آزادی کے بعد اردو ناول | Aazadi ke baad urdu novel

 آزادی کے بعد اردو ناول

تقسیم ہند /             آزادی   کے بعد  اردو ناول نگاری کو مزید ترقی کرنے کا موقع ملا۔ جب ملک آزاد ہوا تو بہت سے مسائل پیش آئے جنہیں ناول نگاروں نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آزادی ملتے ہی ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور پھر اس تقسیم کے نتیجے میں ہجرت کا معاملہ سامنے آیا۔ اس کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور بے شمار لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ اس منظر کو دیکھ کر اردو ناول نگاروں نے انسانیت کی بقا کے لیے اپنا قدم آگے بڑھایا اور ان سے متعلق  موضوعات پر ناول لکھنا شروع کیا۔ تقسیم ہند اور فسادات پر لکھنے والے ناول نگاروں میں راما نند ساگر، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، عبداللہ حسین، کرشن چندر، حیات اللہ انصاری، انتظار حسین، جمیلہ ہاشمی، قدرت اللہ شہاب، عبد الصمد اور ظفر پیامی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے تقسیم ہند کے اسباب و نتائج اور مسائل کی عکاسی بہت بہتر انداز میں کی ہے۔ انہوں نے ہجرت کے دوران ہونے والے مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کی عکاسی کی ہے۔ ساتھ ہی زوال پذیر مشترکہ تہذیب کو دکھایا ہے۔

   رامانند ساگر :

تقسیم ہند کے پس منظر میں سب سے پہلے راما نند ساگر نے ناول ’’اور انسان مر گیا‘‘ لکھا۔ اس میں لاہور اور امرتسر کے فرقہ وارانہ فسادات کو پیش کیا گیا ہے اور ہندو مسلم قوموں کے درمیان فساد ات نے جو انتشار اور بے چینی پیدا کی تھی اسے بہت عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

قرۃ العین حیدر :

تقسیم ہند کے تناظر میں قرۃ العین حیدر نے بھی کئی ناول لکھے۔ ان کے ناولوں میں ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ اور ’’آگ کا دریا‘‘ کافی اہم ہیں۔ان میں انہوں نے تقسیم ہند اور ہجرت کے متعلق مختلف مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

کرشن چندر :

کرشن چندر جو اردو فکشن کی تاریخ میں منفرد پہچان رکھتے ہیں انہوں نے بھی تقسیم ہند ، ہجرت  اور فسادات پر کئی کامیاب اور بہترین ناول لکھے۔ اس موضوع پر  ان کا سب سے بہترین ناول ’’غدار ‘‘ ہے۔ اس میں انہوں نے تقسیم ہند، ہجرت اور فسادات کے خوفناک مناظر کو پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر ان کے دوسرے ناول ’’مٹی کےصنم‘‘ اور ’’میری یادوں کے چنار‘‘ بھی کافی اہم ہیں۔

خدیجہ مستور :

ان کے علاوہ خدیجہ مستور نے بھی ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے دو ناول لکھ کر تقسیم ہند کے اسباب اور نتائج کو پیش کیا ہے۔ ان دونوں ناولوں میں ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، تہذیبی بحران اور سیاسی و معاشرتی زوال کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

دیگر ناول نگار:

اسی طرح عبداللہ حسین نے ’’اداس نسلیں‘‘ لکھ کر تقسیم ہند، ہجرت اور فسادات کے دردناک واقعات کو پیش کیا ہے۔ شوکت صدیقی نے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا ہے۔ اس میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں آنے والے اس تقسیم کے برے نتائج  کو پیش کیا گیا ہے۔ اقتصادی مسائل، بھوک، افلاس، بے روزگاری وغیرہ کی صورت حال کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

اسی طرح تقسیم ہند اور اس کے بعد کے مسائل پر جمیلہ ہاشمی نے ’’تلاش بہاراں‘‘، حیات اللہ انصاری نے ’’لہو کا پھول‘‘، انتظار حسین نے ’’چاند گہن‘‘، کشمیری لال ذاکر نے ’’کرماں والی‘‘، ظفر پیامی نے ’’فرار‘‘، عبدالصمد نے ’’دو گز زمین‘‘، قدرت اللہ شہاب نے ’’یاخدا‘‘ وغیرہ ناول لکھ کر اردو ناول لکھ کر اس روایت میں قیمتی اضافہ کیا۔

آزادی کے بعد اردو ناول میں نئے رجحانات و مسائل :

بہرحال اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد ابتدائی ناولوں میں تقسیم ہند، ہجرت ، فسادات  اور اس کے نتیجے میں ٹوٹتی بکھرتی گنگا جمنی تہذیب وغیرہ اردو ناولوں کا حصہ بنے۔ پھر رفتہ رفتہ ناول میں نئے نئے رجحانات اور نئے نئے موضوعات کو شامل کیا جانے لگا۔ سماجی زندگی، سیاسی صورت حال، مٹتی ہوئی پرانی تہذیب کی ایسی تصویر پیش کی گئی  جس میں معاشرتی کرب، دکھ درد، طرز زندگی، انداز فکر کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی طرح موضوعاتی طور پر تبدیلیوں کے ساتھ اسلوب اور فن میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ گویا آزادی کے بعد کے اردو ناولوں میں موضوعاتی اور فنی دونوں اعتبار سے تبدیلیاں آئیں اور اردو ناول  کو نئی راہ ملی۔

آزادی  کے بعد کے ناول نگاروں میں مذکورہ ناول نگاروں کے علاوہ بھی کئی ناول نگار ہیں جنہوں نے مختلف انسانی مسائل کو ناول کا حصہ بنایا۔ اور پھر بعد کی نسلوں نے بھی اردو ناول نگاری میں حصہ لے کر اسے جدید رجحانات سے مالامال کیا۔

عزیز احمد :

آزادی کے بعد کے ناول نگاروں میں عزیز احمد کانام بھی کافی اہم ہے۔ ہوس ، گریز، ایسی بلندی ایسی پستی  اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ان کے مشہور ناول ہیں۔ ان کے ناولوں کے موضوعات ، فکر و خیال میں نئی بلندی اور نیا رنگ ہے۔ اسی طرح آزادی کے بعد قرۃ العین حیدر نے اردو ناول کو فکری بلندی عطا کی۔ ان کے ناولوں میں ہجرت کے علاوہ وقت کا جبر، انسان کی بے چارگی، تنہائی اور احساس ناکامی وغیرہ اہم موضوعات ہیں۔ مذکورہ ناولوں کے علاوہ ان کے ناول آخر شب کے ہم سفر اور کار جہاں دراز ہے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

عصمت چغتائی :

اسی طرح عصمت چغتائی نے بھی آزادی کے بعد کئی ناول لکھے ۔ ان کے موضوعات میں مسلمان متوسط  طبقے کی معاشی بدحالی، عورتوں کی بے بسی، سماجی زندگی، غریبوں کی زندگی اور جنس وغیرہ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ آزادی کےبعد لکھے گئے ان کےناولوں میں معصومہ، دل کی دنیا، جنگلی کبوتر اور ایک قطرہ خون قابل ذکر ہیں۔

دیگر ناول نگار :

آزادی کے بعد لکھے گئے ناولوں میں احسن فاروقی کاناول ’’شام اودھ‘‘، اختر اورینوی کا ’’حسرت تعمیر‘‘، ممتاز مفتی کا ’’علی پور کا ایلی‘‘، راجندر سنگھ بیدی کا ’’ایک چادر میلی سی‘‘ ، بلونت سنگھ کا رات، چور اور چاند، کرشن چندر کے جب کھیت جاگے اور طوفان کی کلیاں، قاضی عبدالستار کا شب گزیدہ، جیلانی بانو کا ایوان غزل، صالحہ عابد حسین کے راہ عمل، اپنی اپنی صلیب، انتظار حسین کا بستی، بانو قدسیہ کا راجہ گدھ، جوگیندر پال کا نادید وغیرہ ایسے ناول ہیں جن میں مختلف سیاسی، سماجی و معاشرتی حالات نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے ناول لکھے گئے جن میں موضوعات کی رنگارنگی ہے۔ انسانی زندگی، زندگی کی محرومیوں، نچلے طبقے کی زندگی، متوسط طبقے کی معاشرتی زندگی،غربت، بھوک، جنس، تہذیب، سیاست غرضیکہ تقسیم ہند کے بعد ان تمام انسانی مسائل اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ آزادی کے بعد جو سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی تبدیلیاں آئیں اردو ناول نگاروں نے انہیں اپنے ناولوں کا حصہ بنایا۔ غرضیکہ آزادی کے بعد اردو ناول کو منفرد اور نیا راستہ  ملا ۔ اس طرح موضوعاتی اور فنی دونوں اعتبار سے اردو ناول کو کافی فروغ حاصل ہوا۔

Post a Comment

0 Comments