اردو خطوط نویسی | Urdu Khutut navesi

اردو خطوط نویسی

خط  عربی زبان کا لفظ ہے جو سطر، لکیر، نشان اور تحریر وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن زمانے کی تبدیلی اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ اس کے معنی و مفہوم میں بھی تبدیلی آئی اور نامہ، مکتوب اور مواصلات کے معنوں میں بھی مستعمل ہونے لگا۔

اصطلاحاً خط اس مختصر تحریر کو کہتے ہیں جس میں مکتوب نگار اپنے خیالات، محسوسات اور پیغامات کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ یعنی کوئی شخص جب اپنی بات یا پیغام لکھ کر دوسرے تک پہنچاتا ہے  تو وہ خطوط نویسی یا مکتوب نگاری کہلاتا ہے۔جو بات یا پیغام لکھ کر بھیجتے ہیں اسے خط یا مکتوب کہتے ہیں اورخط لکھنے کے فن کو خطوط نویسی یا مکتوب نگاری کہتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص خط یا مکتوب لکھتا ہے وہ مکتوب نگار کہلاتا ہے اور جس کے پاس خط لکھ کر بھیجا جاتا ہے وہ مکتوب الیہ کہلاتا ہے۔

خط کا مقصد:

خط کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مکتوب الیہ اور مکتوب نگار دونوں ایک دوسرے کے احوال سے واقف ہوں۔ لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی اور ذاتی حالات کے ساتھ دیگر مسائل کو بھی خطوط میں جگہ ملنے لگی۔ خاص طور سے ادیبوں کے ذریعہ لکھے گئے خطوط میں ان کی ذاتی حالات کے ساتھ ساتھ اس عہد کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی حالات وغیرہ کا عکس صاف طور پر نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے خطوط میں علمی اور ادبی باتیں بھی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مکتوب نگاری کو ادب کا درجہ حاصل ہوا۔

خطوط نویسی کی خصوصیات:

یقیناً اردو ادب میں خطوط نویسی کو باقاعدہ ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے جو اپنی خصوصیات کی وجہ سےالگ شناخت رکھتی ہے۔ یہ ایسی صنف ہے جسے "نصف ملاقات" کا درجہ حاصل ہوا۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے تو اسے پوری ملاقات مانا ہے بلکہ ان کےنزدیک تو خط ظاہری ملاقات سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔

اصول و ضوابط سے پاک:

مکتوب  نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اصول و ضوابط سے پاک ہے۔ اس میں موضوع کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مکتوب نگار ہر اعتبار سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ یعنی خط کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں زندگی کےتمام حالات کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی معاشرتی اور مذہبی مسائل وغیرہ پر بھی بات ہوتی ہے۔

خط شخصیت کا آئینہ دار:

مکتوب  نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خط شخصیت کا آئینہ دار بھی ہے۔خط کے ذریعہ مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کی شخصیت اور ان کی زندگی کے حالات کھل کر سامنے آتے۔ ان کی زندگی کے چھوٹے بڑےتقریباً تمام واقعات خط میں موجود ہوتے ہیں۔ ان کے عقائد و نظریات ، مذہبی ، سیاسی و سماجی خیالات بھی ان خطوط میں نظر آتے ہیں جس سے ایک سوانح نگار کو بھی کسی کی سوانح حیات لکھنے میں مدد ملتی ہے۔ گویا سوانح نگاری کے لیے خطوط سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اور سوانح نگار کے لیے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ خطوط میں کسی شخص کے بارے میں صحیح اور سچ بات مل جاتی ہے۔ کیونکہ خط میں مکتوب نگار جو کچھ بھی لکھتا ہے وہ اس کی اپنی بات ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔

خطوط کی تاریخی اہمیت :

اسی طرح خط کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ چونکہ خط میں مکتوب نگار تمام حالات و واقعات کا ذکر کرتا ہے۔ مکتوب نگار اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکتا ہے اسے ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ اس لیے تاریخ لکھتے وقت ایسے خطوط کافی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ یعنی تاریخ نویس اس عہد کے حالات، واقعات ، مقام اور تاریخ وغیرہ کو ان خطوط سے حاصل کرتا ہے جو کہ سب سے زیادہ بھروسے مند ہوتے ہیں۔

خط کی ایک خصوصیت اس کی سادگی ہے۔ خط میں عام فہم زبان کا استعمال کرنا ضروری مانا جاتا ہے تاکہ مکتوب الیہ کو بات سمجھنے میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح اختصار کا ہونا بھی خط کی خصوصیت ہے۔ بعض لوگ تو خط کے اختصار کو دیکھ کر دیگر نثری اصناف سے اسے بہتر سمجھتے ہیں۔

خط کی قسمیں:

خطوط کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلاً ذاتی/نجی، شخصی، علمی، معلوماتی، اطلاعی، جذباتی، سیاسی، دفتری، سرکاری اور تجارتی و کاروباری وغیرہ۔ ان میں تین قسمیں قابل ذکر ہیں۔ 1۔سرکاری۔2۔ ادبی۔3۔ ذاتی/ نجی۔

1۔سرکاری خطوط

     اس میں سرکاری یا دفتری معاملات لکھے جاتے ہیں۔ یعنی ایسے خطوط میں نجی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے خطوط کا انداز الگ ہوتا ہے اور ضرورت کے اعتبار سے زبان کا استعمال ہوتا ہے۔

2۔ ادبی خطوط

   اس میں ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔

3۔ نجی/ ذاتی خطوط:

      ایسے خطوط دوست و احباب یا رشتے داروں کو لکھے جاتے ہیں جو نجی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

خطوط نویسی کا آغاز و ارتقا:

            مکتوب نگاری کی روایت بہت قدیم ہے۔ لیکن اردو میں اس روایت کا آغاز انیسویں صدی عیسوی میں ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے کس نے خط لکھا؟ اس میں اختلاف ہے۔

فقیری بیگم اور مرزا قتیل کی خطوط نویسی:

کچھ لوگوں نے فقیرہ بیگم کے خط کو پہلا خط مانا ہے جسے انھوں نے 1803ء میں لکھا۔ بعض لوگوں نے مرزا قتیل کو پہلا مکتوب نگار ماناہے ۔ مرزا قتیل نے 1817 ء سے پہلے ہی خط لکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کے خطوط کا مجموعہ "معدن الفوائد" ہے جو 1817ء میں شائع ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ اردومیں باقاعدہ مکتوب نگاری کا آغاز انھوں نے ہی کیا۔ ان کے کل پانچ خطوط ہیں جو بہت طویل ہیں۔ انھوں نے آسان زبان کا استعمال کیا ہے۔

غلام امام شہید کی خطوط نویسی:

             اس کے بعد مکتوب نگاری کی روایت میں دوسرا اہم نام غلام امام شہیدؔ کا ہے۔ ان کے خطوط کا مجموعہ" انشائے بہار بے خزاں" ہے جو 1866ء میں شائع ہوا۔ انھوں نے جتنے خطوط لکھے وہ کسی کے پاس بھیجنے کے لیے نہیں بلکہ خطوط نویسی سکھانے کے لیے لکھے۔ ان کے خطوط میں عربی، فارسی اور ہندی کے الفاظ زیادہ ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے شعری وسائل کا بھی سہارا لیا ہے اس لیے ان کے خطوط کی عبارت مشکل ہے۔ ان کے ایسے خطوط بھی ہیں جو آسان ہیں۔

رجب علی بیگ سرور کی خطوط نویسی :

            اسی طرح رجب علی بیگ سرورؔ نے بھی مکتوب نگاری کی روایت میں حصہ لیا۔ ان کے خطوط کا مجموعہ "انشائے سرور" ہے جس کی اشاعت 1886ء میں ہوئی۔ انہوں نے بھی شروع میں مشکل زبان کو اپنایا ہے۔ ان کے بعد کچھ خطوط سادہ اور آسان بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو قدیم اور جدید کی درمیانی کڑی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے خطوط میں اس عہد کی معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے خطوط کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان کی شخصیت بھی وہاں صاف نظر آتی ہے۔

غلام غوث بے خبر کی خطوط نویسی :

            ابتدائی مکتوب نگاروں میں خواجہ غلام غوث بے خبرؔ بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کے خطوط سے بھی ان کی ذاتی حالت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے یہاں بھی سادگی اور سلاست کا پہلو نظر آتا ہے۔

واجد علی شاہ اور ان کی بیگمات کی خطوط نویسی 

خطوط نویسی کی روایت میں واجد علی شاہ اور ان کی بیگمات کے خطوط کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ واجد علی شاہ کے خطوط میں اس دور کا سماج چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے ملک کی بدحالی کا بھی ذکر کیا ہے۔ عوام کی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے اور زوال ہوتی تہذیب کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان کے خطوط میں دلکشی، روانی اور سلاست بھی موجود ہے۔

مرزا غالب کے خطوط

            اسی طرح مرزا غالبؔ نے بھی خطوط نویسی کی روایت میں حصہ لیا اور اس روایت کو اعلیٰ مقام بھی عطا کیا۔ ان کے خطوط کو جو مرتبہ ملا آج تک اس درجے کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ انہوں نے مکتوب نگاری کی روایت کو نیا رنگ عطا کیا۔ انہوں نے ہی مراسلے کو مکالمہ بنایا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں کی۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ اس وقت مشکل زبان کا استعمال کرنا فخر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن غالبؔ نے آسان، سادہ اور عام فہم زبان میں خط لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ عبارت کی اصل خوبصورتی اس کی سادگی ہے۔ انھوں نے اس سادگی میں بھی ایسا منفرد اسلوب اپنایاجو غالبؔ کی ہی خصوصیت بنی رہی۔ آج تک کوئی ان کی پیروی نہ کرسکا۔ انھوں نے اپنے خطوط میں شوخی و ظرافت کا بھی سہارا لیا ہے۔ اسی طرح محاورے اور کہاوت بھی جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے ان کے خطوط مزید دلچسپ نظر آتے ہیں۔

غالبؔ کے خطوط کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ان کی شخصیت صاف طور نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کا ذکر کیا ہے۔ غالبؔ اپنی مایوسی، ناکامی اور زندگی کے مختلف معمولات کو کھل کر لکھتے ہیں۔ اس وقت کی سیاسی، سماجی، معاشرتی زندگی، زوال ہوتی تہذیب، مغلیہ سلطنت کا زوال، انگریزوں کے ظلم و ستم وغیرہ کو کھل کر بیان کیا ہے۔ یعنی کہ ان کے خطوط میں ان کا پورا معاشرہ اور عہد صاف طور پر نظر آتا ہے۔غالبؔ کے خطوط کے مجموعے عود ہندی، اردوئے معلیٰ، نادرات غالب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

خطوط نویسی علی گڑھ تحریک یا سرسید تحریک کے زمانے میں :

            اس کے بعد علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ اردو مکتوب نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ علی گڑھ تحریک / سرسید تحریک نے جہاں دیگر اصناف اردو ادب کو متاثر کیا وہیں اردو مکتوب نگاری پر بھی اس کا اثر رہا۔ اس تحریک کے ذریعہ اردو مکتوب نگاری کو نیا اسلوب ملا۔ سرسید نے آسان اور عام فہم زبان کے ساتھ مقصدیت پر زور دیا جو کہ ان کے خطوط میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے خطوط زیادہ تر نجی، دفتری اور علمی ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سرسید کے خطوط نے بھی اردو مکتوب نگاری کی روایت میں گراں قدر اضافہ کیا۔سرسید کے خطوط کے مجموعے سرسید کے خطوط، خطوط سرسید اور مکاتیب سرسید وغیرہ ہیں۔

            اسی طرح سرسید کے دوستوں نے بھی اس روایت میں حصہ لیا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نام حالیؔ کا ہے۔ انھوں نے قوم کی بدحالی، معاشرے کا عکس اور ہندو مسلم اتحاد پر گفتگو کی ہے ۔ ساتھ ہی ان کے خطوط سے ان کی سیرت اور شخصیت بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔

            اسی طرح علامہ شبلیؔ نے بھی خطوط لکھے۔ شبلی بھی منفرد اسلوب اور انداز تحریر کے مالک ہیں۔ ان کے خطوط میں ایجاز و اختصار ہے۔ انھوں نےتشبیہات و استعارات کے ذریعہ خطوط میں نیا رنگ ڈالا۔ ان کے خطوط میں علمی و ادبی، سیاسی اور مذہبی مسائل نظر آتے ہیں۔ مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی ان کے خطوط کے مجموعے ہیں۔

اس کے بعد محمد حسین آزاداور  نذیر احمد وغیرہ نے بھی مکتوب نگاری میں نئے نئے موضوعات کو شامل کرکے اس روایت کو آگے بڑھایا۔

سرسید تحریک کے بعد خطوط نویسی :

سرسید تحریک کے بعد بھی مکتوب نگاری کی روایت قائم رہی اور بہت سے شاعر و ادیب ہیں جنہوں نے اردو مکتوب نگاری کی روایت میں حصہ لیا اور اس میں نئے رنگ و اسلوب کو اپناکر اسے بلند مقام عطا کیا۔ ان میں داغ، ریاض خیرآبادی، امیر مینائی، مہدی افادی، اکبر الٰہ آبادی، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی اور ابوالکلام آزادؔ وغیرہ اپنے مخصوص اور نئے انداز و اسلوب سے مکتوب نگاری کی روایت کو فروغ بخشا۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن          

Post a Comment

0 Comments