جدید اردو نظم
نظم کی تعریف:
نظم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی 'لڑی یا دھاگے میں موتی پرونا' ہے۔
اصطلاح میں کسی مضمون، خیال یا مافی الضمیر کو تسلسل کے
ساتھ بیان کرنے کو نظم کہا جاتا ہے۔ جامع اللغات میں اس کی تعریف یوں ہے:
"چند اشعار کا
مجموعہ جو ایک ہی مضمون یا خیال کو مکمل کرتے ہیں۔"
نظم کا تصور :
عام طور پر نظم سے مراد غزل کے علاوہ اردو شاعری کے تقریباً تمام شعری
اصناف لیے جاتے ہیں۔ یعنی قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی وغیرہ اس کے دائرے میں آتے
ہیں۔ لیکن ان اصناف کی اپنی الگ پہچچان ہے، ان کی اپنی روایات، اپنے اصول اور اپنی
تاریخ ہے۔ ان میں کچھ اصناف اپنے خاص موضوعات کے لیے مخصوص ہیں اور انہیں اپنے
زمانے میں مخصوص حالات میں مقبولیت ملی۔ اسی طرح ان اصناف کی الگ الگ ہیئت ہوتی ہے
اور ان کے فنی تقاضے ہوتے ہیں جن پر ان اصناف کی بنیاد قائم ہوتی ہے اور ان کے لیے
کوئی ہیئت خاص نہیں ہے نہ ہی اس کے لیے کوئی اصول اور قاعدہ ہے۔ نظم ہمیشہ غزل،
مثنوی، قطعہ، مسدس اور آزاد وغیرہ ہیئتوں میں لکھی جاتی رہی ہے اور لکھی جا سکتی ہے۔ اسی
طرح نظم کے لیے دیگر اصناف کی طرح موضوع کی قید نہیں ۔ نظم زندگی یا کائنات کے
تمام موضوعات کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔
دیکھا جائے تو قدیم شعرا
کے یہاں نظم کا کوئی تصور نہ تھا۔ انہوں نے پورے شعری سرمایے کو ہیئت کے لحاظ سے
غزل، قصیدہ، مثنوی، قطعہ اور رباعی وغیرہ کے نام سے تقسیم کر رکھا تھا۔ قدیم شعرا نے
نظم کی شکل میں بھی اشعار لکھے لیکن اس وقت اس صنف کا نام نظم نہیں پڑا تھا جو ایک
خاص صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت جو نظمیں لکھی گئیں وہ فنی اصولوں پر قائم ہیں
جن سے باہر نکلنا ان کے لیے مشکل تھا۔ لیکن جب زندگی اور زمانے نے کروٹ لی، ملک
میں نئے حالات اور مسائل پیدا ہوئے، سماجی و معاشرتی، تہذیبی، تعلیمی اور سیاسی
میدان میں جب نئی تبدیلیاں آئیں اور اسی طرح سے نئے افکار و خیالات وجود میں آئے
تو اردو نظم کے روایتی اسلوب اور اصولوں میں بدلاؤ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر
اس طرح نظم جدید کا تصور قائم ہوا اور اس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کے بعد جدید نظم کو
کافی فروغ بھی حاصل ہوا۔ دیکھتے دیکھتے غزل کے بعد یہ صنف دوسری سب سے مقبول صنف
بن گئی۔
نظم کا موضوعاتی پہلو :
بہر حال موضوعاتی اعتبار سے دیکھا جائے
تو نظم جدید وہ نظم ہے جس میں جدید دور کی زندگی یا کائنات کے مسائل، جذبات،
احساسات و خیالات کی عکاسی کی گئی ہو۔ فنی اعتبار سے نظم جدید اس نظم کو کہتے ہیں
جس میں شاعر نے شاعری کی قدیم اصناف کے اصولوں یا قاعدوں کی پابندی نہ کی ہو۔ وہ
آزاد ہوکر نئی یا الگ ہیئت میں اپنے خیالات یا تجربات کو ربط کے ساتھ پیش کرے۔
نظم کی خصوصیات :
نظم جدید کی خاصیت ہے کہ
اس میں مضامین کی کوئی قید نہیں۔ اس میں شاعر دنیا کے کسی بھی موضوع یا تاثر کو
تسلسل کے ساتھ بیان کر سکتا ہے۔
نظم جدید کی ایک خصوصیت
یہ ہے کہ اس کے تمام اشعار موضوع اور خیال کے اعتبار سے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔
نظم جدید میں بنیادی موضوع کے تحت کئی موضوعات بھی آسکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ
وہ بنیادی موضوع سے مربوط ہو اور بنیادی موضوع سے ہی اس کا تعلق ہو۔ اور ان سے صرف
ایک تاثر قائم ہو۔
جدیدنظم کا آغاز و ارتقا
انجمن پنجاب :
نظم جدید کا باقاعدہ آغاز "انجمن پنجاب" (لاہور) کے زیر اہتمام
ہونے والے منظموں سے ہوتا ہے اور یہیں سے جدید نظم کا تصور قائم ہوتا ہے۔ در اصل
پنجاب کے ایک انگریز عہدیدار کرنل ہالرائڈ اور محمد حسین آزاد کی کوششوں سے لاہور
میں 1874ء میں انجمن پنجاب قائم ہوئی جس کے تحت مشاعرہ کی جگہ مناظمہ کا آغاز ہوا۔
اس انجمن کے تحت جو جلسے ہوتے تھے اس میں غزل کے بجائے مختلف موضوعات پر نظمیں
پڑھی جاتی تھیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ محمد حسین آزاد کا رہا۔ انہوں نے
اس انجمن کے جلسے میں جو تاریخی لکچر دیا اسے جدید نظم کے ارتقا کا نقطہ آغاز کہا
جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں غزل کے بجائے جدید نظم کی اہمیت کو اجاگر کیا
جس کا اثر اس وقت اور بعد کے شاعروں پر بھی پڑا۔ بہر حال اس طرح جگہ جگہ اس انجمن
کے جلسے ہونے لگے جن میں مختلف موضوعات پر نظمیں پڑھی جانے لگیں اور پھر اخبارات
اور رسائل میں بھی موضوعاتی نظمیں شائع ہونے لگیں۔ اس طرح باقاعدہ جدید اردو نظم
کا آغاز ہوا اور اسی زمانے میں جدید نظم کو فروغ بھی حاصل ہوا۔
اس انجمن کے پہلے جلسے
میں آزادؔ نے جدید نظم کے حق میں ایک لکچر دینے کے بعد اپنی نظم "شب
قدر" بھی پڑھی تھی۔ اسی طرح 1874ء کے جلسوں میں مولانا حالی نے بھی کئی نظمیں
پڑھیں۔ ان میں چار نظمیں برکھارت، نشاط امید، حب وطن اور مناظرہ رحم و انصاف قابل
ذکر ہیں۔ اس طرح آزادؔ اور مولانا حالیؔ نے جدید نظم نگاری کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔
اس زمانے میں محمد حسین آزاد ، حالی اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ نظمیں تو
لکھی گئیں ساتھ ہی آزاد ، اسمٰعیل میرٹھی، نظم طباطبائی اور ضامن کنتوری وغیرہ نے
انگریزی نظموں کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ اور انگریزی نظم کے فنی اسالیب کو اردو
میں جگہ دی جس سے جدید اردو نظم کے لیے مزیر ترقی کا راستہ ہموار ہوا۔
نظم کی بدلتی صورتیں :
دیکھا جائے تو نظم میں جو
تبدیلیاں آئیں وہ اچانک نہیں آئیں بلکہ اس کے لیے آہستہ آہستہ راستہ ہموار ہوا۔
حالیؔ اور آزادؔ نے اردو نظم کے موضوعات کے دائرے کو وسیع کیا۔ جو پرانے مخصوص موضوعات
تھے اس سے نکال کر انہوں نے نظم کو ہر طرح کے خیالات اور تجربات و مشاہدات کے اظہار
کا ذریعہ بنایا اور نظم میں نئے نئے موضوعات شامل ہونے لگے لیکن انہوں نے ہیئت یا
نظم کی ظاہری ساخت میں نئے تجربے نہیں کیے بلکہ قصیدہ، مثنوی، مسدس، قطعہ اور
رباعی وغیرہ کے پرانے سانچوں کو ہی اختیار کیا گیا۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے
آغاز میں عبدالحلیم شرر کے رسالہ "دلگداز" اور سر عبدالقادر کے رسالہ
"مخزن" نے جدید نظم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ ہے
جس میں اردو نظم میں ہیئت کے نئے تجربے بھی کیے گئے۔ انگریزی نظموں کی طرح مصرعوں
کی نئی ترکیب ، بندوں کی نئی تقسیم اور اسی طرح قافیے و ردیف کا بھی نئے طریقے سے
استعمال کیا جانے لگا۔یہی نہیں بلکہ شررؔ نے "دلگداز" میں نظم معرا اور
نظم آزاد کے بھی تجربے کیے۔ اسی طرح "مخزن" میں لکھنے والوں نے بھی نظم
میں نئے نئے تجربات کے ذریعے جدید نظم نگاری کو فروغ عطا کیا۔ مخزن میں لکھنے والے
نظم گو شعرا میں نظم طباطبائی، اقبال، خوشی محمد ناظر، نیرنگ، سرور جہاں آبادی،
ظفر علی خاں اور تلوک چند محروم کے نام اہم ہیں۔ ان شعرا نے موضوع اور فن دونوں
اعتبار سے جدید اردو نظم کو بلندی عطا کی۔ انہوں نے وقت اور حالات کو سامنے رکھتے
ہوئے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں اور فنی اعتبار سے بھی اردو نظم کو نئے نئے
راستے دکھائے۔
ان سے پہلے اکبر الٰہ آبادی، شبلیؔ اور
وحید الدین سلیمؔ نے بھی اردو نظم میں اپنے دور کے مختلف موضوعات کو اختیار کیے۔
خصوصاً اکبر الٰہ آبادی نے وقت اور حالات کے مد نظر نظمیں لکھیں اور اردو نظم نگاری کو نئے موضوعات اور نئے
اسلوب سے مالا مال کیا۔
دیکھا جائے تو اردو نظم میں سب سے
زیادہ تبدیلی جس کی شاعری سے ہوئی وہ علامہ اقبال ہیں۔ انہوں نے اردو نظم کے فروغ
میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ انہوں نے اردو نظم نگاری کو نیا راستہ دکھایا۔
انقلاب روس کے بعد نظم کی صورتیں اور اردو نظم نگار :
1917ء کے انقلاب روس کے بعد جب مزدوروں
کے دور کا آغاز ہوا، ہر طرف بیداری پیدا ہوئی اور جدید تعلیمات سے نوجوان نسل
متاثر ہوئی تو اردو نظم پر بھی اس کا اثر پڑا۔ اس وقت نوجوان نسل نے نظم نگاری میں
اپنا قدم رکھا اور حالات کے مدنظر انہوں نے نظم گوئی کی۔ خصوصاً قومی، سیاسی اور
ساتھ ہی رومانی شاعری کی گئی۔ ان نوجوانوں میں جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی،
حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، روش صدیقی، جمیل مظہری، حامد اللہ افسر اور احسان دانش
وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ انہوں نے موضوعاتی طور پر نظم کے دامن کو وسیع کیا۔ ان کی
نظموں میں مسدس، مثنوی، قصیدہ اور غزل مسلسل وغیرہ کا پرانا فارم اور انداز ملتا ہے۔
لیکن دوسری طرف عبدالرحمن بجنوری، عظمت
اللہ خاں، اختر شیرانی، تصدق حسین خالد اور ڈاکٹر ابن تاثیر وغیرہ مغرب کے اثر سے
اردو نظم میں نئے ہیئتی تجربات کیے اور انہوں نے اردو نظم نگاری کو نیا رنگ و آہنگ
عطا کیا۔
اردو نظم پر ترقی پسند تحریک کے اثرات :
1936ء کی ترقی پسند تحریک سے اردو نظم
نگاری کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک سے منسلک اکثر شعرا نے نظم نگاری کو سب سے
زیادہ پسند کیا۔ ترقی پسند نے اردو نظم کو موضوعاتی اور ہیئتی دونوں اعتبار سے
متاثر کیا اور نظم میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ ترقی پسند کے نظریات بھی اردو نظم کا
حصہ بننے لگے۔ انسان دوستی، انسانی زندگی، ان کے تمام مسائل اور ساتھ ہی ملکی
حالات اور ملکی آزادی وغیرہ کی گونج اردو نظم میں سنائی دینے لگی۔ ترقی پسند نظم
نگاروں میں مجاز، کیفی اعظمی، فیض، جذبی، سردار جعفری، مخدوم محی الدین، جاں نثار
اختر اور ساحر لدھیانوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی سیاسی اور
سماجی حالات وغیرہ کو نظم کا حصہ بنایا۔
اسی عہد سے تعلق رکھنے والے نظم گو
شعرا میں میراجی، ن۔م۔راشد، اخترالایمان اور سلام مچھلی شہری وغیرہ کے نام بھی اہم
ہیں جن کا تعلق اس تحریک سے نہیں تھا۔ انہوں نے بھی مواد، ہیئت اور تکنیک کے
اعتبار سے اردو نظم کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ خاص کر ن۔م۔ راشد اور میراجی نے
آزاد نظم کو پروان چڑھایا۔
آزادی کے بعد اردو نظم :
آزادی اور تقسیم ہند کے بعد دونوں
ملکوں میں اور لوگوں کی زندگیوں میں نئی تبدیلیاں آئیں۔ ساتھ ہی نئے نئے مسائل
گھڑے ہوئے اور نئی ضرورتیں پیش آئیں۔ اس کا اثر دوسرے اصناف کے ساتھ نظم پر بھی
پڑا۔ خصوصاً نوجوان شعرا نے ماضی کی روایات کو چھوڑ کر نظم میں نئے نئے تجربات کیے۔ اور خاص کر پاکستان میں اردو نظم
میں نئے رجحانات کو زیادہ رواج ملا۔ نظم میں نئے تجربات کے ساتھ فکر کی گہرائی بھی
پائی جاتی ہے۔ اس وقت جن نظم نگاروں نے اردو نظم کے سرمائے میں قیمتی اضافہ کیا ان
میں ابن انشا، عبدالعزیز خالد اور مجید امجد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح آزادی کے بعد ہندوستان میں نظم گو شعرا نے جدید نظم کو نیا نیا راستہ دکھایا۔ اس سلسلے میں اختر الایمان، ڈاکٹر منیب الرحمن، وحید اختر، بلراج کومل اور عمیق حنفی کے نام اہم ہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments