آزاد نظم کی تعریف، خصوصیات اور تاریخ | Azad nazm ki tareef

آزاد نظم کی تعریف، خصوصیات اور تاریخ

آزاد نظم کا تعارف :

آزاد نظم وہ نظم ہےجو کسی ایک موضوع پر ہو اور تمام قسم کے اصولوں اور پابندیوں سے آزاد ہو۔ اس میں کسی ایک خاص وزن یا بحر کی پابندی نہیں ہوتی ہے بلکہ نظم گو آزادہوتا ہے۔ وہ اپنے خیال کے اظہار میں اپنی نظم کے مصرعوں کو الگ الگ وزن یا بحر میں لکھ سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہر ایک مصرع کسی نہ کسی وزن یا بحر  میں ہو۔ اس طرح شاعر اپنی پسند سے اپنی نظم میں چھوٹے بڑے مصرعےکا استعمال کرکے کسی ایک مضمون یا خیال کو آزادی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ بس اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ چاہے وہ چھوٹا مصرع اپنائے یا بڑا مصرع اسے کسی نہ کسی وزن یا بحر پر ہونا چاہیے۔ اسی طرح مصرعے چھوٹے تو ہو سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ ان تمام مصرعوں میں باہم ربط و تسلسل ہو۔ یعنی شاعر جو موضوع یا خیالات و جذبات پیش کر رہا ہے وہ پوری نظم میں اس طرح پیش کرے  کہ ہر مصرع آپس میں ملا ہوا محسوس ہو۔

آزاد نظم کی ہیئت اور آزاد نظم و معریٰ نظم میں فرق :

آزاد نظم نظم معرا سے مختلف ہے ۔ معرا نظم کو اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا کہ آزاد نظم کو۔ معرا نظم میں قافیہ و ردیف کی پابندی نہیں ہوتی ہے لیکن وہ کسی خاص وزن اور بحر میں ہوتی ہے۔یعنی اگر پہلے مصرعے میں بحر چار ارکان  (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن) استعمال ہوئے ہیں تواس کا خیال ہر مصرعے میں رکھنا ضروری ہے۔ یعنی ہر مصرعے میں یہی چاروں ارکان آئیں گے۔ جب کہ آزاد نظم میں یہ شرط نہیں ہے۔ آزاد نظم میں بھی قافیے اور ردیف کی پابندی نہیں ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں وزن اور بحر کی بھی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی شاعرکو اس میں آزادی ہوتی ہے کہ وہ ہر مصرعے کے لیے الگ الگ بحر کا استعمال کرسکتا ہے۔یعنی پہلے مصرعے کی بحر میں اگر چاربار فاعلن آیا ہے تو بعد کے مصرعوں میں شاعر کہیں دو، کہیں تین، کہیں چار، کہیں چھ بار فاعلن کا استعمال کر سکتا ہے۔ یہی آزاد نظم کی ہیئت ہے۔

آزاد نظم کی روایت :

آزاد نظم ایک جدید ہیئت اور تجربہ ہے جو مغربی اثرات کے تحت اردو ادب میں داخل ہوئی۔ انگریزی میں اسے Free verse کہتے ہیں اور اردو میں یہ شاعری آزاد نظم کہلاتی ہے۔ دیکھا جائےتو سب سے پہلے فرانس میں اصولوں سے ہٹ کر نظم نگاری کی گئی اور وہاں اس کا نام "verse libre" دیا گیا۔ یہ اصطلاح فرانسیسی سے انگریزی میں آئی اور پھر اس کے اثر سے اردو میں آزاد نظم کی روایت قائم ہوئی۔

آزاد نظم کی مخالف :

شروع میں جب آزاد نظم کی روایت قائم ہوئی تو بہت سے فن کاروں اور ادیبوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ وہ پرانے سانچوں میں اظہار خیال کو بہتر مانتے تھے جس میں قافیہ، ردیف، وزن اور بحر سب کچھ ہو، تاکہ شاعری خوبصورت نظر آئے۔ لیکن آزاد نظم کے حامی شعرا کا ماننا تھا کہ ہم آزاد ہیں اور اپنے خیالات کے اظہار میں بھی ہمیں آزادی ہے۔ اس لیے ہم کسی اصول کے پابند نہیں۔ ہم کو اپنا اظہار خیال بغیر کسی اصول کے پابند ہوکر کرنا چاہیے تاکہ بہتر طریقے سے ان خیالات کااظہار ہوسکے۔ کیونکہ جہاں اصول و شرائط ہوتے ہیں وہاں خیالات کا اظہار بہتر طریقے سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب ہم آزاد ہوکر لکھیں گے تو کسی بھی موضوع اور خیال کو بہتر طریقے سے قاری کے سامنے پیش کرسکیں گے۔ اس طرح آزاد نظم کی تحریک قائم ہوئی اورگرچہ شروع میں اس کی مخالفت ہوئی لیکن رفتہ رفتہ بہت سے شعرا نے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا اور آزاد نظم کی ہیئت میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا۔اور دیکھتے دیکھتے آزاد نظم نے ترقی کے کئی منازل طے کرلیے۔

اردو کا پہلا آزاد نظم گو شاعر :

اردو میں سب سے پہلے آزاد نظم کس نے لکھی؟ اس میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے عبدالحلیم شرر کے یہاں آزاد نظم کے نمونے تلاش کیے ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شرر نے سب سے پہلے آزاد نظم کا تجربہ کیا ہے۔ لیکن شررؔ نے جو تجربہ کیا ہے وہ باقاعدہ آزاد نظم نہیں کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس وقت آزاد نظم کا تصور تھا۔ اس کے بعد تصدق حسین خالد اور ن۔ م۔ راشد  کے نام آتے ہیں۔ ان دونوں شاعروں نے باقاعدہ آزاد نظم تو لکھی اور پھر آزاد نظم کی باقاعدہ تحریک قائم ہوئی، لیکن ان دونوں میں سب سے  پہلے کس نے باقاعدہ آزاد نظم لکھی اس میں بھی تھوڑا اختلاف ہے۔ لیکن ان دونوں شاعروں نے اپنی اولیت کا جو دعویٰ پیش کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تصدق حیسن خالد اردو کے پہلے باقاعدہ آزاد نظم نگار ہیں اور 1925ء میں انہوں نے آزاد نظم کو بطور فن اردو میں پیش کیا۔ ن۔م۔ راشد بھی اسی زمانے سے تعلق رکھنے والے شاعر ہیں۔ ان کے بارے میں لکھا گیا ہےکہ انہوں نے 1930ء کے بعد اردو شاعری میں آزاد نظم کو اپنایا اور آزاد نظم کی تحریک بھی چلائی۔

آزاد نظم کی تحریک کے بڑے علمبردار ن.م. راشد :

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں آزاد نظم کی تحریک کے سب سے پہلے اور بڑے علمبردار ن۔م۔راشد ہیں۔ انہوں نے نظریاتی اور عملی طور پر باقاعدہ آزاد نظم کو اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے شاعری کے قدیم اصولوں کی کھل کر مخالفت بھی کی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان پابندیوں نے ہمارے شاعروں کو اپنے خیالات و افکار کے اظہار میں مجبور بنا رکھا ہے۔ وہ آزادی سے اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔ اس طرح انہوں نے آزاد نظم کی تحریک کے اصل مقصد کی طرف اشارہ کیا۔ ان کی آزاد نظموں میں رقص، زنجیر، مکافات اور جرات پرواز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے شعری مجموعے "ماورا" "ایران میں اجنبی""لا=انسان" اور گمان کا ممکن کافی اہم ہیں۔

آزاد نظم کے دوسرے بڑے نمائندہ میرا جی:

 آزاد نظم کے دوسرے بڑے نمائندہ میراجیؔ مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی آزاد نظم کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے محض اسے تفریح کے لیے نہیں اختیار کیا بلکہ انہوں نے موضوعاتی اور فنی دونوں اعتبار سے آزاد نظم کی روایت میں اضافہ کیا۔ ان کا شعری مجموعہ"میراجی کی نظمیں" ہے جس میں آزاد نظم کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔

دیگر آزاد نظم گو شعرا :

اسی طرح فیضؔ، حفیظ ہوشیار پوری، مجید امجد، علی سردار جعفری، مختار صدیقی، محمد دین تاثیر، منیب الرحمن، علی جواد زیدی، مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، خلیل الرحمٰن اعظمی، سلام مچھلی شہری، یوسف ظفر، قیوم نظر، ضیا جالندھری، احمد ندیم قاسمی اور بلراج کومل وغیرہ شاعروں نے آزاد نظم کی ہیئت میں شاعری کی اور اپنے خیالات اور نئے  نئے موضوعات کو آزاد نظم میں پیش کیا۔

آزاد نظم پر ترقی پسند تحریک کا اثر:

ترقی پسند شاعروں کے ذریعہ آزاد نظم کو بہت زیادہ رواج ملا۔ اس تحریک کے دور میں تقریباً تمام شاعروں نے آزاد نظمیں لکھیں۔ اور مضمون و ہیئت دونوں اعتبار سے آزاد نظم کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ خاص کر ترقی پسند کے بڑے اور اہم شاعر فیضؔ نے  آزاد نظم کی ہیئت کو بہت خوبصورتی سے اپنایا اور بہت سی آزاد نظمیں لکھیں جنہیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے آزاد نظم میں اہم اضافہ کیا۔

علی سردار جعفری جو ترقی پسند شاعری کے نمائندہ ہیں انہوں نے بھی آزاد نظم میں حصہ لے کر اس روایت میں اہم اضافہ کیا۔ اسی طرح کیفی اعظمی اور اخترالایمان کے نام بھی قابل ذکرہیں۔

آزادی کے بعد آزاد نظم :

جس طرح ترقی پسند شاعروں کے ذریعہ آزاد نظم کی روایت کو فروغ حاصل ہوا اسی طرح آزادئ ہند کے بعد بھی اس کی روایت قائم رہی اور نہ صرف روایت قائم رہی بلکہ اسے اور بھی زیادہ فروغ  حاصل ہوا اور نئے رجحانات اور نئے نئے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے اس روایت کو قائم رکھا گیا۔ اسی طرح آج بھی موجودہ صورت حال کو آزادی کے ساتھ اپنے اظہار خیال کے لیے  نظم کی اس ہیئت کو اہمیت دی جارہی ہےاور اسے فروغ ملتا جارہا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن  

Post a Comment

0 Comments