گیت کی تعریف، خصوصیات اور روایت | Geet ki tareef, khususiyaat aur riwayat

گیت کی تعریف، خصوصیات اور روایت

گیت کی تعریف :

گیت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راگ، سرور اور نغمہ کے ہیں۔ گیت میں دلی جذبات، کیفیات، احساسات اور تجربات کو نرم، شیریں اور مترنم الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ خاص کر اس میں ہجر و فراق کو والہانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ گیت کا اظہار عام طور پر عورتوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ گیت میں عاشق یعنی عورت اپنے محبوب یا شوہر سے  محبت کے جذبات کا اظہار مترنم اور والہانہ انداز میں کرتی ہے۔ اس میں عاشق یا شوہر سے جدائی کا ذکر سادہ اور پر اثر انداز میں کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ موضوع گیت کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عشق و محبت اور جدائی کے موضوعات کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ شروع میں گیت میں محبت کا تصور زیادہ تھا لیکن بعد میں اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں عشق و محبت کے علاوہ عبادت، رزم، بزم، شادی، موسم، تہوار، مناظر فطرت اور حب وطن غرضیکہ ہر طرح کےموضوعات کو شامل کیا جا سکتا ہے اور ہر چیز جو انسانی جذبات کا حصہ ہے اس کا اظہار گیت میں کیا جاسکتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان جذبات یا دلی کیفیات کو  بہت سادگی اور بے تکلفی سے پیش کیا جاتا ہے۔ بہر حال  مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خوشی والم کے جذبات یا دیگر کیفیات کو چند مناسب الفاظ میں ترنم کے سہارے بیان کرنے کو گیت کہتے ہیں۔


گیت کی خصوصیات

عشق و محبت کی کیفیت :

گیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عشق و محبت کی کیفیات اور اس کے ہر پہلو کو بہت ہی سادگی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے کچھ لوگوں نے اسے غزل پر فوقیت دی ہے۔ عشق و محبت کے حوالے سے گیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو جنسی محبت تک محدود نہ رکھا بلکہ ماں، باپ، بھائی بہن اور دوستوں کی محبت کو بھی جگہ دی ہے۔ اسی طرح رقیب کی جگہ پر گیت نے سماج، معاشرہے اور گھریلو مسائل، خاندانی تعلقات خاص کر ساس، سسر، نند، بھاوج، دیور، جیٹھ، دیورانی، جٹھانی وغیرہ کے چاؤ چونچلے ، ان کی آپسی اچھے اور برے برتاؤ وغیرہ کو گیت نے اپنے اندر سمویا۔

ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور دیگر پہلو:

اسی طرح تہوار ، موسم، مناظر فطرت، ہندوستانی تہذیب وثقافت، رسم و رواج کی تفصیلات جس طرح گیت میں ہوتے ہیں اس طرح کسی اور جگہ نہیں  ہوتے۔ زندگی کے واقعات کو جس سادگی اور خلوص سے بیان کیا جاتا ہے ویسا کہیں اور موجود نہیں۔ اس کے اندر داخلیت ہوتی ہے اور یہ آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کا ہنر رکھتا ہے۔

میٹھی اور سریلی زبان:

گیتوں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے بول بہت میٹھے اور سریلے ہوتے ہیں۔ اس کی زبان کتابی زبان نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی یہ خواص کی زبان ہے بلکہ یہ عوام کی زبان ہوتی ہے۔ اس کی زبان بہت سادہ، نازک، لچکدار، لطیف اور میٹھی ہوتی ہے۔ روز مرہ ، محاورے، تشبیہات و استعارات سب کچھ گیت میں آس پاس کے ماحول سے لیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گیت عوام سے اور زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ اس میں عربی، فارسی کے بھاری اور بوجھل الفاظ، تراکیب، تشبیہات و استعارے نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ عوامی زبان ہوتی ہے۔ اور یہ عوام سے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے عوامی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

نغمگی:

گیت کی اصل خصوصیت نغمگی ہے۔ اس میں کسی احساس کو مترنم الفاظ میں سمویا جاتا ہے۔ اور وہ مترنم الفاظ ترتیب وار لائے جاتے ہیں جس سے گیت کا جنم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اندر نغمگی اور موسیقیت بھری ہوتی ہے۔ اس میں لے اور آوازوں کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے جس سے گیت گائے جاسکتے ہیں۔

گیت کی دیگر خصوصیات :

گیت کو ایک ہلکی پھلکی غنائی نظم بھی کہا جاتا ہے جسے اکثر گایا جاتا ہے۔ اس کی کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں قوافی و ردیف کا کوئی نظام ہوتا ہے اور نہ ہی مصرعوں کی طوالت کا۔ عام طور پر گیت زیادہ طویل نہیں ہوتے ہیں۔ اس میں پانچ، سات، دس یا پندرہ سطریں یا مصرعے ہوتے ہیں۔گیت میں عام طور پر ایک مکھڑا /ٹیک ہوتا ہے جو گیت کا پہلا شعر یا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ اس کے بعد عام طور پر چار یا پانچ بند ہوتے ہیں اور ہر بند کے بعد اسی مکھڑے کو دہرایا جاتا ہے۔ گیت میں اس مکھڑےکو بہت اہم مانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ گیت میں حسن اور تاثیر پیدا کی جاتی ہے۔

گیت کے جتنے بھی بند ہوتے ہیں سب موضوعاتی اعتبار سے آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور مکھڑا /ٹیک ایک ڈور کی مانند ہے جو ہر بند کے آخر میں آکر تمام بندوں کو ایک ساتھ پروتی ہے۔ گیت میں بندوں کی تعداد کی کوئی شرط نہیں ۔ وہ کم بھی ہوسکتے ہیں اور زیادہ بھی۔ لیکن عام طور پر چار یا پانچ بند  ہوتے ہیں۔گیت میں وزن یا بحر کی کوئی پابندی نہیں۔ گیت کسی بھی بحر یا وزن میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عام طور پر اس میں چھوٹی بحروں کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مکھڑا الگ بحر میں لکھا جاتا ہے اور باقی اشعار ایک بحر میں ہوتے ہیں۔

گیت کے بندوں میں مصرعوں کی تعداد متعین نہیں۔ یعنی کسی گیت میں چار چار مصرعوں کے بند ہو سکتے ہیں اور تین تین مصرعوں کے بھی۔ پھر وہی مکھڑا دہرایا جاتا ہے جو چھوٹا یا بڑا بھی ہوسکتا ہے۔ یا اس کو توڑ کر دو سطروں میں بھی لکھا جاتا ہے۔

گیت کی ایک فنی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اختصار پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اس میں طوالت پیدا کریں گے تو وہ اپنا اثر کھو دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے گیت میں عیب مانا جاتا ہے۔

اردو ادب میں گیت ایسی صنف شاعری ہے جو ہندی ادب سے اردو میں آئی۔ اور اردو گیت نگاری ہندی گیت سے زیادہ متاثر رہی۔ خاص کر میرابائی اور کبیر کے گیتوں نے اردو گیت کو بہت متاثر کیا۔

 

گیت نگاری کی روایت

امیر خسرو :

اردو ادب میں گیت نگاری کا آغاز  امیر خسرو سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے گیتوں میں عوامی بول چال کی زبان کا استعمال کیاہے اوراردو ہندی کے نرم اور شیریں الفاظ کو بڑی خوبصورتی سے ایک ساتھ سمویا ہے۔ ان کے گیتوں کی تعداد بہت ہے۔ انہوں نے ہر موقع پر گائے جانے والے گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں تصوف کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔

گیت نگاری میں صوفیائے کرام کا حصہ :

اسی طرح دکن کے صوفیائے کرام نے بھی گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اللہ اور اس کے رسول کا عشق ہے ، بزرگان دین سے محبت، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی تیاری وغیرہ کے مضامین ملتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں موسیقیت اور ترنم کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ خواجہ گنج شکر، حمید الدین ناگوری، بہاؤ الدین باجن، شاہ ہاشم حسنی اور برہان الدین جانم وغیرہ صوفیائے کرام قابل ذکر ہیں جنہوں نے اس وقت کی عوامی زبان میں گیت لکھے۔

دکن میں گیت نگاری :

اسی طرح  دکن میں عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں گیت لکھے گئے۔ عادل شاہی دور میں ابراہیم عادل شاہ اور علی عادل شاہ کے یہاں گیت کے نمونے موجود ہیں۔ اسی طرح قطب شاہی دور میں گیت کے حوالے سے وجہی اور قلی قطب شاہ کے نام اہم ہیں۔ ان کے یہاں گیت کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ اسی طرح ولی دکنی نے بھی اردو گیت لکھے۔

شمالی ہند میں گیت نگاری :

اس کے بعد شمالی ہند کا رخ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں اس کی روایت میں  تیزی سے اضافہ ہوا۔ شمالی ہند میں افضل کے بارہ ماسہ میں گیت کے نمونے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ابتدائی شعرا عُزلت اور نیاز  بریلوی وغیرہ نے بھی گیت لکھے۔

پھر اٹھارویں صدی میں نظیر اکبرآبادی کا نام گیت کے حوالے سے کافی اہم ہے۔ انہوں نے عرسوں، میلوں، تہواروں اور موسموں وغیرہ پر بہت سے گیت لکھے۔ اسی طرح بہادر شاہ ظفرؔ کےگیت بھی قابل ذکر ہیں جن میں انہوں نے نئے راگ بھی ایجاد کیے۔

لکھنئو میں بھی اردو گیت کا کافی ترقی ملی، واجد علی شاہ کے یہاں گیت کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ ان کے زمانے میں اردو ڈرامے کا بھی آغاز ہوا۔ اس سے اردو گیت کی روایت میں بھی اضافہ ہوا۔ کیونکہ امانت لکھنئوی اور آغاز حشر کاشمیری نے اپنے ڈراموں میں گیتوں کا استعمال کیا ہے۔

گیت نگاری کا اہم دور:

اس کے بعد اردو گیت کا اہم دور شروع ہوتا ہے جس میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ دیکھا جائے تو اسماعیل میرٹھی، سرور جہان آبادی، چکبست اور آرزو لکھنئوی وغیرہ قابل ذکر ہیں جن کے یہاں گیتوں کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ گیت کے حوالے سے حسرت موہانی کا نام بھی اہم ہے۔ انہوں نے اپنے گیتوں میں سیاست کو بھی جگہ دی ہے۔ اسی طرح عظمت اللہ خاں، کمال امروہی، صفدر آہ، جمیل مظہری، معین احسن جذبی، کیف بھوپالی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، مظطر خیرآبادی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، ساغر نظامی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، میراجی، مجروح سلطان پوری، اندر جیت شرما، سلام مچھلی شہری اور ساحر لدھیانوی وغیرہ کے نام بھی اہم ہیں جنہوں نے اردو گیت میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ اندر جیت  شرما تو گیتوں کے ہی شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ ان کے گیت سیاسی، سماجی اور معاشرتی  ہوتے ہیں۔ اسی طرح مجروح سلطان پوری اور ساحر لدھیانوی نے فلموں کے لیے بہت سے گیت لکھے۔ ان کے علاوہ شکیل بدایونی، جاوید اختر، گلزار اور ندا فاضلی نے بھی بہت سے فلمی گیت لکھے۔ اسی طرح بیکل اتساہی کا شمار بھی اہم گیت نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ہندی اور اودھی کے شیریں الفاظ کو اپنے گیتوں میں جگہ دی ہے۔ انہوں نے فلمی دنیا کے لیے بہت سے عشقیہ گیت لکھے۔

ان کے علاوہ قیوم نظر، قتیل شفائیت، جمیل الدین عالی، الطاف مشہدی اور مسعود حسین وغیرہ کے نام بھی اہم ہیں۔ اسی طرح آج بھی گیت کی روایت قائم ہے اور نئے نئے شعرا اس میں حصہ لے کر گیت کی روایت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

 

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments