سوانح نگاری کی تعریف، خصوصیات اور تاریخی ارتقا
سوانح
نگاری اردو میں ایک الگ صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی معروف و مشہور شخصیت کی
پیدائش، خاندان، تعلیم، مشاغل، زندگی اور وفات کے بیان کے ساتھ اس کے ظاہر و باطن
عادات و اطوار، اخلاق اور اس کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات و واقعات شروع
سے آخر تک ترتیب کے ساتھ لکھنے کا نام سوانح نگاری ہے۔
سوانح
لفظ سانحہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بہت سی پیش آنے والی چیزیں، واقعات یا حادثات
وغیرہ۔ یعنی سوانح میں کسی بڑی شخصیت کے تمام حالات زندگی، واقعات اور ان کے
کارناموں وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے۔ اور اپنی خصوصیات کی وجہ سے سوانح نگاری کو
ادب میں شمار کیاجاتا ہے۔
سوانح نگاری کی خصوصیات و لوازمات:
سوانح نگاری کی فنی
خصوصیات میں جو چیزیں شامل ہیں وہ اس طرح ہیں: شخصیت کا انتخاب، شخصیت کا ارتقا،
واقعات کا انتخاب، ترتیب، نتائج اور اسلوب۔ یعنی سوانح نگار کو ان باتوں کا دھیان
رکھنا پڑتا ہے۔
سوانح نگاری میں
ہیرو کا انتخاب کرنا اہم ہوتا ہے۔ عام طور پر سوانح میں کسی خاص شعبے سے تعلق
رکھنے والے کسی معروف و مشہور شخص کی زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اس کے
لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جس کی سوانح لکھنے کا ارادہ ہے اس کی زندگی میں
کس قدر مواد موجود ہیں۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ مواد حاصل ہونے پر ہی اچھی سوانح
تحریر کی جاسکتی ہے۔ یہ سوانح نگار کے لیے آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ اس میں کافی
جستجو اور چھان بین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے لیے خطوط ، ڈائری، یاد داشتیں اور ذاتی
واقفیت وغیرہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ ان کے ذریعہ یا دوسرے ذرائع سے اس شخص سے
متعلق تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد اچھی سوانح لکھنے پر کامیاب ہوپاتا ہے۔
سوانح نگار جس کی
سوانح لکھ رہا ہے اس کی زندگی کے تمام پہلویعنی پیدائش سے لے کر وفات تک کے تمام
حالات کو مختلف حصوں میں بانٹ کر لکھتا ہے۔ وہ اس کی شخصیت
کے ارتقائی پہلو کو بھی نظر میں رکھتا ہے۔ یعنی بچپن، جوانی اور بزرگی وغیرہ کے اس
سے ذاتی اعمال و افعال، اس کے عادات و اطوار، اس کی ذہنیت، صلاحیت، اس کے افکار و
خیالات، اس کی آرزوئیں وخواہشیں اور اس کی پسند و ناپسند غرضیکہ اس کی شخصیت سے
جڑی تمام باتوں کو ایک کے بعد لکھتا جاتا ہے۔
سوانح نگاری میں واقعات کے انتخاب کا مرحلہ بھی کافی اہم ہوتا ہے۔ انسان کی
زندگی واقعات اور مسائل سے بھری ہوتی ہے اور ہر واقعہ اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے۔
لیکن سوانح نگار کے لیے ہر واقعہ اہم نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے سوانح نگار کےلیے ضروری
ہوتا ہے کہ ان واقعات کا انتخاب کرے جو ا س شخص کی ذات پر روشنی ڈال سکے۔ اور یہ
بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان واقعات سے اس شخص کی زندگی میں کتنا انقلاب آیا۔ ایسے ہی واقعات کا انتخاب
کیا جاتا ہے اور غیر اہم واقعات کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پھر سوانح نگاری کے لیے ایک اہم مرحلہ آتا ہے۔ وہ ہے ترتیب کا مرحلہ۔ یعنی
سوانح نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کے تمام حالات کو شروع سے آخر تک
اور تمام واقعات کو ترتیب کے ساتھ لکھے۔ یعنی پیدائش سے وفات تک کی اس کی زندگی
اور اس کی شخصیت کے اتار چڑھاؤ ، اس کی زندگی میں پیش آنے والے اہم واقعات و مسائل
اور اس کی وفات تک کے تمام حالات کو ترتیب کے ساتھ پیش کرے۔ کیونکہ ترتیب سے ہی
سوانح کا معیار قائم ہوتا ہے۔ گویا سوانح نگاری میں ترتیب کا خیال رکھنا ضروری
ہوتا ہے۔
سوانح نگاری کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ سچائی اور حقیقت نگاری سے کام
لے۔ اس میں ذاتی دوستی، محبت اور احترام وغیرہ کا خیال نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ
اس سے سوانح نگاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے سوانح نگار کے لیے ضروری ہوتا
ہے کہ وہ دوستی کو بھلا کر ایمانداری کے ساتھ اس کی سچائیوں کو بیان کرے تاکہ اس
شخص سے متعلق سچی باتیں منظر عام پر آسکیں۔ دوستی کی خاطر نہ ہی سے بڑھا چڑھا کر
دکھایا جائے اور نہ ہی دشمنی نکالنے کے لیے اس کی برائیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا
جائے۔بلکہ جو جیساہے اس کی سچی تصویر سامنے لائی جائے۔
سوانح نگار کے لیے اسلوب بھی کافی اہم ہوتا ہے۔ سوانح نگاری کا موضوع روکھا
سوکھا ہوتا ہے اس لیے سوانح نگار کو ایسا انداز و اسلوب اپنانا چاہیے جس سے قاری
کے اندر پڑھنے کی دلچسپی پیدا ہو اور اسے مزہ آئے۔ اسی طرح سوانح نگاری کے لیے
ضروری ہوتا ہے کہ وہ زبان اور الفاظ پر مہارت رکھتا ہو تاکہ مناسب الفاظ و زبان کا
استعمال کرکے وہ سوانح لکھ سکے اور اسے دلچسپ بنا سکے۔
سوانح نگاری کا تاریخی ارتقا:
اردو میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے آخر میں حالیؔ نے
کیا۔ حالیؔ اردو ادب میں کئی حیثیتوں سے
جانے جاتے ہیں۔ وہ شاعر، مقالہ نگار، نقاد کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوانح نگار بھی
تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے 1886ء میں سعدیؔ کی سوانح "حیات سعدی" لکھ کر
اردو سوانح نگاری کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے استاد غالبؔ کی حیات پر
قلم اٹھایا اور 97-1896 میں "یادگار
غالب" کے نام سے سوانح لکھی۔ یہ حالیؔ کی سب سے اہم اور دلچسپ تصنیف ہے۔
چونکہ حالیؔ غالبؔ کے شاگرد تھے۔ اس لیے وہ غالبؔ کی شخصیت سے اچھی طرح واقف تھے۔
انہوں نے غالبؔ کے بارے میں ذاتی معلومات کے علاوہ غالبؔ کے قریبی لوگوں سے بھی
رابطہ کرکے معلومات حاصل کیں۔ اور پھر انہوں نے یہ کامیاب سوانحی کتاب لکھی۔حالیؔ
کی آخری سوانحی کتاب "حیات جاوید" ہے۔ اسے انہوں نے 1901ء میں مکمل کیا۔
یہ سرسید احمد خان کی حیات پر لکھی گئی سوانح ہے۔
حالیؔ کے بعد علامہ شبلی نعمانی نے سوانح نگاری کی روایت میں حصہ لیا اور کئی
سوانح عمریاں لکھ کر انہوں نے سوانح نگاری کی روایت میں قیمتی اضافہ کیا۔ ان کی
پہلی سوانحی کتاب المامون ہےجو مامون
الرشید کی حیات پر مبنی ہے۔ دوسری کتاب "سیرۃ
النعمان" ہے جو امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات ہے۔ تیسری کتاب الفاروق ہے جو
حضرت عمر فاروق کی حیات اور کارناموں پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح الغزالی ، سوانح مولانا
روم اور سیرۃ النبی ان کی اہم سوانحی تصانیف ہیں۔
اسی طرح ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے اس روایت میں حصہ لیا اور اسے عروج
تک پہنچایا۔ اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی کا نام بھی اہم ہے۔ انہوں نے رحمت عام،
حیات امام مالک، سیرت عائشہ اور حیات شبلی وغیرہ سوانحی کتابیں لکھیں۔ اسی طرح
عبدالسلام ندوی کی سوانحی کتاب "اقبال کامل" بھی قابل ذکر ہے۔قاضی
عبدالستار نے بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی حیات پر "آثار ابوالکلام آزاد"
کے نام سے سوانح حیات لکھی۔ غلام رسول مہر نے بھی اس روایت میں حصہ لیا اور انہوں
نے غالبؔ کی سوانح حیات "غالب" کے نام سے لکھی۔ اسی طرح شیخ محمد اکرام نے
بھی ایک عمدہ سوانح "غالب نامہ" لکھ کر اس روایت میں اضافہ کی۔ اس سلسلے
میں صالحہ عابد حسین کا نام بھی اہم ہے۔انہوں نے حالیؔ کی سوانح حیات "یادگار
حالی" لکھی۔ ان کے علاوہ بہت سے ادیبوں نے بھی مختلف سوانح عمریاں لکھیں جو
اس روایت میں اضافے میں حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح آج بھی اس کی روایت قائم ہے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments