اردو ناول کی تاریخ | Urdu novel ki taareekh

 اردو ناول کی تاریخ کا ابتدائی دور

ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری :                

    اردو میں ناول نگاری کی روایت  انگریزی ادب کے اثر سے قائم ہوئی۔ اردو میں ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد نے کیا۔ان کا پہلا ناول ’’مراۃ العروس‘‘ ہے جسے انہوں نے ۱۸۶۹ء میں لکھا۔ اس ناول میں دو بہنوں اصغری اور اکبری کا قصہ ہے۔ فنی اعتبار سے اس ناول میں کچھ خامیاں ہیں لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نذیر احمد نے اردو میں ناول کا پہلا نمونہ پیش کیا۔ اس لیے اس میں پائی جانے والی خامیوں کو نظر انداز کرکے دیکھنا چاہیے۔

اس ناول میں ایک شریف مسلمان خاندان کی گھریلو زندگی کا حال بیان کیا گیا ہے۔ خاص کر انہوں نے اسے اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے مقصد سے لکھا تھا۔  اس سے عورتوں کی تعلیم، ان کے سلیقے اور خانہ داری کے متعلق بہت نصیحتیں ملتی ہیں۔

نذیر احمد نے اس کے علاوہ بھی کئی کامیاب ناول لکھے ۔ بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت، رویائے صادقہ، محصنات اور ایامیٰ ان کے بہترین ناول ہیں۔ دیکھا جائے تو تقریباً ان کے تمام ناول اصلاحی ہیں اور خاص کر انہوں نے مسلم معاشرے کی اصلاح کو موضوع بنایا ہے۔

رتن ناتھ سرشار  کی ناول نگاری:

نذیر احمد کے بعد پنڈت رتن ناتھ سرشار نےنے ناول نگاری میں حصہ لے کر اس کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کا سب سے مشہور ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ ہے۔ اس میں انہوں نے لکھنوی معاشرے کی زندگی کو سامنے لایا ہے اور لکھنئو کی زوال پذیر تہذیب کا عکس پیش کیا ہے۔ اس میں لکھنئو کی سماجی زندگی کے  تقریباً تمام طبقات کو کردار بناکر پو رے معاشرے کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس ناول کے دو کردار آزاد اور خوجی بہت دلچسپ ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ناول انہوں نے مغربی ناول کے طرز پر لکھا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے خود بھی کیا ہے کہ یہ انگریزی ناولوں کے ڈھنگ پر لکھا گیا ہے۔

یہ ناول فنی اعتبار سے کمزرو ہے۔ یعنی اس ناول کا پلاٹ کمزور ہے۔ اس کے واقعات میں ترتیب کا خیال نہ رکھا جاسکا۔ یہ ناول چار جلدوں پر مشتمل ہے جس میں لکھنئو کے تقریباً تمام گوشوں کو پیش کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فنی کمزریوں کے باوجود یہ ایک کامیاب ناول ہے جس سے اردو ناول کی روایت میں اضافہ ہوا۔

عبدالحلیم شرر کی ناول نگاری:

اس کے بعد عبدالحلیم شرر نے ناول نگاری میں حصہ لے کر ناول کو فنی طور پر بلندی عطا کی۔ انہوں نے تمام اجزائے ترکیبی کا استعمال بہتر طریقے سے کیا۔ انہوں نے دو طرح کے ناول لکھے، ایک تاریخی اور دوسرا معاشرتی و اصلاحی۔ تاریخی ناول پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تاریخی ناولوں کے بانی ہیں۔اسی سے ان کو شہرت بھی ملی۔ انہوں نے اپنے تاریخی ناولوں میں اسلام کی عظمت کو دکھایا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا ناول ’’ملک العزیز ورجینا‘‘ ۱۸۸۸ء ہے۔

شرر کے ناول اصلاحی بھی ہوتے ہیں۔ وہ ماضی کی تاریخ کی عظمتوں کو دکھا کر مسلمانوں کے اندر کی مایوسی اور افسردگی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شرر کے تاریخی ناولوں میں حسن انجلینا اور فردوس بریں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ فردوس بریں ان کا سب سے بہترین کارنامہ ہے۔شرر کے معاشرتی ناولوں میں ’’دلچسپ‘‘ اور’’حسن کا ڈاکو‘‘ وغیرہ اہم ناول ہیں۔

حکیم محمد علی طبیب کی ناول نگاری :

ان کے بعد حکیم محمد علی خاں طبیب نے بھی نیل کا سانپ اور عبرت جیسے دلچسپ ناول لکھ کر اس روایت میں اضافہ کیا۔اسی طرح منشی سجاد حسین کا نام بھی ناول نگاری میں اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے ناولوں میں مزاحیہ رنگ نظر آتا ہے۔ ان کے بہترین ناولوں میں حاجی بغلول، کایا پلٹ اور میٹھی چھری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اردو ناول کی تاریخ  کا دوسرا دور :

مرزا ہادی رسوا  کی ناول نگاری:

اس کے بعد اردو ناول کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے جواردو ناول نگاری کے لیےسنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عہد سے تعلق رکھنے والا سب سے اہم نام مرزا ہادی رسوا کا ہے۔ انہوں نے پانچ ناول افشائے راز، اختری بیگم، ذات شریف، شریف زادہ اور امراؤ جان ادا لکھے۔ یہ تمام ناول معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں ’’امراؤ جان ادا‘‘ سب سے اہم اور لازوال ہے۔ اسی کی بدولت اردو ناول کی دنیا میں رسوا اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔یہ ناول فنی اعتبار سے مکمل ہے۔ اچھے ناول کی جو شرطیں ہوتی ہیں اور جو ناول کے اجزائے ترکیبی ہیں ہر ایک کو انہوں نے کامیابی سے استعمال میں لایا ہے۔یہ ناول بظاہر ایک طوائف کی سیدھی سادی کہانی ہے مگر اس میں رسواؔ نے لکھنئو کی تہذیب و معاشرت کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔

راشد الخیری  کی ناول نگاری:

اسی زمانے سے تعلق رکھنے والے مصور غم راشد الخیری بھی ہیں۔ انہوں نے مولانا نذیر احمد کی پیروی کی ہے۔ نذیر کے ناولوں کی طرح ان کے ناولوں میں بھی اخلاقی درس موجود ہے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلم عورتوں کے درد بھرے حالات کو دکھانے کی کوشش کی ہے اور عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے۔ صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی اور بنت الوقت ان کے بہترین ناول ہیں۔

اردو ناول کی تاریخ  کا جدید دور :

اس کے بعد جدید اردو ناول کا آغاز ہوتا ہےجس کے بانی پریم چند مانے جاتے ہیں۔پریم چند اردو ناول نگاری کی روایت میں بہت اہم نام ہے۔ انہوں نے اردو ناول میں فنی اور موضوعاتی دونوں اعتبار سے تبدیلیاں لائیں۔ پریم چند کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے دیہات  کی معاشرتی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ پریم چند  متوسط اور نچلے طبقات کے معاملات و مسائل کو پیش کرتے ہیں۔ انسانی دکھ درد، پس ماندہ طبقہ کی آزمائشوں، زمین دار، سرمایہ دار، انگریزوں کے مظالم، کسانوں، مزدوروں اور بے روزگاروں  کے مسائل اور ساتھ ہی فرسودہ مذہبی رسم رواج سے پیدا ہونے والی خرابیاں وغیرہ پریم چند کے اہم موضوعات ہیں۔ پریم چند کے بہترین ناولوں میں بیوہ، بازار حسن، نرملا، گوشۂ عافیت، چوگان ہستی، میدان عمل، پردہ مجاز اور گئودان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔پریم چند کے تمام ناولوں میں گئودان کو سب سے زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل ہے۔

اردو ناول پر ترقی پسند تحریک کے اثرات :

اردو ناول کے فروغ میں ترقی پسند تحریک کا بھی اہم رول رہا ہے۔ اس تحریک کے زیر اثر بھی اردو ناول کو ترقی کرنے کا موقع ملا۔ اس تحریک کے اثر سے ناول میں نئے نئے موضوعات کو جگہ ملی۔ خاص کر غریب، مزدور اور مظلوم طبقہ کی تصویر پیش کی گئی ہے۔اس تحریک کا آغاز پریم چند کے زمانے میں ہوا۔ اس سلسلے میں سجاد ظہیر کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے ۱۹۳۹ء میں ’’لندن کی ایک رات‘‘ ناول لکھا۔ اس طرح قاضی عبدالغفار کا ناول ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ بھی ناول نگاری کی روایت میں اہمیت کا حامل ہے۔

اس کے بعد کرشن چندر نے بھی ترقی پسند تحریک کے اثر سے کئی ناول لکھے۔ کرشن چندر کے ناول میں انسان دوستی، انسانی زندگی اور مظلوم طبقے خاص موضوعات ہیں۔ ان کے ناولوں میں گدھے کی سرگذشت، ایک گدھا نیفا میں، آسمان روشن ہے، شکست، جب کھیت جاگے، باون پتے،میری یادوں کے چنار، کاغذ کی ناؤ اور ایک عورت ہزار دیوانے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں شکست کو سب سے زیادہ مقبولیت ملی۔

اسی طرح عصمت چغتائی کا تعلق بھی ترقی پسند تحریک سے تھا۔ انہوں نے مسلم گھرانے کے متوسط طبقے کے لڑکوں  اور لڑکیوں کو اپنے ناول میں شامل کیا ہے۔ ان کے یہاں سب سے نمایاں پہلو جنس ہے۔ خاص کر انہوں نے عورتوں کی نفسیات کی تصویر کشی کی ہے۔ ان کے مشہور ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، سودائی اور ایک قطرہ خوں وغیرہ ہیں۔

عزیز احمد بھی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اردو ناول کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔ ان کے ناولوں میں گریز، ہوس، ایسی بلندی ایسی پستی اور شبنم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ان کے علاوہ منٹو، بیدی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ نے بھی کئی کامیاب ناول لکھ کر اردو ناول کی روایت کو نئے نئے رجحانات سے مالا مال کیا۔

آزادی کے بعد اردو ناول :

اسی طرح آزادی اور تقسیم ہند کے بعد اردو ناول کو مزید ترقی ملی۔ ترقی پسند تحریک کے ناول نگاروں اور دیگر ناول نگاروں نے آزادای کے بعد بے شمار مسائل کو اپنے ناولوں میں جگہ دے کر اسے موضوعاتی اور فنی اعتبار سے فروغ عطا کیا۔ اسی طرح آج بھی بہت سے ناول نگار اس کی روایت میں اضافہ کررہے ہیں۔


Post a Comment

0 Comments