فروغ اردو: مسائل اور حل

 فروغ اردو: مسائل اور حل

اردو ایک مشترکہ تہذیب کی زبان ہے۔ اس کا تعلق نہ تو کسی خاص قوم سے ہے اور نہ ہی کسی مذہب سے۔ اور کسی بھی زبان کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا یا زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبان ایک ذریعہ اظہار خیال ہے۔ زبان کے ذریعہ ہم اپنے خیالات، اپنے افکار اور اپنی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ وہ کوئی بھی بات ہوسکتی ہے۔ مذہبی بھی  سیاسی، سماجی، تجارتی یا ادبی بھی۔ اس لیے کسی بھی زبان کا تعلق محض اظہار خیال سے ہوتا ہے کسی مذہب سے نہیں۔ اسی طرح اردو کو کسی خاص قوم سے جوڑ کر  دیکھنا سراسر ناانصافی ہے۔دوسرے تو دور کچھ اپنے لوگ بھی اسے اپنے ساتھ مخصوص کر کے دیکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ یہ زبان ہماری ہے۔ کسی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے کو اردو زبان سیکھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو انہیں تعجب ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں خود کی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی اور دوسروں کے ذہن  سے بھی اس خیال کو مٹانا ہوگا تبھی اس زبان کے لیے ترقی کی نئی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

اردو زبان ایک ہندوستانی زبان ہے۔ یہ یہیں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ شروع میں یہ عام بول چال کی زبان تھی۔ اس کی کوئی مخصوص ہیئت نہ تھی اور نہ ہی کوئی اس کا خاص نام تھا۔ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اس عوامی زبان کو بولتے تھے۔ پھر اس کے الگ الگ نام دیئے گئے۔ ڈاکٹر مسعود حسین کے مطابق امیر خسرو سے لے کر انیسویں صدی کے خاتمے تک اس زبان کو ہندی، ہندوی، ہندوستانی، زبان دہلوی، گوجری، دکنی، ہندوستانی، زبان اردوئے معلیٰ، زبان اردوئے شاہی، ریختہ اور اردو کہتے تھے۔

انگریزوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پالیسی تھی تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide and rule(، اسی طرح انھوں نے اس ہندوستانی زبان کے ساتھ بھی کیا ۔ ان لوگوں نے اردو کو ترقی اور اس کے فروغ کے نام سے ہندی سے اسے الگ کیا۔ ان لوگوں نے یہ کوشش کی کہ وہ الفاظ جو ہندی کے ہیں اسے نکالا جائے اور عربی و فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ اسی طرح ہندی سے اردو کے الفاظ نکال کر سنسکرت کے پرانے الفاظ کو شامل کیا جائے تاکہ دو بڑی مشترکہ قومیں اور ان کی زبان تقسیم ہوسکے اور ان کے دو قومی نظریے کی بنیاد بھی قائم ہوسکے۔ بہر حال اس طرح ان کے ذریعہ ہندی اور اردو دو زبانیں وجود میں آئیں جو کہ بعض محققین کے نزدیک ایک ہی زبان ہے۔

بہر حال جب یہ الگ زبان کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اپنے خیالات کا اظہار اس زبان میں بہتر طریقےسے کر سکتے ہیں تو اس زبان کی ترقی کے لیے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کئی پہلوئیں ہیں جن کے مدنظر اردو کو فروغ حاصل ہوسکتاہے۔ ان میں دو بہت اہم ہیں۔

پہلا یہ کہ ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ سطحوں پر اردو زبان و ادب کی تعلیم دینا۔ یعنی اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں اردو کو شامل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنا قدم خود بڑھانا ہوگا۔انتظامیہ کے بھروسے بیٹھنے سے نتیجہ منفی ہی آئے گا۔ ساتھ ہی ہمیں خود پڑھنا ہوگا اور اپنی حد تک اسکولوں میں اردو  کو شامل کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بہت سے محبان اردو اپنی حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے اندر اس زبان سے الفت رکھنی ہوگی نفرت نہیں۔ جیساکہ آج خوشحال طبقہ اور امیر طبقہ اپنی نسل کا رشتہ اردو سے جوڑنا نہیں چاہتا۔ وہ اردو اختیار کرنے کو بے کار سمجھتے ہیں، اسے غیر مفید تصور کرتے ہیں، بلکہ کچھ حضرات تو اسے حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

ہاں اس سلسلے میں مدرسے کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ مدرسے کا ذریعہ تعلیم اردو ہوتا ہے۔ اس سے اردو زبان کو ترقی کرنے کے راستے ہموار ہوتے رہے ہیں۔لیکن مدرسوں کے نصاب میں اردو کو بطور مضمون نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ اگر انگلش، عربی اور ہندی کی طرح اردو کو بھی مدرسے کے نصاب میں بطور مضمون شامل کیا جائے تو اس کی  مزید ترقی ہوسکتی ہے۔

دوسرا اہم پہلو روزگار اور کاروبار کا ہے۔ یعنی اردو کے فروغ کے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ اسے روزگار سے جوڑا جائے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ علم کا تعلق روزگار سے نہیں ہے لیکن چونکہ موجودہ دور میں علم کا تصور معاش سے جڑ گیا ہے۔ تعلیم سے لوگوں کا مطلب روزی اور نوکری ہوتا ہے۔ اس لیے جب تک اس زبان کو روزگار سے نہیں جوڑا جائے گا، اسکیمیں نہیں لائی جائیں گی تب تک اس سے لوگوں کی دوری بنتی ہی جائے گی۔ اردو کے ساتھ جو سوتیلاسلوک ہورہا ہے ہم سب اس سے واقف ہیں۔ اردو کو معاش سے جدا کیا جاتا ہے۔ اردو پڑھنے والوں کے لیے روزگار حاصل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں سے اردو ختم کی جارہی ہے۔اس کی وجہ سے اردو والوں کو روزگارکے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کی دوری اردو سے بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک تو حکومت ذمہ دار ہوتی ہے اور دوسرا ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ جہاں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں اردو پڑھنے والے نہیں ہوتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی حکومت و انتظامیہ اس کوختم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بہر حال ویسے تو ہمیں روزگار سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق روزگار سے رہا ہی نہیں۔ شروع میں اکثر لوگ چاہے وہ جس بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اردو زبان سیکھتے تھے۔ دیگر علوم حاصل کرنے کے ساتھ اردو کو بطور زبان سیکھتے تھے۔ بچپن میں ہی انہیں اردو سے لگاؤ ہوجاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی شاعر بن جاتے تھے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ ایک مثال برج نارائن چکبست ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مولوی صاحب سے حاصل کی۔ مولوی صاحب سے انہوں نے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر 9 سال کی عمر میں انہوں نے شاعری بھی شروع کردی۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ہم اپنے بچوں کو اردو کی پوری تعلیم نہیں دے سکتے یا دوسرا کورس کرانا چاہتے ہیں تو کرانا چاہیے۔ لیکن ساتھ میں اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لیں گے تو اس سے ایک تو آپ کا فائدہ ہوگا۔ آپ دینی و دنیاوی دونوں چیزیں بآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح اردو کا بھی فروغ ہوگا۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسے محکموں اور دفتروں میں عام کیا جائے۔ یعنی وہاں اردو کا جتنا زیادہ استعمال ہوگااتنا ہی اسے فروغ بھی حاصل ہوگا۔ سرکاری دفتروں میں تو مشکل ہے لیکن ہم اپنی حد تک جو ہمارے دفاتر ہیں وہاں تو اس زبان کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اسی طرح تحریکات کا قیام بھی ضروری ہے۔ کسی بھی میدان میں تحریک کا بہت اہم کردار رہتا ہے۔ اس کے ذریعہ اس عمل کوفروغ ملتا ہے۔ اسی طرح اردو کے فروغ کے لیے ہمیں تحریک چلانی ہوگی۔ اس میں نئے نئے رجحانات کو شامل کرنا ہوگا۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریکوں کے ذریعہ کس حد تک اردو کو فروغ حاصل ہوا۔ جب جب اردو ادب میں تحریکیں قائم ہوئیں اردو کا دامن وسیع ہوتا گیا۔ چاہے وہ علی گڑھ تحریک ہو، رومانوی تحریک ہو، ترقی پسند تحریک ہو یا اس کے بعد کی تحریکیں، ہر تحریک سے اردو زبان و ادب کو بہت فائدہ ہواہے۔ اسی طرح آج بھی ادبی تحریکوں کے ذریعہ اردو کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔

اسی طرح جب تحریکیں وجود میں آئیں گی تو اس کے ساتھ جگہ جگہ جلسے بھی منعقد ہوں گے۔ ان جلسوں سے ایک تو اردو کی تحریک کو روشنی ملے گی، دوسرا یہ کہ اس جلسے کے ذریعہ بھی اردو کو فروغ ملے گا۔

پروگرام اپنے اندر تحریک بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے ذریعہ اردو کی ترقی کی نئی راہیں نکل سکتی ہیں۔ یہاں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ پروگرام سیاسی یاذاتی مفاد کے لیے نہ ہو۔ اس سے منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔اس سلسلے میں ریختہ فاؤنڈیشن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جو ہر سال ادبی پروگرام کے ذریعہ لوگوں کو  اردو سے محبت کرنی سکھاتا ہے۔

مشاعروں کے انعقاد کے ذریعہ بھی اردو کو فروغ مل سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ مشاعرہ اردو کے فروغ کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مشاعروں کے ذریعہ اردو کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔ مشاعرہ محض ایک محفل نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ اردو ادب کا ایک گہوارہ ہے۔ شروع سے ہی مشاعروں کے ذریعہ لوگوں کو اردو کی طرف مائل کیا گیا اور اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کی گئی۔ ساتھ ہی اردو شعری اصناف کو مشاعروں کے ذریعہ فروغ ملا ہے اور اردو کی ترقی ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح آج بھی مشاعرے ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیے۔ کیونکہ مشاعرے زیادہ تر نئی نسل کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور اردو سے قریب کرتےہیں۔ جب نئی نسل اردو کو لے کر سنجیدہ ہوگی تو اردو کے فروغ میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔

بعض ادیب اور نقاد مشاعروں اور ان میں حصہ لینے والے شعرا پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کو بازاری شاعری کا نام دیتے ہیں جوکہ بالکل غلط ہے۔ شاعر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور وہ عوام کے دلوں کو جیت لیتا ہے۔ اس سے اس کے اندر اردو سے محبت پیدا ہوتی ہے اور اسے فروغ بھی ملتا ہے۔ اس لیے مشاعروں کو غلط بتانا صحیح نہیں۔ اسی طرح اصول بنانا بھی نقصان دہ ہے۔ کیونکہ تاریخ زبان اس کی گواہ ہے۔ اصول و قواعد زبان کو مردہ کردیتے ہیں۔

گھروں اور بازاروں میں اردو کا ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے گھروں میں اردو کا ماحول پیدا کرنا ہوا۔ بچوں سے باتیں اردو میں کرنی ہوگی ۔ ان کو اردو لکھنا اور پڑھنا سکھانا ہوگا۔ یہ بنیادی جگہ ہے، یہاں سے ہمارے اندر اردو سے محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح دکانوں وغیرہ میں اس کا استعمال کرنا ہوگا۔ یعنی آپ بورڈ لگا رہے ہیں تو وہاں اردو کا استعمال بھی کیا جائے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے کارڈ چھپوارہے ہیں تو اردو کا کالم بھی ہو وغیرہ۔ انہی تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اردو کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اسے فروغ دے سکتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ اردو بہت آسان زبان ہے۔ جن لوگوں کو بالکل اردو نہیں آتی ان کو لگتا ہے کہ اردو بہت مشکل زبان ہے۔ اگر ہمارا تعلق ہندی یا اردو سے ہے، یعنی ہم اسے بول سکتے ہیں اورسمجھ سکتے ہیں تو اس کا لکھنا پڑھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ہم ہندوستان میں رہ کر جو زبان بولتےہیں، سمجھتے ہیں، وہ عوامی زبان ہے۔ اسے اردو بھی کہہ سکتے ہیں اور ہندی بھی۔ یہ ہماری مادری زبان ہے۔ جب ہم اس بول چال کی زبان کو تحریری شکل دیتے ہیں تو وہ اردو یا ہندی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ بہر حال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس زبان کو بچپن سے بولتے  اور سمجھتے ہیں، بس لکھنا اور پڑھنا ہے۔  اور کسی بھی زبان کو سیکھنے میں چار یا پانچ چیزیں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔ 1۔ سننا۔2۔ بولنا۔ 3۔ پڑھنا۔ 4۔ لکھنا۔ 5۔ سوچنا۔ ان مرحلوں میں سے ہمیں صرف دو مرحلے طے کرنے ہیں۔ ایک پڑھنا اور دوسرا لکھنا۔ باقی ہم سب پار کر چکےہیں۔ اس لیے ہمارے لیے اردو سیکھنا آسان ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                                                                          

Post a Comment

0 Comments