مومن کی غزل گوئی
محمد مومن خان
مومنؔ انیسویں صدی کےایک اہم اور بڑے شاعر
تھے۔ بعض لوگوں نے مومن کی غزل گوئی کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئےانہیں عہد زریں کا دوسرا بڑا شاعر مانا ہے۔ ان کا تعلق دبستان دہلی سے تھا۔ شعری کائنات میں مومنؔ
کا اصل میدان غزل گوئی ہے۔ حالانکہ انہوں نے قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ وغیرہ میں
بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کے فن کا اصل
جوہر ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ اور مومنؔ اپنی غزلوں کی وجہ سے ہی معروف و
مقبول ہوئے۔
مومن کی غزل میں حسن و عشق :
مومنؔ کی غزل
گوئی کا دائرہ حسن و عشق ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کی بنیاد حسن و عشق پر رکھی اور
اسے ہی اپنی شاعری کا موضوع بناکر رکھا۔ لیکن ان کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود ان
کے یہاں جدت نظر آتی ہے۔ انہوں نے عشق کے معاملات کو طرح طرح سے موضوع بنایا ہے
اور ہر جگہ نئے پن کا خاص خیال رکھا ہے۔ مومن ان موضوعات کو بہت خوبصورتی سے غزلوں
کا حصہ بناتے ہیں جس کی وجہ سے کہیں پر بھی یکسانیت نظر نہیں آتی ہے۔ یعنی انہوں
نے حسن و عشق کی محدود دنیا میں بھی جذبات و احساسات اور تجربات کے نئے نئے رنگ کو
پیش کیا ہے۔ انہوں نے عشق کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور اس میں پیش آنے والی تمام
باتوں کو بہت ہی خوبی اور کمال کے ساتھ بیان کیا ہےجس سے ان کی شاعری بہت ہی دلکش
نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر:
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ذاتی تجربات :
مومن کی غزل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ذاتی تجربے، عشق سے بھری اپنی ذاتی زندگی اور اس میں پیش آنے والے عشق کے معاملات کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حقیقت میں اپنی زندگی میں ایک پردہ والی عورت سے عشق کیا تھا۔ وہ عورت ایک شاعرہ تھی اور اس کا تخلص حجابؔ تھا۔ مومن کی غزل میں اس کے اشارے بھی موجود ہیں۔ یہی عشقیہ کیفیات ان کی غزلوں کے موضوعات ہیں۔ اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری روایتی نہیں بلکہ صداقت اور اصلیت پر مبنی ہے۔ اس کا اعتراف انہوں نے خود کیا ہے:
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مومن
نے اپنی غزلوں میں عشقیہ مضامین کو بہت ہی
دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ خصوصاً انہوں نے تشبیہوں اور استعاروں کو بہت سلیقے سے
استعمال میں لاکر اس میں تازگی پیدا کی ہے۔ اسی طرح نازک خیالی ، مضمون آفرینی اور حسن تعلیل جو مومن کے کلام کی اہم خصوصیات
ہیں اس کے ذریعے بھی انہوں نے اپنی غزلوں میں حسن پیدا کیا ہے، مثلاً:
نازک
خیالی کی مثال:
ہے دوستی تو جانب دشمن نہ دیکھنا
جادو
بھرا ہوا ہے تمہاری نگاہ میں
حسن
تعلیل کی مثال:
خواہش
مرگ ہواتنا نہ ستانا ورنہ
دل
میں پھر تیرے سوا اور بھی ارماں ہوں گے
مومن کی غزل میں مکر شاعرانہ :
مومن
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو غزل میں ایک اچھوتے طرز یا انداز کی
بنیاد ڈالی اور اپنی بات کہنے یا اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا ایک طریقہ ایجاد
کیا۔ مثال کے طور پر مومن اپنے محبوب سے کوئی بات کہتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ اس کی بھلائی کے لیے کہہ رہے ہیں اور محبوب ہی کا اس میں فائدہ ہے لیکن غور کیا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف بات کہنے کا انداز ہے۔ فائدہ کا مقصد تو در اصل خود
کا ہے۔ (اسے مکر شاعرانہ کہا جاتا ہے) مثلاً:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
مومن کی غزلوں میں ایہام :
مومن نے اپنی غزلوں میں ایہام کا بھی استعمال کیا ہے
اور اس کے ذریعہ بھی انہوں نے اپنی شاعری میں حسن پیدا کیا ہے۔ بعض مقام پر ان کا
یہ ایہام عیب بھی بن جاتا ہے لیکن اکثر جگہ ان کی شاعری کو حسن عطا کرتا ہے۔ ایہام
میں کسی لفظ وغیرہ کے کئی معنی ہوتے ہیں اور شاعر اس میں کھل کر کوئی بات بیان نہیں
کرتا ہے، مثلاً:
شب
جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
مومن کی غزل میں معاملہ بندی :
مومن کی غزلوں میں معاملہ بندی بھی ایک خاص وصف ہے۔ ان کی اکثر غزلوں میں معاملہ بندی کی مثالیں
موجود ہیں۔ مومن اپنی دلی کیفیات کا اظہار محبوب سے کھل کر کرتے ہیں۔ ان کے عشق
میں سچائی اور سادگی ہے۔ ان کے یہاں عریانیت بالکل نہیں ہے۔معاملہ بندی میں
محبوباؤں سے چھیڑ چھاڑ ، رقیبوں کی باتیں اور ہجر و وصال کی کیفیتوں وغیرہ کا
بیان ہوتا ہے۔مثلاً:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نا یاد
ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومن کی غزلوں میں تغزل :
مومن کی غزلوں میں
تغزل کا عنصر بھی ایک خاص خصوصیت ہے۔ ان کی اکثر غزلوں میں تغزل کا رنگ موجود ہے۔
چونکہ انہیں موسیقی سے خاص لگاؤ تھا اس لیے ان کی غزلوں میں اس کا اثر نظر آتا
ہے۔ یہاں بھی انہوں نے نئے پن اور حسن کا خاص خیال رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان میں
معنویت ، گہرائی اور تہہ داری بھی ہوتی ہے۔
تخلص :
مومن کی ایک
خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے تخلص سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں کہا
جاتا ہے کہ جتنا فائدہ انہوں نے اپنے تخلص
سے اٹھایا ہے اتنا کوئی دوسرا شاعر نہ اٹھا سکا۔
مومن کی زبان و اسلوب :
مومن کی غزلوں کا
اسلوبیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ مومن کی غزلوں کی مقبولیت کا راز ان کا اسلوب بھی
ہے۔ مومن عام اور سادہ بات کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔انہوں نے
مختلف شعری وسائل کے ذریعے اپنی شاعری کو دلکش بنایا ہے۔ ان کے یہاں اشارے اور
کنایے بھی ہیں۔ ان کی مدد سے بھی مومن اپنی شاعری میں نیا معنی پیدا کرتے ہیں۔
مومن کی غزل میں شوخی و ظرافت :
اسی طرح انہوں نے
اپنی شاعری کو اثر دار بنانے کے لیے شوخی و ظرافت اور لطیف طنز کا بھی سہارا لیا
ہے۔ ان کے طنز میں زہر یا تیکھاپن نہیں ہے بلکہ وہ بہت ہی نرم اور لطیف ہوتے ہیں۔
مومن کی زبان :
مومن کو زبان پر
بھی مہارت حاصل تھی۔ مومن لفظیات سے بخوبی
واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مناسب موقع پر مناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔
اسی طرح مومن نئی ترکیبوں کا استعمال کرتے ہیں۔ان کے ذریعے مومن اپنے اسلوب کو
سنوارنے اور نکھارنے ےمیں کامیاب ہوتے ہیں۔ خاص کر لفظوں کے الٹ پھیر کے ذریعہ
چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی پرکشش اور دلچسپ بنادیتے ہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments