رپورتاژ کی تعریف، خصوصیات اور آغاز و ارتقا
رپورتاژ کی تعریف:
رپورتاژ نگاری اردو ادب
کی ایک جدید صنف ہے۔ رپورتاژ کا لفظ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں آیا جس کے معنی
خبر، اطلاع، رپورٹ یا روداد کے ہیں۔رپورتاژ کو
انگریزی میں 'رپورٹ ایچ' (Reportage) کہتے ہیں۔ رپورتاژ اسی لفظ کا فرانسیسی تلفظ ہے۔ جامع فیروز
اللغات میں رپورتاژ کا معنیٰ ہے:
"کسی واقعہ کو دلچسپ اور افسانوی انداز میں
لکھنا۔"
اصطلاح میں کسی
واقعے، پروگرام یا محفل اور کانفرنس وغیرہ کی خبر، رپورٹ یا روداد کو دلچسپ اور
افسانوی انداز میں پیش کرنے کو رپورتاژ کہتے ہیں۔ اس میں آنکھوں دیکھا حال بڑی
سچائی ، صداقت اور ادبیت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور ان حالات یا واقعات کو اس
انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس کی پوری تصویرنظر آنے لگتی ہے۔ اس میں واقعات یا
کانفرنس اور سمینار وغیرہ کی روداد کو صحافتی انداز میں نہیں پیش کیا جاتا ہے کیونکہ
اس سے قاری کو بوریت کا احساس ہوگا۔ اس لیے قلم کار رپورٹ کو دلچسپ بنانے کے لیے
افسانوی انداز اختیار کرتا ہے اور اس میں ادبیت قائم کرتا ہے اور اپنے دلکش اسلوب
کے سہارے ان واقعات یا روداد کو پیش کرتا ہے تاکہ قاری اپنے معاشرے میں ہونے والے
واقعات یا مسائل کا جائزہ نہایت ہی دلچسپی سے لے۔
ناول اور افسانے
میں حقیقی زندگی اور مسائل کو کہانی کا روپ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں قلم کار
کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کے کردار کو تخیل کے ذریعہ پیش کرے لیکن
رپورتاژ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ واقعات یا کردار کو حقیقت کی بنیاد پر پیش کرے
اور اس کا ایک کردار خود رپورتاژ نگار ہوتاہے۔
رپورتاژ کی خصوصیات:
صحافت اور افسانویت کا امتزاج :
رپورتاژ کی سب سے
بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس تحریر میں صحافت اور افسانویت کا امتزاج ہوتاہے۔یہی وجہ ہے
کہ اسے سردار جعفری نے صحافت اور افسانے کی درمیانی کڑی کہا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ
بھی ہے کہ اس میں واقعے، قصے، روداد، ماحول اور کردار وغیرہ سب حقیقی اور سچے ہوتے
ہیں۔ رپورتاژ نگار کسی بھی موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بناسکتاہے۔ لیکن شرط یہ ہے
کہ وہ حقیقت اور سچائی پر مبنی ہو۔ اس کا اندازتحریر دلکش ہو اور اس کی رپورٹ
دلچسپ ہو۔
ادبی، تہذیبی، سماجی اور سیاسی وغیرہ موضوعات :
رپورتاژ نگار
ادبی و تہذیبی جلسے اور کانفرنسوں کے علاوہ فسادات، ہنگامی حالات، حادثات، جنگ
اورقحط غرضیکہ روزمرہ کے تمام حقیقی واقعات کو افسانوی اور دلچسپ انداز میں پیش
کرتا ہے جس سے حقیقی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح اس میں جو کردار ہوتے ہیں وہ
بھی حقیقی ہوتے ہیں اور ہمارے سماج کے ہی فرد ہوتے ہیں اور وہ خود بھی ایک کردار
کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں نہ صرف چلتا پھرتا اور بولتا نظر آتا ہے
بلکہ قاری کو بھی اپنے ساتھ کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری مصنف یا رپورتاژ نگار
کی شخصیت سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔
منظر نگاری :
رپورتاژ میں منظر
نگاری کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ رپورتاژ اس میں واقعات یا روداد کو بیان کرنے
کے ساتھ دلکش منظر کو پیش کرتا ہے جس سے وہاں کا پورا منظر ہمارے سامنے نظر آنے
لگتا ہے۔
غیر جانبداری :
رپورتاژ کی ایک
خصوصیت یہ ہے کہ اس میں غیر جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ یعنی وہ جس واقعے کو پیش
کرتا ہے اسے ویسے ہی بیان کردیتا ہے تاکہ قاری حقیقت سے آگاہ ہوسکے۔
اختصار یا طوالت :
اختصار اور طوالت
پر بات کی جاتے تو پتہ چلتا ہے کہ رپورتاژ مختصر بھی ہوسکتا ہے اور طویل بھی۔ یہ
حالات اور واقعات طے کرتے ہیں۔ یعنی واقعہ چھوٹا ہے تو رپورتاژ چھوٹا ہوسکتا ہے
اور اگر واقعہ بڑا ہے تو رپورتاژطویل بھی ہوسکتا ہے۔
زبان و بیان :
رپورتاژ میں زبان و بیان کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے رپورتاژ نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زبان پر قدرت رکھتا ہو۔ چونکہ رپورتاژ نگار اپنے اسلوب کے ذریعہ ان واقعات کو دلکش اور دلچسپ بنا کر پیش کرتا ہے اس لیے اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زبان پر مہارت رکھتا ہو۔
رپورتاژ نگاری کا آغاز و ارتقا
اردو میں
رپورتاژنگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی سے ہوا۔ یہ صنف انگریزی ادب کے زیر اثر
اردو میں منتقل ہوئی اور ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی ماحول نے اسے جنم
دیا۔ اس کے ابتدائی نقوش انیسویں صدی کے آخر ہی میں دکھائی دینے لگتے ہیں جب جگہ
جگہ مختلف تحریکات وجود میں آئیں۔ اس طرح ادیبوں کے خاکوں اور دیگر تحریروں میں
بھی رپورتاژ کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مرزا فرحت اللہ بیگ نے "دہلی
کاایک یادگار مشاعرہ" لکھا جس میں رپورتاژنگار کی تصویر نظر آتی ہے لیکن
انہوں نے اس میں فرضی یا خیالی مشاعرے کی تصویر پیش کی ہے۔ اس لیے اسے رپورتاژ
نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ان کے مولوی نذیر اور مولوی وحید الدین سلیم پر لکھے
گئے خاکوں میں بھی اس کے نقوش نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ابوالکلام آزاد کے روداد
"الپنچ" میں بھی رپورتاژ کے کچھ عناصر موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مولوی
عبدالحق، رشید احمد صدیقی اور منٹو وغیرہ کے خاکوں میں بھی رپورتاژ کی کچھ خصوصیات
موجود ہیں۔ لیکن انہیں مکمل رپورتاژ نہیں کہا جاسکتا۔
رپورتاژ اور ترقی پسند تحریک :
رپورتاژ کا
باقاعدہ آغاز ترقی پسند تحریک کے جلسوں سے ہوا۔ جب ترقی پسند تحریک کے جلسے منعقد
ہونے لگے تو اس میں رپورٹنگ کا سلسلہ بھی قائم ہوا۔ اس رپورٹ کو تیار کرنےمیں
دلچسپ اور افسانوی انداز اختیار کیا گیا۔ پھر اس طرح رپورتاژ کا آغاز ہوا۔اس سلسلے
میں حمید اختر نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نئی صنف کے
موجد وہی ہیں۔ حمید اختر ترقی پسند کے جلسوں کی روداد اخبار "نظام" میں
کرتے تھے جس میں انہوں نے ادبی زبان اور
دلکش و خوبصورت انداز اپنایا ہے تاکہ لوگ دلچسپی سے پڑھیں۔ سجاد ظہیر ان کے متعلق
لکھتے ہیں:
"رپورتاژ
ایک خشک اور رسمی سی چیز ہوتی ہے لیکن حمید اختر نے ان رپورٹوں میں بھی ادبی رنگ
پیدا کردیا اور اس طرح وہ غالباً ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان
کی یہ ہفتہ وار سرگزشت دراصل ایک دلچسپ رپورتاژ ہوتی تھی۔"
رپور تاژ اور سجاد ظہیر :
اردو ادب
میں جسے پہلا باقاعدہ رپورتاژ مانا گیا ہے وہ سجاد ظہیر کی "یادیں1940"
ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے کے واقعات اور یادوں کو سچائی کے
ساتھ دلکشی اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ لیکن
انہوں نے طالب علمی کے کافی عرصے بعد اسے لکھا۔
کرشن چندر اور رپورتاژ :
کرشن
چندر نے "پودے" کے نام سے ایک رپورتاژ لکھا جسے بہت مقبولیت ملی۔ اس میں
حیدرآباد اردو کانفرنس کے سفر کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کرشن چندر کا
دوسرا رپورتاژ "صبح ہوتی ہے" ہے یہ دکن کے سفر کی روداد ہے۔
آزادی کے بعد رپورتاژ نگاری :
یہ تقسیم ہند سے
پہلے کے رپورتاژ ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اس کی روایت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔خاص
طور سے ہجرت کی پریشانیوں اور فسادات کے واقعات کو رپورتاژ کا موضوع بنایا گیا۔
قرۃ العین حیدر :
اس روایت میں
مشہور ناول نگار قرۃ العین حیدر نے بھی حصہ لیا اور بہت سے دلچسپ رپورتاژ لکھے۔ ستمبر کا چاند، گلکشت اور لندن لٹیر وغیرہ ان
مشہور رپورتاژ ہیں۔
عصمت :
عصمت چغتائی ایک
افسانہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں بھی رپورتاژ کے عناصر
موجود ہیں۔ اسی طرح ان کے خاکے "دوزخی" میں بھی اس کے نمونے موجود ہیں۔
انہوں نے باقاعدہ رپورتاژ بھی لکھا۔ اس سلسلے میں "بمبئی سے بھوپال تک"
ان کا معروف رپورتاژ ہے۔
ممتاز مفتی :
ممتاز مفتی نے
بھی اس روایت میں اضافہ کیا۔ ان کے رپورتاژ "لبیک" اور "ہند
یاترا" قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح فکر تونسوی نے "چھٹا دریا" کے نام سے
رپورتاژ لکھا جو تقسیم ہند کے موضوع پر ہے۔ ابراہیم جلیس اردو کے ایک مشہور افسانہ
نگار ہیں انہوں نے بھی رپورتاژ لکھ کر اس روایت کو فروغ بخشا۔ "شہر"
دوملک ایک کہانی، جیل کے دن جیل کی راتیں،اور سپید اور سرخ ستارے کے درمیان ان کے
مقبول رپورتاژ ہیں۔
دیگر رپورتاژ نگار :
ان کے علاوہ بھی بہت سے قلم کار ہیں جنہوں نے رپورتاژ لکھے۔ ان میں خدیجہ مستور کا پوپھٹے،تاجور سامری کا جب بندھن ٹوٹے" صفیہ اختر کا "ایک ہنگامہ"، رضیہ سجاد ظہیر کا "امن کا کارواں"قدرت اللہ شہاب کا "اے بنی اسرائیل" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے ادیبوں نے اس روایت میں حصہ لے کر قیمتی اضافہ کیا اور آج بھی اس کی ترقی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے.
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments