پیروڈی کی تعریف، خصوصیات اور تاریخ | Parody ki tareef, khususiyaat, aur tareekh

پیروڈی کی تعریف، خصوصیات اور تاریخ

پیروڈی کی تعریف :

لفظ پیروڈی یونانی لفظ ’’پیروڈیا‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا لغوی معنی ہے ’’جوابی نغمہ‘‘۔

اصطلاح میں پیروڈی اس منظوم یا نثری صنف کو کہتے ہیں جو کسی کے طرز تحریر کی نقل میں لکھی گئی ہو اور  اصل تحریر کے الفاظ اور خیالات کو اس طرح بدل دیا جائے کہ اس میں مزاحیہ رنگ پیدا ہوجائے۔ کبھی کبھی صرف ایک لفظ بدلا جاتا ہے اور بعض اوقات ایک حرف کی تبدیلی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض شاعری میں پورا ایک مصرع بھی بدل دیا جاتا ہے لیکن وزن اور بحر دونوں وہی ہوتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ اس کے معنی میں بھی تبدیلی لائی جاتی ہے۔

پیروڈی یا تحریف نگاری :

اردو میں پیروڈی کو ’’تحریف‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جامع اللغات میں تحریف کے معنی ہیں بدل دینا، تحریر میں اصل الفاظ بدل کر کچھ اور لکھ دینا۔ لفظوں کے معنی ترجمہ کرنے میں ارادی طور پر اصل معنوں سے مختلف کرنا۔ یعنی اس میں اصل لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ فٹ کرکے صورتحال کو الٹ دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اس کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’پیروڈی یا تحریف کسی تصنیف یا کلام کی ایسی نقالی کا نام ہے جس سے اس تصنیف یا کلام کی تضحیک ہوسکے۔ اپنے عروج پہ اس کا منتہا ادبی یا نظریاتی خامیوں کو منظر عام پر لانا ہوتا ہے۔‘‘

مزاحیہ تنقید :

بعض لوگوں نے پیروڈی کو مزاحیہ تنقید مانا ہے جیساکہ کنھیا لال کپور نے اسے مزاحیہ تنقید کی سب سے مشکل صنف خیال کیا ہے اور پیروڈی لکھنا کتنا مشکل کام ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’اچھی پیروڈی لکھنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔‘‘

پیروڈی شاعری یا نثر میں :

پیروڈی شاعری میں بھی ہوتی ہے اور نثر میں بھی۔  لیکن شروع میں شاعری میں پیروڈی کا استعمال کیا گیا اور شاعری میں اس کا استعمال زیادہ ہوا ہے۔ اس کے بعد نثر میں بھی پیروڈی نگاری کا رجحان پیدا ہوا اور بہترین پیروڈیاں لکھی گئیں۔ اس کی بہترین مثال ابن انشا کی کتاب ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ ہے جو مکمل پیروڈی پر مبنی ہے۔ اس میں قدم قدم پر پیروڈی کی مثالیں موجود ہیں۔ اس کے ذریعہ ابن انشا نے اپنے ملک و عہد کی مختلف ناہمواریوں اور خرابیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

پیروڈی کے شرائط :

بہر حال پیروڈی کے لیے ضروری یہ ہے کہ جس تصنیف ، شاعری یا تحریر کی پیروڈی کی جارہی ہو وہ مشہور اور اعلیٰ درجہ کی ہو کیونکہ پیروڈی اصل میں نقل ہے اور نقل کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے، اس سے لطف اٹھایا جاسکتا ہے جب اصل کو ہم جانتے ہوں اور وہ کافی مشہور ہو۔ یعنی پیروڈی کسی معروف و مشہور تحریر یا شاعری کی جاتی ہے تاکہ پڑھتے ہی قاری کا ذہن خود بخود اصل فن پارے کی طرف چلا جائے۔ جیساکہ ڈاکٹر خالد مبشر  غالبؔ کی مشہور غزل کی لفظی پیروڈی یوں کرتے ہیں:

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

لگتا مرا باپ بھی بچہ مرے آگے


ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

بیوی مرے پیچھے تو لیلیٰ مرے آگے

 

میں جب بھی کروں فون اٹھائے وہی بڈھا

ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے

 

گو ہاضمہ کمزور ہے دانتوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی قیمہ و قرمہ مرے آگے

اسی طرح ابن انشا کی غزل کی سعدیہ حریم نے یوں پیروڈی کی ہے:

ابن انشا:

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں

ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ ترا

سعدیہ:

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں

ہر شخص کرتا ہے طلب بھولا ہوا قرضہ ترا

پیروڈی کے دائرے :

پیروڈی کا دائرہ صرف مزاح اور ہنسنے ہنسانے تک محدود نہیں ہے بلکہ لطیف طنز اور پر مزاح تنقید کے ذریعہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی وغیرہ کمیوں ، کوتاہیوں، خامیوں اور زندگی کی تمام تر خرابیوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ اصلاح کی جاتی ہے۔ بلکہ پیروڈی میں اسی اصلاح کو ہی اولیت حاصل ہے اور اصلاح کے ساتھ تفریح کا سامان بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں اسے مقبولیت حاصل ہے۔ آل احمد سرور پیروڈی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’وہ آئینہ ہے جو محبوب کی جھریاں دکھاتا ہے‘‘

دیکھا جائے تو عام طور پر پیروڈی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک لفظی اور دوسری معنوی پیروڈی۔

لفظی پیروڈی :

لفظی پیروڈی میں صرف لفظوں کے ہیر پھیر اور رد و بدل سے کام لیا جاتا ہے اور اس کا اصل مقصد تفریح ہوتا ہے۔ اور اسی تحریر یا شاعری کی پیروڈی کی جاتی ہے جو معروف و مشہور ہو۔

معنوی پیروڈی :

معنوی پیروڈی میں الفاظ میں ترمیم کے ساتھ اصل تخلیق کی معنویت پر زور ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی و سماجی کمیوں اور خامیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پیروڈی کی تاریخ

پیروڈی اور اودھ پنچ :

پیروڈی کے اولین نقوش  ’’اودھ پنچ‘‘ میں لکھے جانے والے اشعار میں نظر آتے ہیں۔ ان میں جو پیروڈیوں کے نقوش ملتے ہیں وہ اصلاحی نہیں ہیں بلکہ ان پیروڈیوں میں تفریح اور تضحیک زیادہ ہے۔ لیکن باقاعدہ اردو شاعری میں پیروڈی کو رواج دینے والے پنڈت تربھون ناتھ ہجر، رتن ناتھ سرشار اور اکبر الٰہ آبادی ہیں جنہوں نے ’’اودھ پنچ‘‘ کے رسالے میں پیروڈی کے بہترین نمونے پیش کیے۔

تربھون ناتھ ہجر کی پیروڈی نگاری :

پنڈت تربھون ناتھ ہجر کو سرشار ثانی بھی کہتے ہیں۔ سرشار کی طرح انہوں نے بھی لکھنئو کی بری عادتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ  انہوں نے مغربی پیروڈی کے طریقے پر پیروڈی لکھنے کی روایت قائم کی۔ ان کو پیروڈی پر کافی مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے اپنے عہد کی اقتصادی بدحالی کی تصویر کشی بھی کی ہے اور تفریحی مقصد کے تحت بھی پیروڈی کی ہے۔

پنڈت رتن ناتھ سرشار کی پیروڈی نگاری :

پنڈت رتن ناتھ سرشارکی پیروڈیاں بھی فنی اعتبار سے بہت عمدہ ہیں۔ اسی طرح اکبر الٰہ آبادی  نے بھی اپنے مخصوص فکری انداز میں پیروڈی کی ہے۔ ان کی پیروڈیاں اصلاحی ہوتی ہیں۔ ان کے سامنے قوم، مذہب اور مغربی تہذیب زیادہ ہوتی ہے۔ انہی کو مد نظر رکھ کر اکبرالٰہ آبادی نے پیروڈی کی ہے اور قاری کو غور و فکر کرنے کی طرف مائل کیا ہے۔

آزادی کے بعد پیروڈی کی روایت :

آزادی کے بعد اردو پیروڈی کو تیزی سے فروغ حاصل ہوا۔یہی نہیں بلکہ آزادی کے بعد کے دور کو پیروڈی کی تاریخ کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دور کنھیا لال کپور ، قاضی غلام محمد،عاشق محمد غوری، سید محمد جعفری، فرقت کاکوروی، مجید لاہوری، رضا نقوی واہی اور شوکت تھانوی وغیرہ کا دور ہے۔ اس طرح اس دور میں اور اس کے بعد پیروڈی کی شعری و نثری تخلیقات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

کنہیا لال کپور :

کنہیا لال کپور نے کئی کامیاب پیروڈیاں کی ہیں جن میں فیض کی مشہور نظم ’’تنہائی‘‘کی پیروڈی ’’لگائی‘‘ قابل ذکر ہے۔ اسی طرح مجاز کی نظم ’’آوارہ‘‘ کے چند بندوں کی پیروڈی ’’حالی ترقی پسند ادیبوں کی محفل میں‘‘ میں بہتر انداز میں کی ہے۔کنہیا لال کپور کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے شاعروں کے نام کی بھی پیروڈی کی ہے۔ مثلاً میراجی کا نام ’’ہیراجی‘‘ اور فیض احمد فیض کا نام ’’غیض احمد غیض‘‘۔ اس طرح انہوں نے مختلف شاعروں کی شاعری کی لفظی الٹ پھیر کے ذریعہ کامیاب پیروڈی کی ہے۔

مسٹر دہلوی :

مسٹر دہلوی نے نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ کو عصری مسائل اور تقاضوں سے جوڑتے ہوئے اپنی پیروڈی میں سائنس کی کمیوں کو دکھایا ہے اور شاعر، مولوی، افسر، لیڈر اور انجینئر وغیرہ کوخبردار کیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ نظیر نے اپنی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کو موضوع بنایا ہے۔ نظیر اسی کو عصری مسائل کے مدنظر وسعت دیتے ہیں۔

قاضی غلام محمد :

قاضی غلام محمد اپنی تصنیف ’’حر ف شیریں‘‘ کی وجہ سے بے حد مقبول ہیں۔ اس میں ان کی قیمتی پیروڈیاں شامل ہیں۔ انہوں نے جذبی کی نظم ’’موت‘‘، اقبال کی نظم ’’پیری اور مریدی‘‘اور  نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’نیا آدمی نامہ‘‘ وغیرہ کی بہترین پیروڈی کی ہے۔ان کے یہاں جدت اور تنوع ہے۔

عاشق محمد غوری :

عاشق محمد غوری کی پیروڈی میں بھی تنوع ہے۔ عاشق محمد غوری صرف ایک پیروڈی نگار کی حیثیت سے ہی جانے جاتے ہیں۔ان کی لفظی پیروڈیاں کمال کی ہیں۔ ان کی بہترین پیروڈیاں اختر شیرانی کی نظم ’’اودیس سے آنے والے بتا‘‘، اقبال کی ’’ہمدردی‘‘ اور صادق قریشی کی نظم سلمیٰ کی پیروڈی ’’کتا‘‘ قابل ذکر ہیں۔

سید محمد جعفر :

سید محمد جعفری اور راجہ مہدی علی خاں کی پیروڈیاں بھی اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے کافی اہم ہیں ۔ ان کے علاوہ اس عہد کا ایک بڑا نام فرقت کاکوروی کا ہے جن کی پیروڈیوں کا بہترین مجموعہ ’’مداوا‘‘ ہے۔ ناتمام، کبابی، رخسار اور محرومی ان کی بہترین پیروڈیاں ہیں۔

مجید لاہوری :

مجید لاہوری نے بھی اس کی روایت میں اضافہ کیا۔ ان کی پیروڈیوں میں طنز بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نےسماجی مسائل اور زندگی کی مختلف ناہمواریوں اور کھوکھلے معاشرے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے نظیر کی نظم ’’آدمی نامہ‘‘، اقبال کی نظم ’’فرمان خدا‘‘ وغیرہ کی بہترین پیروڈی کی ہے۔

شوکت صدیقی :

طرح شوکت تھانوی کی پیروڈیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے نظم و نثر دونوں میں پیروڈیاں کیں۔

فرقت کاکوروی اور دیگر پیروڈی نگار :

فرقت کاکوروی نے زیادہ تر ترقی پسند شاعری اور آزاد و معرا نظموں کی پیروڈی کی ہے اور ان نظموں پر طنز کیا ہے۔ ان کے علاوہ ماچس لکھنوی، صادق مولیٰ، دلاور فگار، گوپی ناتھ امنؔ، مشتاق یوسفی، سید ضمیر جعفری، مضطر مجاز وغیرہ نے بھی بہترین پیروڈیاں کیں۔

آج بھی پیروڈیاں کی جارہی ہیں اور عہد حاضر کے پیروڈی نگاروں میں اسرار جامعی، ظفر کمالی،مناظر عاشق ہرگانوی وغیرہ قابل ذکر ہیں جنہوں نے پیروڈی نگاری کی روایت میں اہم اضافہ کیا۔

بہرحال یہ وہ پیروڈی نگار ہیں جنہوں نے منظوم پیروڈیاں کیں۔

نثر میں پیروڈی نگاری :

نثر کے حوالے سے دیکھا جائے تو نثری پیروڈی کی روایت بھی طویل ہے۔ اس سلسلے میں پطرس بخاری، ملا رموزی، کنہیا لال کپور، فرقت کاکوری، ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، شوکت تھانوی، فکر تونسوی، احمد جمال پاشا، ابن انشا، انور سدید، ظفر کمالی اوریوسف ناظم وغیرہ کافی اہم نام ہیں جنہوں نے اپنےمنفرد اسلوب اور اپنی فکر کے ذریعہ اردو کی نثری پیروڈی نگاری میں گراں قدر اضافہ کیا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                                                                          

Post a Comment

0 Comments