قطعہ کی تعریف، خصوصیات اور روایت
قطعہ کی تعریف :
قطعہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی
معنی 'ٹکڑے، جزو یا کاٹے ہوئے' کے ہیں۔ادبی اصطلاح میں قطعہ اس شعری صنف کو کہتے
ہیں جس میں دو یا دو سے زیادہ اشعار ہوں اور ان میں کسی خیال یا موضوع کو تسلسل کے
ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ اس میں اشعار کی تعداد کم سے کم دو ہوتی ہے (یعنی چار مصرعے)
اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ قطعہ میں غزل یا قصیدہ کی طرح مطلع اور مقطع کی کوئی
قید نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہونا ضروری مانا جاتا
ہے۔ اگر ردیف ہو تو بہتر ہے۔
قطعہ میں مطلع کا استعمال :
قطعہ میں مطلع کا استعمال بھی کیا
جاسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ ابتدائی شعرا قطعے میں مطلع کا استعمال نہیں
کرتے تھے، بعد کے شعرا نے مطلع کا بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن معنی کے اعتبار سے
سارے اشعار مربوط ہوتے ہیں۔ قطعہ معنوں کے اعتبار سے رباعی، غزل مسلسل، قصیدہ اور
نظم کے مماثل ہے اور ہیئت کے اعتبار سے قصیدہ اور غزل مسلسل سے مشابہت رکھتا ہے۔
لیکن فرق یہ ہے کہ قصیدہ اور غزل مسلسل کے لیے مطلع ضروری ہوتا ہے جب کہ قطعہ میں
مطلع کی پابندی نہیں ہوتی ہےاور نہ ہی اس کی ممانعت ہوتی ہے۔ اسی لیے قطعہ اور غزل
مسلسل کو ایک ہی چیز سمجھنا صحیح نہیں۔ معنی کے اعتبار سے غزل مسلسل سے مشابہت تو
رکھتا ہے لیکن غزل مسلسل کے اشعار میں تسلسل ہونے کے باوجود ہر شعر کسی نہ کسی حد
تک موضوعاتی طور پر مکمل ہوتا ہے۔ جب کہ
قطعہ میں ایک شعر دوسرےشعر سے موضوعاتی طور پر ملا ہوا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح قطعہ
میں اگر مطلع کا استعمال کیا جائے تو غزل کے مماثل تو نظر آتا ہے لیکن معنوی طور
پر دونوں جدا ہوتے ہیں۔ یعنی غزل کا ہر شعر اپنے اندر ایک مضمون رکھتا ہے جب کہ
قطعہ کا ہر شعر کسی خاص مضمون کے تحت ہوتا ہے۔اسے دیکھتے ہوئے ہی اختر انصاری نے
قطعہ کو ایک سمٹی ہوئی مختصر نظم بتایا ہے۔
قطعہ اور رباعی میں مماثلت اور فرق :
دیکھا جائے تو
قدیم شعرا نے چار مصرعوں سے زیادہ اشعار والے قطعے بھی لکھے لیکن بعد میں زیادہ تر
چار مصرعوں کے ہی قطعے لکھے جانے لگے۔ اسی طرح رباعی بھی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی
ہے اور اس میں کسی خاص خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ قطعہ سے مماثل نظر آتا
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس میں تفریق نہیں کر پاتے ہیں۔ حالانکہ دونوں الگ
الگ اصناف ہیں اور دونوں کی ہیئتیں جدا ہیں۔
رباعی اور قطعہ
کے مابین سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ رباعی میں چار مصرعے خاص ہوتے ہیں جب کہ قطعہ میں
چار سے زیادہ مصرعوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ رباعی کے
پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔اور رباعی
میں آخری مصرع بہت پر زور ہوتا ہے جس سے لگتا ہے کہ پورا مضمون اسی میں سمٹ آیا
ہے۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ رباعی کے لیے ایک خاص وزن اور بحر متعین ہے۔ رباعی کا خاص
وزن "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" ہے۔ اسی خاص وزن اور بحر کی پابندی کی
جاتی ہے۔ اگر رباعی میں مخصوص وزن اور بحر کی پابندی نہیں کی جائے گی تو وہ رباعی
نہیں کہلائے گی۔ جب کہ قطعہ کسی خاص وزن یا بحر سے بندھا ہوا نہیں ہے بلکہ کسی بھی
وزن اور بحر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یعنی قطعہ میں وزن یا بحر کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہی قطعہ اور رباعی کا سب سے
بڑا اور نمایاں فرق ہے۔ اور آج صرف یہی فرق رہ گیا ہے۔ کیونکہ قطعہ میں بھی مطلع
کا استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر چار
مصرعے ہی کہے جاتے ہیں۔ اس لیے بہت سی رباعی اور قطعات آپس میں خلط ملط ہوگئے۔ ان
کی پہچان بس وزن اور بحر سے کی جاتی ہے جو رباعی کے لیے خاص ہے۔
قطعہ کی خصوصیت :
قطعہ کی سب سے
بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعر کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معنی پیدا کرتا ہے۔
یعنی اس کے اندر جامعیت اور اختصار ہے۔
چند اشعار کے ٹکڑوں کے ذریعہ کسی خیال یا وسیع موضوع کو پیش کر دیا جاتا ہے۔ اور
ایک خصوصیت یہ ہے کہ قطعہ میں موضوعات محدود یا متعین نہیں ہیں بلکہ قطعہ لکھنے
والا کسی بھی موضوع یا خیال کو اپنے قطعہ میں پیش کر سکتا ہے۔
قطعہ اور قطعہ بند :
قدیم شعرا کے
یہاں قطعہ عام طور پر غزل کے اشعار میں ملتا ہے۔ جسے قطعہ بند کہا جاتا ہے۔ یعنی شاعر اپنی غزل کے دو یا دو سے
زیادہ اشعار میں کسی مضمون یا خیال کو تسلسل کے ساتھ پیش کرتا ہے تو اسے قطعہ بند
کہا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ مضامین غزل اور اس کی انفرادیت کو دیکھتے ہوئے قطعہ ایک
الگ صنف سخن قرار پایا۔
قطعہ نگاری کی روایت
قطعہ کی روایت
اتنی ہی پرانی مانی جاتی ہے جتنی غزل اور قصیدہ کی۔ قطعہ کا رواج سب سے پہلے عربی
شاعری میں ہوا اور عربی میں اسے ایک صنف کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اور دیگر اصناف کی
طرح یہ صنف بھی فارسی سے ہوتی ہوئی اردو شاعری میں رائج ہوئی۔ شروع میں اکثر شعرا نے قطعہ بند
شعر اپنی غزلوں اور قصیدوں میں کہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی روایت بہت پرانی
ہے اور اردو کے تقریباً تمام شاعروں نے قطعہ نگاری کی طرف توجہ کی۔ جب قطعہ نگاری
ایک صنف کی حیثیت اختیار کر گئی تو بہت سے شاعروں نے الگ سے قطعات لکھے اور اسے
فروغ بھی حاصل ہوا۔
قطعہ نگاری شروع
سے ہی مقبول صنف رہی ہے۔ اکثر قدیم و جدید شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار قطعات کے
ذریعے کیا ہے۔ دکن کی شاعری کا رخ کریں تو وہاں بھی قطعہ نگاری کی بہت سی مثالیں
موجود ملیں گی۔ شمالی ہند میں جب شاعری کا آغاز ہواتو وہاں اسے اور زیادہ فروغ
حاصل ہوا۔ لیکن سب سے پہلا قطعہ نگار کون ہے؟ اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن اتنا
ضرور ہے کہ اردو شاعری کے ہر دور میں قطعہ نگاری کا رجحان رہا ہے۔ شروع میں غزلوں
اور قصیدوں میں قطعہ بند اشعار لکھنے کا رواج تھا۔ پھر جب الگ صنف بنی تو اسے مزید
مضبوطی ملی۔
دکن میں قطعہ نگاری :
دکن کی شاعری کا
مطالعہ کریں تو قلی قطب شاہ کے کلیات میں بہت سے قطعہ بند اشعار نظر آتے ہیں جنہیں
قطعہ نگاری میں شامل کیا گیا ہے۔ ان سے پہلے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی نظم "چکی
نامہ" کو بھی بعض لوگوں نے قطعہ مانا ہے۔ اسی طرح بہمنی دور کے کئی شاعروں کے
یہاں قطعات کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
عادل شاہی دور سے
تعلق رکھنے والے برہان الدین جانم ، عبدل، مقیمی اورنصرتی وغیرہ کی مثنویوں اور
نظموں وغیرہ میں قطعات کے نمونے موجود ہیں۔ قطب شاہی دور کے شعرا وجہی، غواصی،بحری
اور قلی قطب شاہ کی غزلوں اور مثنویوں وغیرہ میں بھی قطعات کے نمونے ملتے ہیں اور بعض شاعروں نے الگ سے
قطعات بھی لکھے۔
ان کے علاوہ ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی نے بھی قطعات لکھ کر اس کی روایت میں اضافہ کیا۔
شمالی ہند میں قطعہ نگاری :
جب شمالی ہند اردو ادب کا
مرکز بنتا ہے تو وہاں قطعہ نگاری کی باقاعدہ روایت قائم ہوتی ہے اور اسے فروغ حاصل
ہوتا ہے۔ دلی کے ابتدائی شعرا چندر بھان برہمن، آبرو، شاکر، ناجی، مضمون، یکرنگ،
حاتم، فائزاور مظہر جان جاناں وغیرہ کی غزلوں میں قطعہ بند اشعار تو ملتے ہی ہیں ساتھ ہی کئی شعرا نے الگ سے قطعات بھی لکھے۔
گرچہ ان ابتدائی شعرا کے کلام میں قطعہ بند اشعار زیادہ ہیں اور الگ سے قطعہ لکھنے
کا رواج کم رہا ہے، پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قطعہ نگاری کی
روایت قائم کرنے میں ان شعرا کا اہم کردار رہا ہے۔
اس دور کے بعد جب
شمالی ہند کی شاعری کا دوسرا اور اس کے بعد کا دور شروع ہوتا ہے تو تقریباً دلی
اور لکھنئو کے تمام شعرا نے غزل گوئی اور قصیدہ گوئی کےساتھ ساتھ قطعہ نگاری میں بھی حصہ لیا۔ اور انہوں نے موضوعاتی
اور اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے قطعہ نگاری کی روایت میں اضافہ کیا۔ دلی کے شعرا
میں سودا، میر، درد، سوز، میر حسن، ذوق، غالب، مومن اور داغ وغیرہ کے نام بہت اہم
ہیں جنہوں نے قطعات بھی لکھے۔ سوداؔ سب سے بڑے قصیدہ نگار تھے اور ان کی غزلیں بھی
ہیں۔ لیکن وہ ان دونوں اصناف میں جن خیالات اور موضوعات کو پیش کرنے سے قاصر رہے
ان کو انہوں نے قطعات کے ذریعہ پیش کیا۔ ان کے قطعات ہجویہ، مدحیہ، تاریخی اور
اخلاقی ہوتے ہیں۔ خاص کر ان کے تاریخی قطعات بہت
اہم ہیں۔
میر کے قطعات :
میرؔنے بھی قطعات
لکھے۔ ان کا نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قطعات میں حسن و عشق کی داستان بیان
کرکے تغزل کی روح ڈالی۔ اسی طرح ان کے قطعات میں بھی درد، سوز و گدازموجود ہے۔
میرؔ زبان کی صفائی اور شیرینی کے ذریعہ اپنے قطعات کو دلکش بناتے ہیں۔ان کے قطعات
میں جامعیت اور اختصار پایا جاتا ہے جو
قطعہ نگاری کی خوبی ہے۔ اس طرح انہوں نے قطعہ نگاری میں الگ رنگ پیدا کیا اور اسے
نیا شعری مزاج عطا کیا۔
درد کے قطعات :
دردؔ کے
قطعات میں تصوف کا رنگ نظر آتا ہے۔ غزلوں کی طرح ان کے قطعات میں بھی سوز و گداز
اور کسک موجود ہے۔ انہوں نے بھی اختصار کا خاص خیال رکھا ہے۔
اکبر الہ آبادی کے قطعات :
اکبرآبادی
کے قطعات بھی قابل ذکر ہیں۔ وہ اپنے قطعات میں مختصر حکایتوں کو پیش کرتے ہیں اور
ہر طرح کے موضوعات کو بہت خوبصورتی سے پیش
کرتے ہیں۔
غالب کے قطعات :
غالبؔ نے بھی
قطعات لکھے اور انہوں نے اس کے لیے نئی نئی راہیں نکالی ہیں۔ان کے قطعات میں
اختصار، جامعیت اور جدت کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ غالبؔ اپنے قطعات میں ذاتی
تجربات اور مشاہدات کو شوخی اور ظرافت کے انداز میں پیش کرتے ہیں جو
بہت دلکش ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذوقؔ اور مومنؔ کے قطعات بھی اہم ہیں۔
لکھنئو میں قطعہ نگاری :
دلی کی طرح
لکھنئو کے شعرا نے بھی اس روایت میں حصہ لیا اور ان کے قطعات میں لکھنئو کا رنگ
نظر آتا ہے۔ لکھنئو کے قطعات میں اختصار کے بجائےتفصیل ہے۔ اسی طرح صنعتوں کا بھر
پور استعمال ہوتا ہے۔ خاص کر تشبیہات و استعارات وغیرہ کی کارفرمائی زیادہ ہوتی
ہے۔ اس سلسلے میں ناسخؔ کا نام سب سے اہم ہے۔ انہوں نے اصلاح زبان پر زور دیا۔
انہوں نے اپنے خیالات کو پیش کرنے میں تشبیہات اور دلکش محاورات کا بہت استعمال
کیا ہے۔ ان کے قطعات تاریخی بھی ہوتے ہیں۔
ان کے علاوہ برق،
رشک، منیرشکوہ آبادی، امیر مینائی، جلال لکھنئوی، محسن کاکوروی، تسلیم لکھنئوی،
جلیل مانک پوری، پنڈت برج نرائن چکبست اور عزیز لکھنئوی وغیرہ نے بھی قطعہ نگاری
کو اپنے نئے موضوعات اور اسالیب کے ذریعہ مالامال کیا۔
جدید شعرا کے قطعات :
اسی طرح جدید دور
کے شعرا میں حالیؔ، شبلیؔ، اکبر الٰہ آبادی، شاد عظیم آبادی، فانی بدایونی، تلوک
چند محروم، علامہ اقبال اوراختر شیرانی نے بھی قطعہ نگاری کی روایت میں اہم اضافہ
کیا۔
جوش ملیح آبادی،
فراق گورکھپوری، روش صدیقی، احسان دانش، سردار جعفری، احمد ندیم قاسمی، فیض، جوش
ملسیانی، شاد عارفی اور اختر انصاری کے نام بھی قطعہ نگاری کی رایت میں کافی اہم
ہیں۔ خاص کر اختر انصاری نے قطعہ نگاری
میں نئی فکر اور مضامین کے تنوع کے ذریعہ اس صنف کو نیا نیا راستہ دکھایا۔ انہوں
نے اپنے خیالات اور فکر کے اظہار کے لیے جس طرح قطعات نگاری سے کام لیا ہے اس طرح کسی
اور قطعہ نگار نے نہیں لیا ۔
ان کے علاوہ جاں
نثار اختر، ساحر لدھیانوی اور مخمور سعیدی وغیرہ نے بھی قطعات کی روایت کو فروغ
عطا کیا ۔ اسی طرح آج بھی قطعات لکھنے کا رجحان عام ہے اور بہت سے شعرا قطعات کے
ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments