انشائیہ نگاری : تعریف، خصوصیات اور تاریخ | Inshaiya Nigari

انشائیہ نگاری : تعریف، خصوصیات اور تاریخ

انشائیہ کی تعریف :

انشائیہ کالفظ "انشا" سے بنا ہے۔ انگریزی میں اسے Essay کہتے ہیں جس کے معنی تولنے، جانچنے یا کوشش کرنے کے ہیں۔ ادب میں انشائیہ کا معنی ہے بات سے بات پیدا کرنا، عبارت کو سجانا اور آراستہ کرنا۔

اصطلاح میں انشائیہ اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں کسی اہم یا غیر اہم واقعے ، کسی خیال یا کسی جذبے یا کسی لمحاتی کیفیت کو پر لطف انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ یا انشائیہ اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں قلم کار اپنے ذاتی تجربات یا تاثرات کو دلچسپ، شگفتہ اور منفرد انداز میں پیش کرے اور دل کی باتیں مزے لے لے کر بیان کرے ۔

دوسرے لفظوں میں اس کی تعریف یہ ہے کہ انشائیہ وہ صنف ہے جس میں کوئی بات اس طرح کہی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کا جی خوش ہوجاتا ہے۔ اسے پڑھ کر اس کا دماغ سوچنے پر بھی مجبور ہوتا ہےاور اسی طرح اس کے ذہن میں گدگدی بھی ہونے لگتی ہے۔

انشائیہ کی خصوصیات :

انشائیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف یا انشائیہ نگار کی شخصیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔ چونکہ انشائیہ نگار واقعات سے زیادہ تاثرات کو اہمیت دیتا ہے اور اپنے تاثرات کو ہی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس شخصیت کی جھلک اس میں دکھائی دینے لگتی ہے۔

انشائیہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اصول اور شرائط سے پاک ہے۔ انشائیہ نگار جس طرح چاہے اپنے خیالات اور تاثرات کو پیش کرسکتا ہے جس  سےقاری کو لطف آئے۔ اسی طرح اس میں موضوع کی بھی کوئی قید نہیں۔ وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر لکھ کر اپنے تاثرات کو پیش کرسکتا ہے۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ ان باتوں میں تازگی اور شگفتگی ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ انشائیہ نگار اخلاقی حدود میں رہے۔ یعنی وہ لطف و لذت پیدا کرنے کے لیے اخلاقی حدود کو پار نہ کرے۔ ورنہ اس کا انشائیہ ادب کے دائرے سے نکل جائے گا۔اسی طرح انشائیہ نگار اپنے انشائیے کے ذریعہ کوئی پیغام نہیں دیتا یا تلقین نہیں کرتاہے۔ یعنی انشائیہ نگار پڑھنے والے کو کوئی پیغام نہیں دینا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ بس اس کا کام ہوتا ہے کہ اپنی بات یا تاثرات کو مزے لے لے کر بیان کرے۔ لیکن غیر شعوری طور پر اگر کوئی مقصد ظاہر بھی جاتا ہے تو اس سے انشائیہ نگاری پر کوئی فرق نہیں آتا ہے۔

انشائیہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے اس میں طنز و مزاح کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس کا لازمی جزو نہیں ہے بلکہ وہ انشائیہ نگار اگر چاہے تو طنز و مزاح کا استعمال کر سکتا ہے جس سے انشائیہ کی خوبصورتی اور بڑ ھ جاتی ہے۔ اسی طرح اس میں دلچسپ واقعے یا لطیفوں کو بھی لکھ سکتا ہے جس سے انشائیہ اور دلکش بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھے یا جس تاثر کو پیش کرے اسے دلچسپ بناکر پیش کرے جس سے قاری کو پڑھ کر لطف اور مزہ آئے۔ یہی انشائیہ کی سب سے بڑی خصوصیت ہے اور اس سے انشائیہ کی پہچان بھی ہوتی ہے۔

انشائیہ نگاری اور مضمون نگاری میں فرق :

دیکھا جائے تو انشائیہ  اور مضمون میں سب سے واضح فرق اسی کا ہے۔ یعنی مضمون خشک ہوتا ہے۔ اس میں عالمانہ اور محققانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا ہے۔ اسے وہی پڑھتا ہے جسے اس سے دلچسپی ہو۔ لیکن انشائیہ میں علمی گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار کسی بھی موضوع کو اختیار کر سکتا ہے لیکن وہ بس اپنے تاثرات کو دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے اور اسی دلچسپ انداز کی وجہ سے قاری کے اندر پڑھنے کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔

انشائیہ اور مضمون کا سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ مضمون میں معلومات ہوتے ہیں اور انشائیہ میں معلومات کی فراہمی مقصد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں تاثرات کو دلچسپ انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے۔

اسی طرح مضمون میں ہیئت مخصوص ہے۔ یعنی مضمون میں پہلے تعارفی بات ہوتی ہے پھر مضمون کے تحت بات ہوتی ہے اور آخر میں اختتامیہ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب کہ انشائیہ میں اس کی کوئی شرط نہیں ہے۔ مضمون خشک ہوتا ہے جب کہ انشائیہ کے اندر دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ مضمون میں طنز و مزاح کا بھر پور استعمال کیا جاسکتا ہے جب کہ انشائیہ میں طنز و مزاح کا عنصر کم ہوتا ہے۔ مضمون لکھنے کے لیے معلومات اکٹھا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ انشائیہ میں معلومات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس میں بس اس کے متعلق اس کے تاثرات ہوتے ہیں۔

انشائیہ نگاری کا آغاز و ارتقا:

اردو میں انشائیہ نگاری کے آغاز کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ یعنی انشائیہ کا آغاز کب ہوا ، کہاں سے آیا اور پہلا انشائیہ نگار کون ہے؟ ان سب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اردو میں پہلے انشائیہ نگاری کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے ملا وجہی کو پہلو انشائیہ نگار مانا ہے، کسی نے سرسید کو، کسی نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا انشائیہ نگار مانا ہے۔ ملا وجہی کی کتاب "سب رس" میں بعض مقامات پر ایسی تحریریں ہیں جن میں انشائیے کی خصوصیات موجود ہیں۔ ان خصوصیات کو دیکھ کر بعض لوگوں نے انہیں پہلا انشائیہ نگار مانا ہے لیکن ان کے کچھ نمونوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے انشائیہ نگار ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کتاب "سب رس" میں انشائیے کے سب سے پہلے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جسے انہوں نے غیر شعوری طور پر اپنایا ہے۔ لیکن اسے پوری طرح انشائیہ نہیں کہا جاسکتا۔

اس کے بعد سرسید کے مضامین میں بھی کہیں کہیں انشائیہ کا رنگ نظر آتا ہے۔ اسی طرح محسن الملک، حالی، شبلی، محمد حسین آزاداور عبدالحلیم شرر وغیرہ کے بعض مضامین میں بھی انشائیہ کی نشانیاں موجود ہیں۔

بہرحال محمد حسین آزاد کی تحریروں میں اور ان کے عہد میں انشائیے کے جو نمونے منظر عام پر آئے۔ انہیں دیکھتے ہوئے اس عہد کو انشائیہ کی صبح کاذب کہا گیا اور رشید احمد صدیقی کے عہد کو جس میں انشائیہ اپنے عروج پر تھا اسے انشائیہ کی صبح صادق کہا گیا اور اس خیال کو لوگوں نے درست مانا ہے۔

محمد حسین آزاد کی تحریروں میں انشائیہ :

محمد حسین آزاد کی کتاب "نیرنگ خیال" میں شامل مضمون کو اردو انشائیہ نگاری کا صحیح معنوں میں پہلا نمونہ مانا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صحیح معنوں میں انشائیہ نگاری کی شروعات  "نیرنگ خیال" سے ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب میں انشائیہ نگاری واضح طور پر نظر آتی ہے۔

سجاد انصاری کے مضامین میں انشائیہ :

سجاد انصاری نے بھی اپنے مضامین کو انشائیے کے رنگ میں لکھا۔ ان کے انشائیوں کی جان ان کا اسلوب ہے۔ یعنی انشائیہ نگاری میں ان کا اسلوب بہت پر کشش اور رنگین ہوتا ہے۔

خواجہ حسن نظامی کے یہاں انشائیہ :

خواجہ حسن نظامی اردو کے اہم انشا پرداز ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات کو بہت سادگی سے کہہ جاتے ہیں۔ ان کا انداز بہت دلکش اور پر اثر ہوتا ہے۔ ان کے انشائیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے معمولی عنوانات پر بھی قلم اٹھایا ہے اور اسے بڑی سلاست اور پر لطف انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے انشائیوں میں ان کی شخصیت بھی جھلکتی ہے۔ ان کے مشہور انشائیے الو، دست پناہ، آغوش مچھر میں ایک شب، جھینگر کا جنازہ اور گلاب تمھارا کیکر ہمارا وغیرہ کافی شہرت کے حامل ہیں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کی انشائیہ نگاری :

مرزا فرحت اللہ بیگ کا بھی شمار انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ظرافت، خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری وغیرہ سب آپس میں گھل مل گئے ہیں۔ اس سلسلے میں "نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی"، دلی کا آخری یادگار مشاعرہ اور ایک وصیت کی تعمیل وغیرہ خاکے میں انشائیے کے رنگ صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کے ایسے مضامین بھی ہیں جہاں خالص انشائیہ نگاری کے نمونے موجود ہیں۔ ایسے مضامین اپنی شگفتفی اور زبان کی شیرینی کی بناپر انشائیہ کہلاتے ہیں۔ ان مضامین میں انہوں نے اپنے تجربات اور خیالات و تاثرات کو پر لطف انداز میں پیش کیا ہے۔ "پٹنا" اس کی عمدہ مثال ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد اور ملا رموزی کی تحریروں میں انشائیے کا رنگ :

اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد اور ملا رموزی کے یہاں بھی انشائیہ نگاری کا نمونہ موجود ہے۔

رشید احمد صدیقی کی انشائیہ نگاری :

اس کے بعد رشید احمد صدیقی نے انشائیہ نگاری کی روایت میں اضافہ کیا۔ ان کی اکثر تحریریں انشائیہ نگاری میں شمار ہوتی ہیں۔ ارہر کا کھیت، وکیل، گھاگ، دو ایسے گھاٹ اور چارپائی وغیرہ ان کے عمدہ اور بہتریں انشائیے ہیں۔

پطرس بخاری کی انشائیہ نگاری :

اس سلسلے میں ایک اہم نام پطرس بخاری کا ہے جن کے انشائیے بہت مقبول ہوئے۔ ان کے انشائیے بہت دلچسپ اور پر لطف ہوتے ہیں۔ ہاسٹل میں پڑھنا، لاہور کا جغرافیہ، کتے، سویرے جوکل میری آنکھ کھلی اور سنیما کا عشق وغیرہ ان کے دلچسپ انشائیے ہیں۔

دیگر انشائیہ نگار:

اسی طرح بہت سے اردو ادیب ہیں جنھوں نے انشائیہ نگاری کی روایت میں حصہ لیا اور روایت کو فروغ بخشا۔ اس سلسلے میں شوکت تھانوی، کرشن چندر، کنہیا لال کپور ،مجتبیٰ حسین، ابن انشا اور احمد جمال پاشا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ آج بھی کئی ادیب ہیں جو اس صنف کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments