Urdu Ke Farogh Mein Sufiya e Keram ka hissa | اردو کے فروغ میں صوفیائے کرام کا حصہ

اردو  کے فروغ میں صوفیائے کرام کا حصہ:مختصر تعارف

اردو کے فروغ میں صوفیائے کرام کا حصہ

اردو  کے فروغ میں صوفیائے کرام کا حصہ

اردو زبان کے ارتقا اور اس کی ترقی میں صوفیائے کرام کا اہم کردار رہا ہے۔ جب صوفیائے کرام ہندوستان آئے تو انہوں نے مقامی زبان  اور عوامی بولی کو سیکھ کر دین کی تبلیغ اور تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ خصوصاً اردو زبان جس کا جنم ہو چکا تھا اور مختلف علاقوںمیں بولی جانے لگی تھی اس کو اپنے قلبی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان صوفیائے کرام کا مقصد دین کی تبلیغ اور اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانا تھانہ کہ اردو زبان کو فروغ دینا۔ لیکن غیر ارادی طور پر ارود ترقی کرتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام کو اہم مانا جاتا ہے اور اردو زبان کی تاریخ میں ان کے حصے کا ایک اہم مقام ہے۔ صوفیائے کرام کو اہم اس لیے بھی مانا جاتا ہے کہ کیونکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے ارود زبان کو اپناتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ جب کہ ان سے پہلے اس زبان میں لکھنا پڑھنا اچھا نہیں مانا جاتاتھا۔ کیونکہ پڑھا لکھا طبقہ اس وقت اسے عوامی اور بازاری زبان سمجھتا تھا۔ لیکن صوفیائے کرام نے جب اس عوامی زبان کو اپنایا تو دوسرے لوگوں نے بھی اس زبان کی اہمیت کا اندازہ لگایا اور پھر اسی زبان میں شعر و شاعری اور نثرنگاری کو ترجیح دینے لکھے۔ اس طرح اردو زبان کو آہستہ آہستہ فروغ ملتا گیا۔

دیکھا جائے تو اردو نثر کا باقاعدہ آغاز دکن میں ہوا۔ حالانکہ یہ بول چال کی زبان کی حیثیت سے شمالی ہند میں پہلے ہی رائج ہو چکی تھی۔ لیکن جب علاء الدین خلجی کے دور میں صوفیائے کرام دکن پہنچے تو ان کے ساتھ شمالی ہند کی بول چال کی زبان بھی ساتھ میں دکن پہنچی۔ وہاں وہ ملی جلی زبان بولتے رہے۔ پھر جب چودہویں صدی عیسوی میں محمد تغلق نے دیوگری کو دولت آباد کا نام دے کر اسے دارالسلطنت بنایا تو بہت سے لوگ دکن کی طرف گئے۔ ان میں صوفیائے کرام بھی تھے۔ وہ لوگ وہیں پر ہی مقیم رہے۔ انہی کے ذریعہ وہاں اردو کو ترقی کرنے کا موقع ملا۔ خاص طور سے جب بہمنی سلطنت کا قیام ہوا تو اس زبان نے اور ترقی کی۔

ابتدائی مرحلے میں جن صوفیائے کرام کے یہاں اردو کے اثرات ملتے ہیں اور ان کے نثری و منظوم نمونے بھی موجود ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ شیخ فرید الدین شکرگنج: ان کے اردو مقولے اور نظمیں قابل ذکر ہیں۔

2۔ شیخ حمیدالدین ناگوری

3۔شیخ بو علی قلندر

4۔ ان ابتدائی صوفیائے کرام میں ایک اہم نام امیر خسرو کا ہے۔ یہ ساتویں صدی ہجری کے ایک بڑے بزرگ شخص تھے۔ انہوں نے اردو کو ادبی شان عطا کی۔ انہوں نے فارسی اور ہندی کو ایک ساتھ ملا کر اردو کا اولین رنگ و روپ عطا کیا۔

5۔ شیخ شرف الدین یحیٰ منیری

6۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز: یہ ایک معروف صوفی تھے۔ اردو میں ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ یہ پہلے ایسے شخص ہیں جنھوں نے اردو میں باقاعدہ پہلی نثری کتاب لکھی۔ وہ کتاب "معراج العاشقین" ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔

7۔ خواجہ بندہ نواز کے بعد دوسرا اہم نام میراں جی شمس العشاق کا ہے۔ میراں جی بھی ایک بڑے صوفی تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں "مرغوب القلوب" کو اہمیت حاصل ہے۔

8۔ میراں جی کے بیٹے برہان الدین جانم بھی ایک اہم صوفی تھے۔ ان کی سب سے اہم کتاب "کلمۃ الحقائق " ہے۔

9۔ برہان الدین جانم کے بیٹے امین الدین اعلیٰ بھی ایک قابل ذکر صوفی تھے۔ ان کی اردو کی کتاب "گنج مخفی" ہے۔

یہ وہ معروف و مشہور اور بڑے صوفیائے کرام تھے جنھوں نے اپنا پیغام عام کرنے کے لیے مقامی زبان کا سہارا لیتے ہوئے اردو زبان کو فروغ عطا کیا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے صوفیائے کرام تھے جنھوں نے اس زبان کو اپنایا اور اسے پھلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کیا۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

 

Post a Comment

0 Comments