آزادی کے بعد اردو افسانہ | Aazadi ke baad urdu afsana

آزادی کے بعد اردو افسانہ

            آزادی کے بعد اردو افسانہ  کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ آزادی سے پہلے اردو افسانے کا دائرہ تکنیک اور موضوع کے لحاظ سے کافی وسیع ہوچکا تھا اور اردو افسانہ اپنے عروج پر تھا۔ جب ہندوستان آزاد ہوتا ہے تو نئی امنگیں لانے کے بجائے یہ آزادی ہندوستان کا نقشہ بدل دیتی ہے۔ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور ہجرت کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس تقسیم سے جو مسائل سامنے آئے اس نے ملک کے لوگوں کی آرزؤں کو چکنا چور کردیا۔ آزادی تو ملی لیکن وہ آزادی ملک کےلوگوں کے لیے خوشیاں نہ لاسکی۔ آزادی ملتے ہی اور ملک تقسیم ہوتے ہی ملک میں ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔انسانوں کا قتل عام ہوا، عورتوں کو اغوا کیا گیا، ان کی عزتیں لوٹی گئیں اور ہزاروں گھر تباہ  و برباد ہوگئے۔ ان حالات نے افسانہ نگاروں کے ذہن اور ضمیر  کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس لیے اس وقت کے تقریباً تمام افسانہ نگاروں نے تقسیم ہند، فسادات اور دیگر پیدا شدہ مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

            اس وقت پورا ملک مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ منافرت میں لپٹا ہوا تھا۔ایسے میں فساد جیسے موضوعات پر لکھنا ایک قلم کار کے لیے بہت مشکل، صبر اور آزمائش کا کام تھا۔ اس وقت پورا ملک دو فرقوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لیے ان حالات کو موضوع بنانا سب سے بڑی آزمائش تھی کیونکہ ایک تو لکھنے والے ہندو، مسلم اور سکھ تینوں تھے اور سارے فرقے کے لوگوں نے اپنے علاقوں میں بے پناہ ظلم ڈھائے۔ اور ایسے فنکار بھی تھے جو فسادات اور ان حالات سے متاثر بھی ہوئے تھے۔ ان کا بھی سب کچھ برباد ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود ان افسانہ نگاروں نے جب فسادات پر لکھنا شروع کیا تو انہوں نے ایک عام انسانی نقطۂ نظر اختیار کیا اور جو کچھ بھی انہوں نے لکھا وہ ایک ہندو، مسلم یا سکھ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام اور دردمند انسان کی حیثیت سے۔ ان افسانہ نگاروں نے ہر فرقے کے افراد کو یکساں طور پر ظالم اور مظلوم کو دکھایا اور دردمندی اور انسانی ہمدردی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی انسانیت، امن و امان اور اتحاد کا پیغام دیا ہے۔

دیکھا جائے تو فسادات پر لکھنے والے افسانہ نگار زیادہ تر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ حالانکہ اس وقت کے تقریباً تمام افسانہ نگاروں نے چاہے ان کا تعلق ترقی پسند سے رہا ہو یا نہ رہا ہو تقسیم کے بعد کے واقعات اور فسادات کو موضوع بنایا۔اور سبھی نے ایمانداری کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ اس وقت جن افسانہ نگاروں نے تقسیم ہند، فسادات اور اس سے متعلق تمام واقعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ان میں کرشن چندر، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، قرۃ العین حیدر، عصمت، عزیز احمد، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، سہیل عظیم آبادی، خواجہ احمد عباس، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، رام لعل، صالحہ  عابد حسین اور انتظار حسین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

            ان افسانہ نگاروں نے ظلم اور بربریت کی مذت کی اور جو کچھ لکھا وہ انسانیت کی بقا کے لیےلکھا۔ انہوں نے کسی خاص فرقے کو ظالم نہیں دکھایا بلکہ انہوں نے توازن قائم رکھا۔ اس سلسلے میں کرشن چندر کا کامیاب افسانہ "پشاور ایکسپریس" قابل ذکر ہے جس میں دونوں ملکوں میں ہونے والے ظلم کو پر اثر اور متوازن طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ افسانہ "جانور"اور "ہم وحشی ہیں" بھی اسی موضوع کے حامل ہیں۔ اسی طرح فسادات پر لکھے گئے کامیاب افسانوں میں منٹو کے "کھول دو، شریفن، ٹھڈا گوشت، راجندر سنگھ بیدی کا لاجونتی، خواجہ احمد عباس کا انتقام، اجنتا، عزیز احمد کا کالی رات، ممتاز مفتی کا گھور اندھیرا،  احمد ندیم قاسمی کا میں انسان ہوں، حیات اللہ انصاری کا شکر گزار آنکھیں، ماں بیٹی ،سہیل عظیم آبادی کا  اندھیارے میں ایک کرن، عصمت چغتائی کا جڑیں اور قدرت اللہ شہاب کا یا خدا وغیرہ افسانے کافی اہم ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنے فکر و نظر اور اسلوب کے ذریعہ فسادات کے مختلف پہلوؤں کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے انسانیت پر زور دیا ہے تو کسی نے انسانوں کی حیوانیت کو دکھایا  ہے۔ خاص طور سے عورتوں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم کو افسانوں میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں منٹو کا "کھول دو" اور قدرت اللہ شہاب کا "یاخدا" اہم ترین افسانے ہیں۔

            فسادات سے متعلق ایسے افسانے بھی ہیں جن میں یہ دکھایا گیا ہے کہ نفرت کی اس تاریکی میں محبت اور انسانیت کی روشنی بھی موجود تھی۔ یعنی ان فسادات میں کچھ ہندو، مسلم اور سکھ نے ایک دوسرے کے لیے اور انسانیت کی بقا کے لیے قربانیاں بھی پیش کیں۔ اس سلسلے میں خواجہ احمد عباس نے سردار جی اور سہیل عظیم آبادی نے اندھیارے میں ایک کرن وغیرہ لکھ کر انسانیت کی مثال پیش کی ہے۔

            بہر حال اس طرح فسادات اور ہجرت پر بے شمار افسانے لکھے گئے اور یہ سلسلہ 1950ء تک چلتا رہا۔ یعنی تقریباً تین سال تک اردو افسانے پر فسادات کا اثر رہا اور کچھ نہ کچھ لکھا گیا۔ پھر جب یہ طوفان گزر گیا اور اس کے برے اثرات پیدا ہونے شروع ہوئے تو افسانہ نگاروں نے فسادات کے واقعات کو موضوع بنانے کے بجائے اب انہوں نے اپنی  نظر آس پاس کی زندگیوں پر ڈالی۔ آزادی کے بعد انسانی زندگی میں اور ملک میں بہت سی تبدیلیاں آچکی  تھیں، ان تبدیلیوں کے ساتھ افسانہ نگاروں کے فکر و فن میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ آزادی سے پہلے لکھنے والے افسانہ نگاروں میں منٹو ، کرشن چندر، بیدی، عصمت، احمد ندیم قاسمی، حیات اللہ انصاری، سہیل عظیم آبادی، قرۃ العین حیدراور خواجہ احمد عباس وغیرہ  اہم نام ہیں جن کے یہاں آزادی کے بعد فکر و فن دونوں میں تبدیلیاں آئیں۔

            سعادت حسن منٹو :

منٹو کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد ان کے فکر و شعور میں بڑی تبدیلی آئی۔ منٹو سماج اور زندگی کی حقیقتوں کو موضوع بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں آزادی سے پہلے کا ان کا انداز منفی نظر آتا ہے اور وہ زندگی کی برائیوں کو اورتلخ حقیقتوں کو بڑی بے باکی سے پیش کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد اسی موضوع کو وہ مثبت پہلو سے دیکھتے ہیں اور ان کے یہاں زندگی کا مثبت فلسفہ نظر آتا ہے۔

کرشن چندر :

            منٹو کی طرح کرشن چندر کے یہاں بھی انسان کے تصور میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ خاص کر انہوں نے انسان کے بنیادی مسائل پر نظر ڈالی ہے۔ حالانکہ آزادی سے پہلے بھی انہوں نے انسانی دکھ درد، غربت، معاشی تنگی اوردیگر معاشرتی مسائل کو موضوع بنایا ہے، لیکن آزادی کے بعد ان کے موضوع اور فن میں اور مضبوطی آئی۔ آزادی کے بعد انسان کے بنیادی مسائل پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ان افسانوں میں اس ترقیاتی اور سائنسی دور میں بھی ہزاروں لاکھوں  لوگ فٹ پاتھ پر بھوکے زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح اب وہ خواب بھی دکھاتے ہیں کہ کوئی غریب نہ ہوگا، انسانیت کا راج ہوگا۔ کرشن چندر نے تکنیک کے بھی بہت تجربے کیے اور پلاٹ و کردار نگاری میں بھی نیا انداز اختیار کیا۔

راجندر سنگھ بیدی :

اسی طرح راجندر سنگھ بیدی نے بھی انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں بھی آزادی کے بعد تبدیلی نظر آتی ہے۔ آزادی کے بعد انہوں نے جنس نگاری کی طرف بھی اپنا رجحان بنایا لیکن وہ بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ بیدی کا خاص موضوع عورت کی زندگی ہے۔ وہ اس کے مختلف پہلوؤں کو دکھاتے ہیں۔ خاص کر انہوں نے عورت کی مظلومیت اور اس کے دکھ درد کو پیش کیا ہے۔ "اپنے دکھ مجھے دے دو"اس کی بہترین مثال ہے۔

عصمت چغتائی :

عصمت کےیہاں سماجی حقیقت نگاری کا میلان زیادہ نظر آتا ہے۔ عصمت گھریلو مسائل اور گھریلو زندگی کے دکھ درد اور غموں کےبیان کے ذریعہ پورے سماج اور معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ خاص کر ان کے افسانوں میں متوسط طبقہ نظر آتا ہے جو آزادی کے بعد معاشی تنگی سے دوچار ہوتا ہے۔ اس معاشی بدحالی کی وجہ سے گھریلو زندگی میں جو تلخیاں پیدا ہوگئی تھیں عصمت نےاسے اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے میں افسانہ "چوتھی کا جوڑا "اس حقیقت نگاری کا کامیاب نمونہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے سماج کے نچلے طبقے کی زندگی کے مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے میں افسانہ ’’دو ہاتھ‘‘ قابل ذکر ہے۔

اختر اورینوی :

اسی طرح اختر اورینوی نے آزادی کے بعد انسانی زندگی کے مختلف مسائل کو پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں فکر و فن میں زیادہ تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے علامت نگاری سے بھی کام لیا ہے جس میں انہیں حد درجہ کامیابی ملی۔ ’’سپنوں کے دیس میں‘‘ان کا بہترین افسانوی مجموعہ ہے۔

احمد ندیم قاسمی :

احمد ندیم قاسمی نےآزادی کے بعد کے مختلف حالات و مسائل کو پیش کیا ہے۔ خاص کر انہوں نے تہذیبی، ذہنی اور معاشرتی انتشار کو فن کارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت کو بھی موضوع بنایا ہے جو آزادی کے بعد منتشر نظر آتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان جس ذہنی انتشار کا شکار ہوا اسے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کے لوگوں کے اندر مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوگئی تھی۔ لوگوں کے اندر تنہائی اور اجنبی پن کا احساس پیدا ہوچکا تھا۔ قرۃ العین حیدر نےاس کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد و کرب کو دکھایا ہے۔

انتظار حسین :

انتظار حسین نے بھی اسی تہذیب کے المیے کو دکھایا ہے۔ ان کے نزدیک دولتیں تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن تقسیم ہند نے جس تہذیبی ورثہ سے محروم کر دیا وہ دوبارہ ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے مشرکہ تہذیب کے بکھرنے کا ماتم بہت درد بھرے انداز میں کیا ہے۔ اسی طرح اس وقت کے دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی موضوع اور تکنیک کے نئے تجربے ملتے ہیں جن کے ذریعہ اردو افسانے کی روایت میں وسعت پیدا ہوئی۔

نئی نسل کے افسانہ نگار :

اس کے بعد جو نئی نسل اردو افسانہ نگاری میں قدم رکھتی ہے اس میں واجدہ تبسم، جیلانی بانو، شوکت صدیقی، اشفاق احمد اور قاضی عبدالستار وغیرہ اہم ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اردو افسانے میں نئے نئے گوشے نکالے اور تکنیک کے بھی نئے نئے تجربات کے ذریعہ اردو افسانہ نگاری کی روایت میں اضافہ کیا۔ ان افسانہ نگاروں نے بھی حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ انہوں نے انسانی ذہن کے انتشار اور لوگوں کی نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ سماجی، معاشرتی، علاقائی اور گھریلو زندگی کے بے شمار مسائل کو موضوع بنایا ہے۔انہوں نے منفرد اسلوب اور جدید فنی تجربات کا بھی سہارا لیا ہے۔ پھر آگے چل کر علامتی اور تجریدی افسانے کا رجحان بھی بڑھا اور اسے پروان بھی چڑھایا گیا۔ اس طرح آج بھی اردو افسانے میں نئے نئے مسائل اور موضوعات کو شامل کرکے اس کے دامن کو وسیع کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی نئے فنی تجربات بھی ہورہے ہیں۔ آج افسانہ نگاورں کی ایک بڑی تعداد ہے جو وقت کے تقاضوں کے مدنظر  مختلف حقیقتوں کو سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments