخ میں غالب کا نام بھی اہم ہے۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ اردو نثر کی خدمت کی۔ انہوں نے اپنے دوست و احباب کو بہت سے خطوط لکھے۔ ان کے خطوط کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سادہ، صاف اور بول چال کی زبان کا استعمال کیا ہے اور آگے آنے والے نثر نگاروں کو سادگی کا راستہ دکھایا ہے۔

بہر حال یہ وہ ابتدائی نثر نگار ہیں جنہوں نے اردو نثر نگاری کو بلندی عطا کی۔ ان کے بعد اردو نثر لکھنے کا رواج عام ہوتا گیا۔ بے شمار قلم کاروں نے اس روایت میں حصہ لے کر اردو نثر نگاری کو طرح طرح سے اپنی تخلیقات و تراجم کے ذریعہ مالا مال کیا۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments