مولوی نذیر احمد کی نثر نگاری | Molvi Nazeer Ahmad ki nasr nigari

 مولوی نذیر احمد کی نثر نگاری

مولوی نذیر احمد  کا تعارف:

               مولوی نذیر احمد اترپردیش کے ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش بعض کے نزدیک ۶ دسمبر ۱۸۳۶، بعض کے مطابق ۱۸۳۷، کچھ لوگوں کے مطابق ۱۸۳۱ اور زیادہ تر لوگوں کے مطابق ۱۸۳۰ ہے۔

            نذیر احمد نے ابتدائی تعلیم  اپنےوالد  مولوی سعادت علی سے حاصل کی۔ ۱۴ سال کی عمر میں دہلی گئے اور وہاں اورنگ آبادی مدرسہ سے جڑے اور مولوی عبدالخالق سے تعلیم پائی۔ اس کے بعد انہوں نے دلی کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں مولوی امام بخش صہبائی اور ماسٹر رام چند ان کے استاد رہے۔ محمد حسین آزاد، مولوی ذکاء اللہ ان کے ہم جماعت تھے۔ نذیر احمد اس کالج سے 1835 تک منسلک رہے۔ پڑھائی کے بعد انہوں نے ملازمت کا آغاز کیا اور مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کی خدمت میں لگا دی۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے 1879 میں انہیں شمس العلما کا خطاب بھی ملا۔ نذیر احمد کی وفات دہلی میں ۳ مئی ۱۹۱۲ کو ہوئی۔

نذیر احمد کی ادبی خدمات:

            مولوی نذیر احمد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں لیکن انہیں ناول نگاری میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا سب سے پہلا ناول ’’مراۃ العروس‘‘ ہےجو ۱۸۶۹ میں شائع ہوا۔ اس میں دو بہنوں اکبری اور اصغری کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بنات النعش ا۸۷۲، توبۃ النصوح ۱۸۷۷، فسانہ مبتلا ۱۸۸۵، ابن الوقت ۱۸۸۸، ایامی ۱۸۹۱ اور رویائے صادقہ ۱۸۹۴ ان کے بہترین ناول ہیں۔ نذیر احمد کے ناول اصلاحی ہیں۔ ان کے ناولوں میں مسلم معاشرے کی عکاسی موجود ہے۔ خاص کر انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر زور دی ہے۔ ان کے ناولوں میں حقیقت نگاری پائی جاتی ہے۔ انہوں نےاپنے معاشرے میں جو کچھ دیکھا اور حقیقی زندگی سے جو تجربہ انہیں حاصل ہوا انہی تمام چیزوں کو انہوں نے اپنے ناول میں جگہ دی ہے۔

نذیر احمد کے ناولوں میں مکالمہ نگاری :

 نذیر احمد کے ناولوں میں جو پہلو نمایاں ہے وہ ہے مکالمہ نگاری۔ نذیر احمد کو مکالمہ نگاری میں مہارت حاصل تھی۔ نذیر احمد ہر طبقے کے لوگوں کی نفسیات سے واقف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کردار کے اعتبار سے زبان و بیان کا استعمال کرتے ہیں۔ خاص کر توبۃ النصوح تو پورا مکالمے کی شکل میں ہے۔ یہ ناول بھی اصلاحی ہے۔ اس میں نصوح گھر کا سربراہ ہے جو ہیضے کی بیماری کے بعد اپنے گناہوں سے توبہ کرکے راہ راست پر آجاتا ہےاور اپنی بیوی فہمیدہ کے ساتھ مل کر بچوں کی اصلاح کرتا ہے۔ بڑے بچے کلیم اور نعیمہ تو راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں لیکن چھوٹے بچے حمیدہ، سلیم، علیم جلد ہی راہ راست پر آجاتے ہیں۔ نعیمہ کو بعد میں اپنی غلطی کا اعتراف ہوتا ہے۔

نذیر احمد کی زبان و اسلوب :

            نذیر احمد کی تحریروں کا انداز سادہ اور رواں ہے۔ انہوں نے سادہ زبان کا استعمال کیا ہے۔ خاص کر دہلی کی ٹکسالی زبان ان کے یہاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی زبان کو پر اثر بناکر پیش کیا ہے۔ نذیر احمد اپنی تحریروں میں محاورات کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بھی انہوں نے اپنی زبان کو پر اثر بنایا ہے۔ لیکن بعض مقام پر انہوں نے پر زور اور پر جوش انداز بیان بھی اختیار کیاہے جس سے ان کی تحریروں میں تقریر کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ناقدین نے اسے نذیر احمد کی خامیوں میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے ناول جتنے اچھے وعظ و نصیحت ہیں اتنے اچھے قصے نہیں ہیں۔

عربی و فارسی الفاظ کا استعمال:

            نذیر احمد نے عربی و فارسی کے الفاظ بھی کثرت سے استعمال میں لائے ہیں۔ اس کی وجہ سے بعض مقام پر ان کی نثر میں بھاری پن کا احساس ہوتا ہے۔

بے تکلفی و بے ساختگی :

            نذیر احمد کے اسلوب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بے تکلفی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں کہیں پر بھی بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ جس بھی موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بناتے ہیں بہت ہی سادگی اور روانی سے کام لیتے ہیں۔

            شوخی و ظرافت :

نذیر احمد کی نثر کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے جا بجا شوخی و ظرافت سے بھی کام لیا ہے۔ نذیر احمد کی طبیعت میں بھی ظرافت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں بھی اس کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ خاص کر انہوں نے معاشرتی مسائل اور منفی پہلوؤں کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ وہاں مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ طنز کی ایک تیخی لہر بھی موجود ہوتی ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments