ترقی پسند تحریک اور اردو ادب
ترقی پسند تحریک کا تعارف :
اردو ادب کی تحریکوں میں ترقی پسند تحریک سب سے اہم اور طاقتور تحریک حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا اثر بھی اردو زبان و ادب پر تادیر رہا۔ اس تحریک کی ایک بڑی خصوصیت یہ کہ ہے اس نے اردو ادب کو زندگی کے قریب لایا۔ ساتھ ہی مقصدیت اور سماجی حقیقت نگاری پر بھی زور دیا۔ چونکہ مقصدیت اور حقیقت نگاری علی گڑھ تحریک کےاہم پہلو ہیں اس لیے نقادوں نے ترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع مانا ہے۔
ترقی پسند تحریک کا آغاز و ارتقا :
ترقی پسند تحریک
کا باقاعدہ آغاز 1935ء میں ہوا۔ لیکن دیکھا جائے تو اس کے اثرات اس سے پہلے ہی
دکھائی دینے لگے تھے۔ 1917ء کے انقلاب روس کے بعد ہی اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے
تھے۔ اسی وقت سے انسانی فکر میں تغیرات کاسلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس انقلاب نے پوری
دنیا کو متاثر کیا۔ اس کا اثر ادب پر بھی رہا۔ تمام زبان کے ادیب و شاعر لینن اور کارل مارکس کے اثرات
قبول کرنے لگے۔
اس طرح جب جرمنی
میں ہٹلر کا ظلم و ستم عام ہوا تو ہٹلر کے اس فاشزم کے خلاف آواز بلندہونے لگا۔ اس
سلسلے میں اس دور کے ادیبوں اور فنکاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کے لیے
جولائی 1935ء میں پیرس میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس وقت کی بڑی بڑی شخصیتوں
نے اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ادیبوں کو بلایا۔ ہندوستان کی طرف سے سجاد ظہیر اور
ملک راج آنند نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ لوگ اس وقت لندن میں تعلیم حاصل کرر ہے
تھے۔ اس کانفرنس سے متاثر ہوکر سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے لندن کے دوسرے
ہندوستانی طلبا کے ساتھ مل کر ایک انجمن کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا نام "
انجمن ترقی پسند مصنفین" رکھا گیا۔ اس کے بعد اس انجمن کا ایک جلسہ بھی لندن
کے ایک ریستوران میں ہوا۔ اس جلسے میں
سجاد ظہیر، ملک راج آنند، ڈاکٹر جیوتی گھوش، پرمود سین گپتا اور محمد دین تاثیر
وغیرہ موجود تھے۔ پھر ان لوگوں نے مل کر ترقی پسند تحریک کا ایک خاکہ تیار کیا۔ اس
طرح لندن میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی۔
ہندوستان میں ترقی پسند تحریک :
اس کے بعد سجاد
ظہیر ہندوستان آئے اور ادیبوں کو جمع کرنا شروع کیا اور لوگوں کو اس تحریک کے بارے
میں بتایا۔ اس کے بعد 1936ء میں لکھنئو میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس ہوئی۔
اس کانفرنس میں بڑے بڑے ادیب اور شاعروں
نےحصہ لیا۔ اس کی صدارت پریم چند نے کی۔ انھوں نے صدارتی خطبہ بھی پیش کیا جسے
تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔ اس خطبے کا ایک جملہ "ہمیں حسن کا معیار تبدیل
کرنا ہوگا" ترقی پسند کے نظریے اور اس کے مقصدکو واضح کردیتا ہے۔ ان کے
پورے خطبے سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اصل ادب وہی ہے جو زندگی کے مسائل کی عکاسی کرے۔
اس جلسے میں حسرت موہانی، فراق گورکھپوری اور احمد علی جوہر وغیرہ بھی تھے جنھوں
نے اپنے مقالوں کے ذریعہ ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو واضح کیا۔ بہر حال اس طرح
ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کے بعد ترقی پسند
ادیبوں کی کانفرنس بھی ہوتی رہی۔ ترقی
پسند ادیبوں کی کانفرنس کی کل تعداد آٹھ ہے جوکہ الگ الگ مقام پر منعقد ہوئی تھیں۔
اس طرح لکھنئو، کلکتہ، الٰہ آباد، دہلی، لاہور،بمبئی، حیدرآباد اور ملک کے ان
شہروں تک اس کا اثر پہنچ گیا جہاں لوگوں کو ادب سے لگاؤ تھا۔ اور اس وقت کے
تقریباً سبھی ادیبوں نے اس تحریک کی تعریف کی اور دھیرے دھیرے لوگ اس سے جڑتے گئے
اور انھوں نے اپنی نظم و نثر میں ترقی پسندی کے نظریات کو شامل کرکے اسے فروغ بھی
بخشا۔
ترقی پسند تحریک کے مقاصد :
ترقی پسند تحریک
کا اصل مقصد تھا ادب کو عوام سے قریب لانا۔ یعنی ادب میں عام انسان اور اس کی
زندگی سے جڑے مسائل کو پیش کیا جائے۔ بھوک، افلاس، غربت، سماجی ناہمواری یا
نابرابری اور غلامی وغیرہ کو ادب میں جگہ
دی جائے۔ صرف مقصدیت، واقعیت اور حقیقیت نگاری پر زور دیا جائے۔ بے مقصد کی باتوں
سے پرہیز کیا جائے۔ ان قدیم روایات کو زندہ کرنا جو عام انسانی زندگی کے لیے مفید
ہوں۔ اسی طرح برے رسم و رواج اور روایات جو سماج کے لیے نقصان دہ ہوں اسے ترک
کردینا وغیرہ۔
اس تحریک کا مقصد
تھا کہ ادب کے ذریعہ ایک اچھے سماج کی بنیاد رکھی جائے۔ ہمارے سماج میں خاندان،
نسل، رنگ،جنس، زبان، مذہب اور ذات پات کے جھگڑے ہیں اور برے نظام ہیں ان کو دور
کرکے مساوات اور برابری کا پیغام عام کیا جائے۔آپسی نفرت کو دور کرکے بھائی چارگی
اور محبت کا درس دیا جائے۔ ذات پات کا فرق مٹایا جائے، مذہبی جھگڑے کو دور کیا جائے۔فتنہ
و فساد کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ ظلم کے خلاف نعرہ بلند کیا جائے۔ خاص
کرکسانوں اور مزدوروں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ان پر ہونے والے مظالم کو
دکھایا جائے اور ان کا حق دلایا جائے۔ مالک اور مزدور کے درمیان جو فرق اور دوری
ہے اسے ختم کرکے برابری پیدا کی جائے تاکہ ہمارے سماج کے ہر طبقے کے لوگ خوشی خوشی
زندگی گزار سکیں۔
دیکھا جائے تو
ترقی پسند تحریک سے جڑے لوگوں نے سماج میں معاشی نابرابری کو نشانہ بنایا ہے۔ اس
تحریک سے جڑے لوگ معاشی مساوات کے قائل تھے۔ یعنی معاشی اعتبار سے سماج کے ہر طبقے
کو برابر ہونا چاہیے۔
اسی طرح سماجی
زندگی کے تمام مسائل کو بیان کرنا اس تحریک کا ایک مقصد ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے
عوامی زندگی کے ہر مسائل کو ابھارنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ان ادیبوں نے اس کا حل
بھی تلاش کیا تاکہ سماج میں بہتری لائی جا سکے اور ایک اچھے سماج کی تشکیل ہوسکے۔
بہرحال اس طرح اس
تحریک نے سماجی مسئلے کو ابھارا اور سماجی و معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو
نشانہ بنایا۔ انھوں نے ظلم و ستم، تشدد اور نفرت کے خلاف آواز اٹھائی اور سچائی ، انصاف،
امن، محبت اور برابری کا پیغام عام کیا۔
اس تحریک نے جہاں
سماجی خدمت کی وہیں اس کے ذریعہ اردو ادب کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک کے ذریعہ
اردو ادب کو نئے نئے موضوعات ملے۔ دیکھا
جائے تو اس تحریک نے اردو نثر و نظم دونوں کو متاثر کیا۔ شاعری کے حوالے سے بات کی
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے پہلے ہی اس رجحان کی بنیاد پڑ گئی تھی۔
آزاد، حالی، اقبال اور چکبست وغیرہ کی شاعری میں انسانی زندگی اور زندگی کے مختلف
مسائل نظر آتےہیں۔ ترقی پسند تحریک کا جب آغاز ہوا تو ان شعرا کے خیالات کو مزید
وسعت ملی۔ پھر ترقی پسند شعرا نے غزل اور نظم دونوں میں انسانی زندگی کے مسائل کی
ترجمانی کی۔ زندگی کے دکھ درد، معاشی و سیاسی مسائل، سماجی ناہمواری، ناانصافی،
نابرابری، ظلم و ستم، مظلوم طبقے کی عکاسی، غرضیکہ انسانی اور سماجی زندگی سے جڑے
تمام مسائل کو ابھارا۔ ترقی پسند شعرا میں جذبیؔ، مجروحؔ، فراقؔ، جوشؔ، مجازؔ،
مخدومؔ، فیضؔ، تاباںؔ، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری اور خلیل الرحمن اعظمی
وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی حقیقتوں کی عکاسی کی۔
اردو نثر پر ترقی پسند تحریک کے اثرات :
افسانے پر ترقی پسندی کے اثرات :
نثر کے حوالے سے
بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس تحریک کا اثر سب سے زیادہ افسانہ اور پھر ناول
پر رہا۔ ترقی پسند افسانے کی روایت پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی روایت
پریم چند کی حقیقت نگاری پر قائم ہوئی ہے۔ انھوں
نے سب سے پہلے اردو افسانے کو زندگی کے قریب لایا اور زندگی کی حقیقتوں کو
بیان کیا اور سماج کی عکاسی کی۔
ترقی پسند تحریک اور کرشن چندر :
ترقی پسند افسانہ
نگاروں میں سب سے اہم نام کرشن چندر کا ہے۔ انھوں نے سماج کے ستائے ہوئے لوگوں کے
مسائل کو اپنے افسانے کا حصہ بنایا۔ان کے یہاں طنز کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔ نظارے،
زندگی کے موڑ پر، ان داتا، تین غنڈے اور اجنتا سے آگے وغیرہ ان کے بہترین افسانے
ہیں۔
ترقی پسند تحریک اور راجندر سنگھ بیدی :
راجندر سنگھ بیدی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے انسانی دکھ ، پریشانیوں اور محرومیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں ترقی پسندی کے اثرات :
اسی طرح حیات اللہ انصاری ، سہیل عظیم آبادی،
احمد ندیم قاسمی اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے ہندوستان کے عام لوگوں کی زندگی کو
اپنا موضوع بنایا ہے۔ سعادت حسن منٹو کا بھی تعلق اس تحریک سے ہے۔ ان کے یہاں بھی
حقیقت نگاری صاف نظر آتی ہے۔ انہوں نے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں، طوائفوں اور سماج کے
گرے پڑے لوگوں کی زندگیوں اور تقسیم ہند کے واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے علاوہ
عصمت چغتائی، عابد سہیل، ہاجرہ مسرور، ممتاز مفتی، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر
اور انتظار حسین وغیرہ قابل ذکر ترقی پسند افسانہ نگارہیں۔
ترقی پسند افسانہ
نگاروں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے مختلف حقیقتوں کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے مختلف
سماجی مسائل کو عیاں کیا ہے۔ اسی طرح اپنے
زمانے کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ خاص کر ترقی پسند افسانہ نگاروں نے تقسیم ہند اور
ہجرت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کی وجہ سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات، لوٹ مار، قتل
و غارت گری وغیرہ کے واقعات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔
ناول پر ترقی پسندی کے اثرات :
اسی طرح ناول پر
بھی اس تحریک کا اثر رہا۔ اس تحریک کے زیر اثر بہت سے ناول لکھے گئے جس سے اردو
ناول نگاری میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں پریم چند، علی عباس حسینی، سجاد
ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے نام
قابل ذکر ہیں جنھوں نے بہترین ناول لکھے۔ ان کے یہاں سماجی اور سیاسی پہلو واضح
طور پر نظر آتے ہیں۔
تنقید پر ترقی پسندی کے اثرات :
ترقی پسند تحریک
نے اردو تنقید نگاری کو بھی متاثر کیا۔ اس سلسلے میں مجنوں گورکھپوری، آل احمد
سرور، سید احتشام حسین، عزیز احمد، ممتاز حسین، وقار عظیم، اختر اورینوی اور خلیل
الرحمن اعظمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں
جنھوں نے اس تحریک کے اثرات کو قبول کر کے تنقید میں اپنے نظریات کو پیش کرکے اہم
اضافہ کیا۔
اس طرح اس تحریک نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔ اس نے اردو ادب کو نیا راستہ دکھایا اور نئے نئے موضوعات سے مالا مال کیا۔ یہ وہ تحریک ہے جس نے محنت کش مزدور اور کسان کو ادب کا ہیرو بناکر پیش کیا۔ اسی تحریک کی بدولت اردو ادب میں کھیتوں اور کھلیانوں کی خوشبو آنے لگی۔ اسی طرح سماج کے مختلف مسائل کو ابھارکر اس کا حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ سماج میں بہتری آسکے اور سماج کا ہر طبقہ خوشحال ہو اور ترقی کرسکے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments