آتش کی غزل گوئی | Aatish ki ghazal goi

آتشؔ کی غزل گوئی

خواجہ حیدر علی آتشؔ کی پیدائش1778ء کو فیض آباد میں ہوئی اور وفات 1847ءکولکھنئو میں ہوئی۔ بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا جس وجہ سے  وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے تھے۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ آتشؔ کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ آتش کی غزل گوئی کا آغاز فارسی سے ہوا۔ یعنی آتش شروع میں اردو کے بجائے فارسی میں غزل  کہتے تھے، پھر اردو میں شاعری کرنے لگے اور مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ آتش جب فیض آباد سے ہجرت کرکے لکھنئو گئے تو وہاں ان کو شعر و شاعری کا ماحول ملا، وہاں جگہ جگہ مشاعرے ہوتے تھے۔ دہلی کے شعرا بھی اس وقت ہجرت کرکے لکھنئو گئے تھے۔ انہیں ان سے بھی ملاقات کرنے کا موقع ملا۔اس طرح ان کو وہاں شعری ماحول ملا جس نے آتش کی طبیعت میں روانی ڈالی۔ خاص کر آتش کو مصحفیؔ کی شاعری نے متاثر کیا۔ انہیں ان کا انداز پسند آیا اس لیے آتش نے مصحفیؔ کی شاگردی بھی اختیار کر لی۔ اور اس طرح ان کی شاعری کا سفر شروع ہوا اور لکھنئو میں ان کی شاعری کو اس قدر مقبولیت ملی کہ وہ دبستان لکھنئو کے دوسرے بڑے شاعر کی حیثیت سے سامنے آئے اور ان کا شمار دبستان لکھنئو کے بانیوں میں ہونے لگا۔

آتش کی غزل گوئی کی خصوصیات :

آتشؔ دبستان لکھنئو کے ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ جن شاعروں کی وجہ سے دبستان لکھنئو کا وقار اور مرتبہ قائم ہوا ان میں ایک اہم نام خواجہ حیدر علی آتشؔ کا ہے۔ آتشؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زبان کی صحت اور صفائی پر زور دی۔انہوں نےاردو زبان کو لطیف، نازک، خوبصورت اور دلکش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آتشؔ کی غزلوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے محاورات کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے الفاظ اور تراکیب کے بہتر استعمال سے اپنے اشعار میں حسن پیدا کیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ شاعری ایک فن ہے جس میں لفظوں کا استعمال اچھا ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں  میں اس کا خاص خیال رکھا اور زبان کو خوبصورت بنایا۔ جیساکہ خود لکھتے ہیں:

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

آتش کی غزلوںکا موضوعاتی مطالعہ :

موضوعاتی اعتبار سے آتش کی غزلوں  کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مختلف موضوعات ہیں۔ خاص کر ان کے یہاں تصوف کا رنگ نظر آتاہے جو کہ دبستان دہلی کی بڑی خصوصیت اور انفرادیت ہے۔ آتشؔ نے دبستان لکھنئو کی شاعری میں بھی  تصوف کا رنگ شامل کیا۔ آتشؔ قلندرانہ مزاج کے حامل تھے جوکہ خاندانی اثر  تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں  میں تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے خلیل الرحمن اعظمی نے لکھا ہے کہ آتش کی شاعری لکھنئو اسکول کی آبرو رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت لکھنئو کی شاعری میں تصوف کا رجحان بہت کم تھا، آتش نے اپنی شاعری میں تصوف کا چراغ روشن کرکے اپنی شاعری کو پر اثر بنایا:

                                    نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتش نے

بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا

اسی طرح  ان کی شاعری میں انسانی عظمت، دنیا کی بے ثباتی، دولت سے کنارہ کشی، ترک دنیا، اللہ پر بھروسہ، اللہ کو پہچاننا اور قناعت وغیرہ جیسے موضوعات جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

آتش کی غزلوں میں حسن و عشق :

آتش کی غزلوں  میں حسن و عشق کے موضوعات بھی کثرت سے نظر آتے ہیں۔ آتش ہجر و وصال، ناز و ادا، محبوب کو دیکھنے اور اس سے ملنے کی خواہش وغیرہ کو موضوع بناتے ہیں۔ لیکن آتش کے یہاں یہ موضوع دہلی اور لکھنئو کے شعرا کے موضوعات سے الگ نظر آتا ہے۔آتش عشق کے معاملے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔ اور ان کا محبوب ایک انسان ہوتا ہے۔ ان کے عشق میں سماجی پابندیاں اور مذہبی رکاوٹیں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں فطری پن کا احساس ہوتا ہے اور اس معاملے میں وہ لکھنئو انداز سے بھی الگ نظر آتے ہیں۔ جیساکہ مندرجہ ذیل مثالوں سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے:

حسن کی مثال:       ہوئی  ہے  قاتل  عالم  صباحتِ  رخ  یار

                        چراغ زیست کو بھی کرتی ہے سحر خاموش

 

عشق کی مثالیں:                 رنج  سے عشق  کے  ہے  راحتِ دنیا بدتر

                                    زخم خنداں ہو اگر میں گلِ خنداں مانگوں

                                   

                                    فراقِ یار میں  دل  پر  نہیں  معلوم  کیا  گزری

                                    جو اشک آنکھوں میں آتا ہے سو بیتا یاد آتا ہے

 

                                    صبا کی طرح ہر اک غیرتِ گل سے ہیں لگ چلتے

                                    محبت   ہے  سرشت  اپنی  ہمیں  یارانہ آتا  ہے

            ان کی غزلوں  کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حسن و عشق دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آتش ان دونوں کے ذریعہ اپنی غزلوں  کو خوبصورت بناتے ہیں، مثلاً:

                                    ہمیشہ فکر  سے  یاں  عاشقانہ شعر  ڈھلتے ہیں

                                    زباں کو اپنی بس اِک حسن کا افسانہ آتا ہے

آتش کی غزلوں میں تشبیہات واستعارات :

آتشؔ نے تشبیہات و استعارات وغیرہ کا بھی سہارا لیا ہے۔ آتش کی خوبی یہ ہے کہ وہ روایتی تشبیہات کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے مشاہدات کے ذریعہ خود اپنی تشبیہات کو وضع کرتے ہیں، مثلاً:

                                    نہ پوچھ حال مرا خشک صحرا ہوں

                                    لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

            آتش کی شاعری میں انسانی زندگی اور عام مسائل حیات نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں غم  ، درداور مایوسی کم ہے۔ بلکہ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ مسائل حیات سے مقابلہ کرنا سکھاتے ہیں۔

            آتش کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے جس بھی موضوع کو اپنایا ہے وہاں جذبات و احساسات کو بہت دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں نئے نئے موضوعات بھی ہیں۔

بہر حال اس طرح آتش نے موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے اردو غزل میں قیمتی اضافہ کیا اور لکھنئو کی شاعری میں اپنے الگ رنگ و انداز کو شامل کیا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          


Post a Comment

0 Comments