پنڈت رتن ناتھ سرشار کی نثر نگاری
(فسانہ آزاد کے حوالے سے)
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا تعارف:
پنڈت رتن ناتھ سرشار ۱۸۴۶ کو لکھنئو
میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک کشمیری
خاندان سے تھا۔ چار سال کی عمر میں ہی ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ انہوں
نے عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرکے تدریسی خدمات انجام دیں۔ ساتھ ہی
انہوں نے مضامین بھی لکھنا شروع کیا جو معروف و مشہور اخبار ’’اودھ اخبار‘‘ میں
شائع ہوتے رہے۔ بعد میں اسی اخبار کے ایڈیٹر بھی بنائے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے
اپنا مشہور ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ لکھنا
شروع کیا۔ جو کہ ۱۸۷۸ میں مکمل ہوا اور ۱۸۸۰ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ سیر کہسار،
جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار بھی ان کی کتابیں ہیں لیکن انہیں اتنی مقبولیت نہ
مل سکی جتنی فسانہ آزاد کو ملی۔ رتن ناتھ سرشار کا انتقال ۱۹۰۳ کو حیدرآباد میں
ہوا۔
فسانہ آزاد کا تعارف:
فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ایک
معروف و مشہور ناول ہے۔ یہ ناول شروع میں
’’ظرافت‘‘ کے نام سے ’’اودھ اخبار‘‘
میں قسط وار ایک سال تک شائع ہوا اور بعد میں منشی نول کشور لکھنئو نے پہلی بار
۱۸۸۰ میں اسے مجموعی طور پر ناول کی شکل میں شائع کیا۔ ’’اودھ اخبار‘‘ سے ہی اس کی
مقبولیت کافی بڑھ گئی تھی۔ لوگ ہر آنے والی قسط کا انتظار کرتے تھے۔ اس سے اس کی
اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بعد میں جب کتابی شکل میں منظر عام پر آیا تو
اس کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوا۔
فسانہ آزاد کی تکنیک اور پلاٹ:
فسانہ آزاد ناول کی تکنیک اور اس کے
پلاٹ میں کچھ کمیاں ہیں۔ واقعات کی ترتیب میں بھی خامیاں ہیں اور اسی طرح غیر
ضروری واقعات بھی شامل ہیں جن کا تعلق اصل قصے سے نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے
لوگوں نے اسے ناول ماننے سے انکار کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے صحافتی ناول بھی کہا
ہے۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی نثر نگاری
رتن ناتھ سرشار کی زبان و اسلوب:
رتن ناتھ سرشار کے اسلوب کے حوالے سے
بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فسانہ آزاد میں انہوں نے دو اسلوب اختیار کیے ہیں۔
ایک تو ان کا تخلیقی اسلوب جو بہت خوبصورت اور پر کشش ہے اور دوسرا اسلوب انہوں نے
رجب علی بیگ سرور سے لیا ہے۔ یعنی بہت سے مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے
سرور کی کتاب ’’فسانہ عجائب‘‘ کے اسلوب کی پیروی کی ہے۔ خاص کر سرشار جب اپنے ناول
میں منظر کشی کرتے ہیں تب سرورؔ کی طرح عبارت کو رنگین بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب
کہ عام حالات میں ان کا خود کا ہی اسلوب ہوتا ہے۔ جہاں صفائی اور سادگی بھی نظر
آتی ہے۔
سرشار کو زبان پر مہارت حاصل تھی۔ یہی
وجہ ہے کہ سرشار نےموقع و محل کے اعتبار سے زبان و اسلوب کا استعمال کیا ہے۔ان کے
ناول میں مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے کردار موجود ہیں۔ سرشار نے ان سب کرداروں
کی مناسبت سے زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کے ناول میں اعلیٰ طبقے اور نچلے طبقے کے
لوگ اپنے مسائل اور اپنی حقیقتوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ سرشار کی خصوصیت یہ ہے
کہ چاہے وہ نچلے وطبقے کا فرد ہو یا اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا ہو یا عام
افراد ہوں ہر کسی کی زبان سے انہیں واقفیت حاصل تھی۔انہوں نے ان کی زبان کو
استعمال میں لایا۔
سرشار کے ناول میں مشکل الفاظ کا استعمال:
سرشار نے اپنی نثر میں مشکل اور ثقیل الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ خاص کر فارسی الفاظ کے
استعمال کی وجہ سے ان کی نثر مشکل ہوگئی
ہے۔ اسی طرح انہوں نے فارسی اشعار کو بھی شامل کیا ہے۔ ان کی نثر میں محاورات بھی
کثرت سے نظر آتے ہیں جن سے ان کی نثر مشکل ہوجاتی ہے۔ لیکن سرشار کی نثر کی
خصوصیت یہ ہے کہ مشکل ہونے کے باوجود ان کی نثر میں ایک الگ طرح کا حسن اور رنگینی موجود ہے جو قاری کو اپنی
طرف متوجہ کرتی ہے۔
سرشا ر کے ناول میں مکالمہ نگاری :
اردو ناو ل میں مکالمہ نگاری کو بھی
اہمیت حاصل ہے۔ سرشار کے ناول میں بھی مکالمہ نگاری کی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے ہر طبقے کے افراد کی
مناسبت سے مکالمہ نگاری کی ہے۔ ان کے ہر کردار اپنی زبان میں مکالمہ کرتے ہوئے نظر
آتے ہیں۔ ان کے ناول کے مقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
رتن ناتھ سرشار کی طنز و مزاح نگاری:
سرشار کا یہ ناول در اصل لکھنئو کی
معاشرتی تہذیب اور وہاں کے تہذیبی زوال پر مبنی ہے۔ انہوں نے وہاں کی سچی تصویر
پیش کی ہے۔ سرشار نے لکھنئو کی معاشرتی زندگیوں اور وہاں کی زوال ہوتی تہذیب اور
عیش پرستی وغیرہ کو دکھانے میں طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے۔ اس کے ذریعہ انہوں نے
وہاں کی خامیوں اور خرابیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مزاحیہ پہلو پورے
ناول میں موجود ہے۔ خاص کر اس ناول کے دو کردار آزاد اور خوجی کے مکالموں میں
مزاحیہ رنگ غالب ہے۔ خوجی تو ایک مزاحیہ کردار کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ سرشار کا
یہی مزاحیہ پہلو ان کے ناول کو مقبول بنانے میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments