اردو افسانہ فن اور روایت | Urdu afsana fan aur riwayat

اردو افسانہ فن اور  روایت

افسانہ ایک ایسی مختصر تحریر ہے جس میں کسی خاص واقعے، قصے یا لمحے کو پر اثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ افسانے میں  زندگی کے کسی واقعے یا کسی بھی پہلو کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اردو میں افسانہ انگریزی ادب کے اثر سے آیا۔ افسانہ سے پہلے ناول اور اس سے پہلےداستان کا رواج تھا۔ جب لوگوں کے پاس بہت وقت تھا۔ ان کی مصروفیت بھی کم تھی تو اس وقت داستان لکھے جاتے تھے تاکہ اسے پڑھ کر لوگوں کا وقت آسانی سے گزر سکے۔ اس زمانے میں طویل قصے اور کہانیوں کو پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی اور لوگوں کی مصروفیات بڑھتی گئیں، ان کے پاس اب اتنا وقت نہ رہا کہ وہ طویل قصے کہانیاں پڑھ سکیں۔ اسی طرح غیر فطری قصوں سے بھی لوگوں کی دلچسپی کم ہونے لگی۔ تب حقیقت پر مبنی قصے اور کہانیاں لکھی جانے لگیں اور یہ کہانیاں داستان سے چھوٹی ہوتی تھی۔ ایسی کہانیوں کو ناول کا نام دیا گیا۔ پھر لوگوں کی مصروفیت اور زیادہ بڑھی تو مختصر افسانے کا وجود ہوا جس میں کسی واقعے، قصے یا زندگی کے کسی ایک پہلو کو مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ناول کی طرح اس میں بھی حقیقت نگاری سے کام لیا جاتا ہے۔ اس میں بھی انسانی زندگی سے جڑے حقیقی مسائل یا پہلو کو پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سماجی مسائل کو بھی عیاں کیا جاتا ہے۔ ناول اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ ناول میں زندگی کے ہر پہلو کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں کئی واقعات آپس میں ملے ہوتے ہیں اور کردار بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں۔ جب کہ افسانہ زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی واقعے کو اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسی طرح مختصر کہانی ہونے کی وجہ سے اس میں کردار بھی کم ہوتے ہیں۔

اجزائے ترکیبی:

ناول کی طرح افسانے کے بھی اجزائے ترکیبی ہیں جنہیں فنی اعتبار سے اہم مانا جاتا ہے۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی ناول کے اجزائے ترکیبی سے ملتے جلتے ہیں لیکن ان میں تھوڑا فرق ہے اور افسانے کے اجزائے ترکیبی کا انداز الگ ہے۔ دیکھا جائے تو بعد میں افسانہ نگاری میں نئے رجحانات بھی آئے اور ایسے افسانے لکھے گئے جو پلاٹ، کردار، نقطۂ نظر اور وحدت تاثر وغیرہ جو افسانے کے اجزاءہیں ان سے خالی ہیں۔ یعنی بہت سے ایسے افسانے لکھے گئے جن میں پلاٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح بغیر مرکزی کردار کے بھی کہانیاں لکھی گئیں۔ نقطۂ نظر کو افسانے کے لیے نقصان دہ کہا گیا اور وحدت تاثر کے بارےمیں کہا گیا کہ اس کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح علامتی اور تجریدی افسانوں کا وجود ہوا جن میں ان اجزائے ترکیبی کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے جنہوں نے اس روایت کو اپنانے سے انکار کیا۔ بہر حال دیکھا جائے تو شروع کے افسانے اسی اجزائے ترکیبی پر مبنی ہیں اور آج بھی ان اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے افسانے لکھے جارہے ہیں جوکہ افسانے کے لیے بہت اہم ہیں۔ جو اجزائے ترکیبی اردو افسانوں میں رائج ہیں وہ پلاٹ، کردار، نقطۂ نظر، ماحول اور فضا، اسلوب، آغاز و اختتام اور وحدت تاثر ہیں۔

پلاٹ:

پلاٹ کہانی کی ترتیب کو کہتے ہیں۔یعنی افسانے میں جو بھی کہانی یا واقعہ پیش کرتے ہیں اس میں ترتیب کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسی ترتیب کے تحت افسانہ آگے بڑھتا ہے ۔ اسی کا نام پلاٹ ہے۔ ناول کی طرح افسانے میں بہت سے واقعات نہیں ہوتے بلکہ کسی ایک واقعہ یا پہلو کو پیش کیا جاتا ہے لیکن ان میں کئی اجزاء ہوتے ہیں جن سے کہانی تیار ہوتی ہے۔انہی اجزاء کو ترتیب کے ساتھ پیش کرنا پلاٹ کہلاتا ہے۔ افسانے میں غیر ضروری باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے کہانی میں جھول پیدا ہوتا ہے، رکاوٹ بھی پیدا ہوتی ہے اور قاری الجھن کا شکار بھی ہوتا ہے۔  اسی طرح افسانے کا پلاٹ سادہ اور آسان ہونا چاہیے تاکہ قاری کو اکتاہٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

دیکھا جائے تو جدید افسانہ نگاروں میں سے کئی افسانہ نگاروں نے بغیر پلاٹ کے افسانے لکھے۔ لیکن اس سے قاری کو الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں لوگوں نے اپنا رجحان بدلا اور پلاٹ کو اہمیت دی جانے لگی۔

کردار:

ناول کی طرح افسانے میں بھی کردار کے مختلف پہلوؤں کو دکھایا جاسکتا ہے، لیکن افسانے میں کہانی کا دائرہ محدود ہونے کی وجہ سے وہ کسی خاص پہلو کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کردار کے اہم پہلوؤں کو نمایاں کرکے افسانہ نگار اپنے مقصد کی باتیں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار کو کردار نگاری کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے اور سوچ سمجھ کر اسے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ قاری کے دل میں گھر کر سکے۔ کردار کا ارتقا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ ناول میں تو کردار کا ارتقا آسانی سے دکھایا جاسکتا ہے لیکن افسانہ کا دائرہ محدود ہونے کی وجہ سے کردار کا ارتقا دکھانا مہارت کا کام ہے۔ اس میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ کردار حالات کے ساتھ بدلتا رہے۔ یہی اچھا کردار مانا جاتا ہے۔

بعض نئے افسانہ نگاروں نے کردار کو اہمیت نہیں دی ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار نہیں ہوتے ہیں بلکہ صرف کہانی کے ذریعہ افسانہ آگے بڑھتا ہے۔

نقطۂ نظر:

افسانے میں نقطۂ نظر کی بڑی اہمیت ہے۔ دیکھا جائے تو ہر کوئی اپنا خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے اور اسی کو پیش کرنے کے لیے قلم کار لکھنا شروع کرتا ہے۔ اسی طرح افسانہ نگار کا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے افسانے میں پیش کرتا ہے۔ یہی نقطۂ نظر ہی پلاٹ اور کردار کی عمارت بھی کھڑی کرتا ہے۔ یعنی پلاٹ اور کردار اسی نقطۂ نظر یا مرکزی خیال کے اردو گرد گھومتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ نقطۂ نظر بہت زیادہ واضح اور نمایاں نہ ہو۔ بلکہ اشاروں کا سہارا لیا جائے۔ یعنی کوئی بھی مقصد کی بات کھل کر نہیں کی جاتی ہے بلکہ سب کچھ اشاروں میں بیان کیا جاتا ہے۔

ماحول اور فضا:

ماحول اور فضا بھی افسانے میں اہم مانا جاتا ہے۔ یعنی کہانی میں ماحول کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس سے پوری فضا سامنے آجاتی ہے۔ اس کے سہارے وہ اپنی کہانی لکھتا ہے اور اسی کے سہارے ماحول اور فضا کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں بھی اشاروں میں اس کی تصویر پیش کی جاتی ہے۔

اسلوب:

اسلوب اور انداز بیان کی اہمیت تو ہر صنف ادب میں ہے لیکن افسانے میں اسلوب کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے۔ یہاں تک کہ افسانے کی مقبولیت یا غیر مقبولیت کا دار و مدار اسی پر ہوتا ہے۔ چونکہ افسانے کا دائرہ بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کم لفظوں میں زیادہ بات کہہ دی جائے۔ اور ایسا انداز اپنایا جائے جس سے قاری کو پڑھ کر لطف آئے اور کسی بھی طرح کا الجھن اس کے اندر پیدا نہ ہو۔ اسی طرح افسانے میں سادگی اور دلکشی ہونا افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ افسانوں میں الفاظ، جملے یا فقرے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ افسانہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہو۔ بہر حال غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلوب اور انداز بیان افسانہ نگاری کے لیے ضروری ہے۔

آغاز و اختتام:

اس کا مطلب یہ ہے افسانہ ایسا ہو کہ کہانی شروع ہوتے ہی پڑھنے والا اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور دلچسپی سے پڑھتا جائے اور ساتھ ہی اس کے اندر یہ خواہش پیدا ہو کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اس طرح یہ خواہش آخر تک برقرار رہے۔ پھر جب افسانہ ختم ہو تو پڑھنے والے کے دل پر وہ ایک گہرا نقش چھوڑ جائے۔

وحدت تاثر:

افسانے میں وحدت تاثر کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ وحدت تاثر کا مطلب یہ ہے کہ افسانے سے قاری کے ذہن پر کوئی ایک ہی تاثر یا کیفیت گزرے۔ یعنی افسانے میں ایک ہی کیفیت کو دکھایا جاتا ہے۔ اگر خوشی کی کیفیت دکھائی جارہی ہے تو شروع سے آخر تک افسانے میں خوشی کی کیفیت کو ہی پیش کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں خوشی ہے ، کہیں غم اور کہیں ڈر وغیرہ۔

اردو افسانہ نگاری کی روایت:

اردو میں افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند، سجاد حیدر یلدرم اور راشد الخیری کے نام اہم ہیں۔کسی نے راشد الخیری کو ، کسی نے سجاد حیدر یلدرم کو اور بعض نے پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار مانا ہے۔ چونکہ یہ لوگ ایک ہی زمانے کے افسانہ نگار تھے اس لیے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار قرار پاتے ہیں۔ پریم چند نے دیہات کی زندگی، دیہات کے مسائل،سماجی مسائل اور عدل و انصاف وغیرہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے غریبوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اسی طرح سماجی برائیوں کو دور کرنے کی  کوشش کی ہے۔ سماج میں  بڑھتے ذات پات کے مسئلے کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں جب وطن کا جذبہ بھی نظر آتا ہے۔ بہر حال ان تمام موضوعات کو انہوں نے اپنے افسانے میں جگہ دی اور انہیں سادہ، سلیس اورعام فہم زبان میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے بہت سے افسانے لکھے۔ انہوں نے فنی اعتبار سے اردو افسانہ نگاری کی باقاعدہ روایت بھی قائم کی۔ان کا پہلا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ ہے جسے انہوں نے 1907ء میں لکھا۔محققین نے فنی اعتبار سے اسی افسانے کو اردو کا پہلا افسانہ مانا ہے۔ پھر 1908ء میں ان کا مجموعہ "سوز وطن" شائع ہوا۔ ان میں پانچ افسانے ہیں جو اصلاحی ہیں۔ لیکن حکومت نے ضبط کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوی مجموعے پریم پچیسی، خاک پروانہ، آخری تحفہ اور زادراہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے بہترین افسانوں میں کفن، عید گاہ، سوتیلی ماں، بڑے گھر کی بیٹی، نجات، پوس کی رات، طلوع محبت اور دو بیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

سجاد حیدر یلدرم پریم چند کے زمانے کے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا رجحان رومانیت کی طرف تھا۔ پریم چند خاص طور سے عورت اور اس کی محبت کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ "خیالستان" ہے اس میں ان کے روسی اور انگریزی افسانوں کے ترجمے ہیں اور خود ان کے بھی افسانے ہیں۔ اسی زمانے میں نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ نے بھی یلدرم کی رومانیت کی پیروی کی۔

ابتدائی افسانہ نگاروں میں اوپندر ناتھ اشک، سدرشن، سلطان حیدر جوشش، اعظم کریوی اور علی عباس حسینی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے افسانہ نگاری کی روایت میں حصہ لیا۔

1936ء کے بعد اردو افسانے کی روایت میں انقلاب آنا شروع ہوا۔ اس سال ایک افسانوی مجموعہ "انگارے" منظر عام پر آیا جس میں رشید جہاں، احمد علی، سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے افسانے شامل ہیں۔ اس میں حقیقت نگاری سے آگاہ کیا گیا ہے اور یہیں سے رومانیت سے بغاوت کا آغاز بھی ہوا۔

پھر جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اردو ادب زندگی اور سماج سے قریب آگیا. اس تحریک سے منسلک افسانہ نگاروں نے سماج اور معاشرے کو اپنا موضوع بنایا۔ سماجی نابرابری، نا انصافی اور ظلم و جبر اس وقت کے اہم موضوعات ہیں۔ اسی طرح مزدوروں اور کسانوں کو افسانے کا ہیرو بنایا گیا۔ بھوک، غریبی اور مظلوم طبقے کے مسائل کو ان افسانوں میں ابھارا گیا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، اختر انصاری اور ممتاز مفتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، غلام عباس، انتظار حسین، شوکت صدیقی اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے ترقی پسند کے اثر سے اردو افسانے لکھے۔ پھر جب تقسیم ہند، ہجرت اور فسادات کے انسانیت سوز واقعے پیش آئے تو ان افسانہ نگاروں نے ان حالات اور واقعات کو بھی اپنے افسانے کا حصہ بنایا۔ اس طرح تقسیم ہند اور فسادات پر بے شمار افسانے وجود میں آئے جن میں کرشن چندر کا افسانہ "ہم وحشی ہیں"، حیات اللہ انصاری کا شکست، کنگورے، منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ، عصمت کا جڑیں، انتظار حسین کا اجودھیا اور قرۃالعین حیدر کا جلا وطن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ان افسانہ نگاروں کے علاوہ رام لعل، جیلانی بانو، قاضی عبدالستار، اقبال متین اور رتن سنگھ وغیرہ اہم افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت کو فروغ عطا کیا۔

اس کے بعد اردو افسانے میں نئے نئے رجحانات آتے گئے اور افسانہ نگاروں نے اس روایت کو ہر اعتبار سے فروغ بخشا اور آج بھی اردو افسانے کی روایت قائم ہے۔ موجودہ دور میں  بہت سے افسانہ نگار ہیں جو نئے اور منفرد اور نئے تقاضے کے تحت افسانے لکھ رہے ہیں جس سے افسانہ نگاری کی روایت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                                                                          

Post a Comment

0 Comments