اردو نثر پر سرسید تحریک کے اثرات | Urdu Nasr Par Sir Syed Tahrek Ke Asraat

 اردو  نثر پر سرسید تحریک کے اثرات

اردو  نثر پر سرسید تحریک کے اثرات

ہندوستان میں مسلمانوں کا زوال مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ مسلمان سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی میدان سے کافی دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ پھر 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد جب انگریز پوری طرح ہندوستان کے حاکم بن گئے تو مسلمانوں کامزید زوال شروع ہوا۔ یہی نہیں بلکہ اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مسلمان ہی سب سے زیادہ انگریزوں کا نشانہ بنے۔ انہوں نے مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھایا۔ مسلمانوں کو ہر طرف اندھیرا ہی نظر آرہا تھا۔ ان کی جاگیروں کو ضبط کر لیا گیا۔ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان پر جرمانے لگائے گئے۔ کثیر تعداد میں انہیں قید کیا گیا اور بہت سے لوگوں کوپھانسی بھی دی گئی۔ ان تمام حالات سے مسلمان احساس محرومی کے شکار ہو گئے اور اسی طرح وہ ذہنی انتشار سے بھی دو چار ہوئے۔ سر سید احمد خان نے ان حالات اور واقعات کا مشاہدہ کیا اور مسلمانوں کی مایوسی، محرومی، اداسی، ان کی بدحالی اور پستی ان سے دیکھی نہیں گئی۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس اندھیرے سے نکالنے کے لیے راستہ تلاش کرنا شروع کیا۔ پھر ان کی نجات اور کامیابی کے لیے سرسید نے باقاعدہ اصلاحی تحریک چلائی۔ اسی تحریک کو سرسید تحریک یا علی گڑھ تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سر سید احمد خان نے سب سے پہلے مسلمانوں کے تئیں انگریزوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں سے انگریزوں کی دشمنی کو کم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے "اسباب بغاوت ہند" اور وفادار مسلمان" کے نام سے دو مقالے بھی لکھے۔

اس کے بعد انہوں نے مسلم قوم کی خرابیوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے اور ان کے اندر اصلاح پیدا کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلم قوم کو جگانے کے لیے تعلیم پر زور دیا۔ سرسید احمد خاں تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جب تک ہم تعلیم خصوصاً سائنسی اور انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے تب تک اپنی حالت کو بہتر بنانا اور ترقی کرنا مشکل ہے۔ اس لیے انہوں نے مذہبی یا دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی طرف مسلمانوں کو لانے کا ارادہ بنایا۔ اس کے لیے انہوں نے غازی پور میں "سائنٹفک سوسائٹی" قائم کی تاکہ مسلم قوم کے اندر جدید تعلیم کا رجحان پیدا ہو۔ پھر جب سرسید علی گڑھ گئے تو یہ سوسائٹی بھی ان کے ساتھ گئی اور پھر علی گڑھ میں رہ کر سرسید نے مسلمانوں کی خدمت کی۔ حالانکہ شروع میں لوگوں نے سرسید کی مخالفت بھی کی ۔ لوگ انہیں برا بھلاکہنے لگے لیکن پھر رفتہ رفتہ سرسید کا مشن کامیاب ہوتا گیا۔ اس کے لیے انہوں نے انسی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے ایک اخبار بھی نکالنا شروع کیا جو آدھا اردو اور آدھا انگریزی میں ہوتا تھا۔ اس میں سرسید اور ان کے دوستوں کے اصلاحی موضوعات بھی ہوتے تھے۔ اس کے ذریعہ انہوں نے مسلم سماج میں نئی فکر اور سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی۔

اس طرح سرسید احمد خان نے ایک رسالہ "تہذیب الاخلاق" کے نام سے نکالا۔ اس رسالے کا مقصد بھی قوم کی اصلاح اور ترقی تھا۔ دیکھا جائے تو اس رسالے نے سرسید تحریک کو طاقت دینے میں اہم رول ادا کیا۔ اس رسالے میں سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور ادبی موضوعات بھی ہوا کرتے تھے۔ یعنی اس رسالے نے جہاں سماجی ، معاشرت اور قومی فلاح میں اہم کردار نبھایا وہیں اردو زبان و ادب کو بھی کافی ترقی ملی۔ ساتھ ہی اردو مضمون نگاری کو بھی فروغ حاصل ہوا۔

سر سید کا مشن چونکہ بہت بڑا تھا اس لیے انہوں نے کہیں پر رکنا پسند نہیں کیا۔ رکاوٹوں کے باوجود سرسید بڑھتے گئے اور آخر وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور ان کا خواب بھی پورا ہوا جسے آج ہم "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ ایک ادارہ قائم کیا جائے تاکہ ہماری قوم کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی مل سکے۔ 1875ء میں ان کا یہ پلان کامیاب بھی ہوا۔ یعنی انہوں نے "مدرسۃ العلوم" کے نام سے اسکول کھولا۔ بعد میں یہ اسکول "مسلم اینگلو اورینٹل کالج" بنا۔ اور ان کے انتقال کے بعد 1920ء میں مختلف لوگوں کی کوششوں سے اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا جسے آج ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانتے ہیں۔

دیکھا جائےتوسر سید احمد خان نے اپنی تحریک کے لیے اردو شعر و ادب کا بھی سہارا لیا ہے جس سے اردو زبان و ادب کو بھی نئی راہ ملی۔ سرسید خود بھی مضامین وغیرہ لکھتے تھے ساتھ ہی اپنے دوستوں کو بھی انہوں نےمشووہ دیا کہ وہ اپنی نثر  اور شاعری میں مقصد کی بات کریں جس سے قوم کی بھلائی ہوسکے۔ اسی طرح انہوں نے آسان اور عام فہم زبان کے استعمال پر زور دیا تاکہ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔ اس طرح سرسید کے ذریعہ سادہ اردو نثر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ابھی تک عبارت آرائی، لفاظی اور بناوٹ کا جو دور تھا اور لوگ جسے بہتر تصور کرتے تھے۔ سرسید تحریک کے ذریعہ اس سوچ میں تبدیلی لائی گئی۔ اس تحریک نے اردو نثر کو سادہ، آسان اور سلیس بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ ساتھ ہی خیالی باتوں، کہانیوں اور قصوں سے نکال کر اس تحریک نے مقصدیت اور عقلیت پر زور دیا۔ اب نثر میں حیات و کائنات اور عام انسانی زندگی کی حقیقت نگاری کے لیے سادہ اور سہل اسلوب بیان کو اختیار کیا جانے لگا۔ اس طرح ہمارے سامنے جو نثر اس تحریک کے ذریعہ سامنے آئی وہ جدید اردو نثر کہلائی اور جدید اردو نثر کا باقاعدہ بانی سرسید کو ہی مانا جاتا ہے۔

اس تحریک کے زیر اثر مختلف نثری اصناف کا رواج بھی ہوا اور اسے فروغ بھی حاصل ہوا۔ ان تمام نثری اصناف کی زبان اور اس کا اسلوب بھی سادہ اور عام فہم ہے۔ اس تحریک کے زیر اثر جن نثری اصناف کی پرورش ہوئی وہ سوانح نگاری، تاریخ نگاری، ناول نگاری، مقالہ نگاری اورتنقید نگاری وغیرہ ہیں۔ اس سلسلے مین ان کے دوستوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

سرسید احمد خان نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور اس کے ذریعہ اردو نثر کو مالا مال کیا۔ انہوں نے اردو کو علمی زبان بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے اردو نثر کو لفاظی، تصنع اور عبارت آرائی سے پاک کیا۔ ان کی تحریر کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہر بات کو سیدھے سادے انداز میں لکھا ہے۔ ان کی یہ  سادگی شروع سے آخر تک قائم بھی رہتی ہے۔ ان کی تحریر میں مقصد کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہ علمی گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح دلیلوں کے سہارے اپنی بات پیش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی نثر میں سلاست اور روانی ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو ان سے پہلے میر امن نے سادگی کی مثال پیش کی تھی اور غالب کے خطوط سے بھی سادہ نثر کی روایت کو مضبوطی ملی۔ اس روایت کو مزید ترقی دینے والے سرسید تھے۔ سرسید کی نثر کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نثر نگاری کو جو خاص رنگ عطا کیا اس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی۔ سرسید نے ہی اردو نثر میں یہ صلاحیت پیدا کی کہ اب وہ ہر قسم کے مضامین کو اپنے اندر شامل کرنے کے قابل ہوگئی۔ سرسید کی نثری تصانیف میں "آثار الصنادید، تاریخ ضلع بجنور، تاریخ سرکشی ضلع بجنور، تاریخ فیروز شاہی، آئین اکبری، تزک جہانگیری، اسباب بغاوت ہند اور خطبات احمدیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

سرسید کے رفقا:

سرسید احمد خان کے دوستوں نے بھی اس تحریک سے جڑ کر اردو نثر کی خدمت کی اور اردو نثرکو نئے رجحانات سے مالا مال کیا۔ ان کے ان دوستوں نے ان کی تحریک کے فروغ میں  اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہر وقت اور ہر کام میں سرسید کا ساتھ دیتے تھے۔ ان کے دوستوں میں محسن الملک، چراغ علی، نواب وقارالملک، حالیؔ، شبلیؔ، مولوی نذیر احمداور ذکاء اللہ اہمیت کے حامل ہیں۔

حالیؔ:

حالیؔ کا شمار علی گڑھ تحریک کے ان ادبا میں ہوتا ہے  جنہوں نے اردو ادب کو مختلف طریقوں سے متاثر کیا۔ تنقید، سوانح نگاری، مضمون نگاری اور شاعری کو انہوں نے اپنے اسلوب سے حد درجہ متاثر کیا۔ سرسید کے اثر سے انہوں نے نیچرل اور اصلاحی شاعری کی بنیاد رکھی۔ "مسدس حالی" ان کا بہترین نمونہ ہے۔ اسی طرح نثر کے میدان میں انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بھی نثر کی سادگی پر زور دیا اور اپنی تحریروں میں سادہ، آسان اور عام فہم زبان و اسلوب کو اپنا کر اردو نثر میں سادگی کی روایت کو فروغ بخشا۔ ان کی کتابیں مسدس مد و جزر اسلام، مقدمہ شعر و شاعری، حیات سعدی، حیات جاوید اور یادگار غالب قابل ذکر ہیں۔ حالیؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرسید کے رفقا میں جس شخصیت نے سب سے زیادہ اردو ادب کو متاثر کیا وہ مولانا حالیؔ ہیں۔

شبلیؔ:

سرسید کے رفقا میں ایک اہم نام علامہ شبلی کا ہے۔ انہوں نے بھی اردو ادب کی خدمت کی۔ خصوصاً اردو نثر کو انہوں نے منفرد انداز و اسلوب عطا کیا۔ شبلیؔ نے بھی شاعری کی اور اس میں انہوں نے اپنا الگ راستہ نکالا۔ لیکن ان کا اصل میدان نثر ہے۔ نثر میں انہوں نے جو خدمات انجام دیں اسے اردو دنیا کبھی نہیں بھول سکتی۔ الفاروق، المامون، الغزالی۔ سیرۃ النبی، الکلام، علم الکلام، موازنہ انیس و دبیر، شعرالعجم اور سیرۃ النبی وغیرہ ان کی بلند پایہ کتابیں ہیں۔

 نذیر احمد:

ڈپٹی نذیر احمد بھی سرسید کے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اردو کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی نثر بھی سادہ اور سلیس ہے۔ ان کا میدان ناول نگاری ہے۔ ناول کے ذریعہ انہوں نے معاشرے کی اصلاح کی۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ہی اردو ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ اور مراۃ العروس کے نام سے اردو کا پہلا ناول لکھا۔ اس کے علاوہ بنات النعش، ابن الوقت اور توبۃ النصوح وغیرہ ان کے اہم ناول ہیں۔

مولوی ذکاء اللہ:

سرسید تحریک سے جڑا ایک اہم نام مولوی ذکاء اللہ کا بھی ہے۔ انہوں نے اس تحریک کو بچوں تک پہنچایا۔ انہوں نے بچوں کے لیے درسی کتابیں لکھیں۔ مولوی ذکاء اللہ نے  تاریخ نگاری کے ذریعہ بھی اردو نثر کی خدمت کی۔ ان کی تحریر بھی سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔ ان کی کتابیں تاریخ ہند، تاریخ عہد انگلیشیہ اور سوانح ملکہ وکٹؤریہ وغیرہ ہیں۔

ان کے علاوہ بھی کئی شخصیتیں ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا اور ان کے ذریعہ اردو نثر کو نیا انداز، نیا اسلوب اور نئے نئے موضوعات ملے۔ اس طرح اس تحریک کا اثر اردو نثر پر قائم ہوا اور اردو نثر جدید اردو نثر بن کر نمودار ہوئی۔ اس تحریک کا اثر بعد میں بھی قائم رہا اور سرسید اور ان کے رفقا کے بعد آنے والے دوسرے ادیبوں پر بھی اس تحریک کا اثر رہا۔ انہوں نے اسی کے زیر اثر اردو نثر میں حصہ لیا اور اسے فروغ بخشا۔ 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments