شبلی نعمانی کا طرز تحریر | Shibli Nomani ka tarz e tahreer

شبلی نعمانی کا طرز تحریر

علامہ شبلی نعمانی کی نثری کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے شبلی نعمانی نے دلکش طرز تحریر کو اختیار کیا ہے۔ شبلی اپنے اسلوب کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کی نثری تحریروں کی خوبیاں درج ذیل ہیں:

شبلی کی نثر میں سادگی وبے ساختگی:

شبلی کی تحریروں میں سادگی و بے ساختگی کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ ان کی سادگی سرسید اور حالی کی سادگی سے بالکل الگ ہے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا بہت ہی سادہ، سلیس اور روانی کے ساتھ لکھا۔ کہیں پر بھی بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بلا ضرورت ایک بھی لفظ کو اختیار کرنے سے پرہیز کیا ہے۔

شبلی کی نثر میں شاعرانہ رنگ:

شبلی کی تحریروں میں شاعری کارنگ بھی نظر آتا ہے۔ چونکہ شبلی ایک شاعر بھی تھے شاید اس لیے اس کے اثرات ان کی نثر میں بھی موجود ہیں۔ ان کی زبان شاعرانہ تھی۔ ان کے الفاظ خوبصورت، دلکش اور مترنم بھی ہوتے تھے۔ انہوں نے شعری وسائل کا بھی سہارا لیا ہے۔ خاص کر انہوں نے تشبیہات و استعارات اور محاورات کے ذریعے اپنی نثر کو شگفتہ بنایا ہے۔ اسی طرح بعض مقام پر انہوں نے اشعار کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کی  نثر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

شبلی کی ادبی زبان:

شبلی ایک ادیب تھے اور ان کی ادبی کتابیں بہت عمدہ ہیں جہاں ادبیت حد درجہ ہے۔ شبلی کی خصوصیت یہ ہے انہوں نے تاریخ نگاری میں بھی ادبیت قائم کی۔ اس کے علاوہ تنقید جو کہ ایک خشک موضوع ہے اس میں بھی انہوں نے شگفتہ اور دلکش ادبی زبان کو استعمال میں لایا ہے۔

شبلی کی نثر میں تحقیقی اسلوب:

شبلی کی تحریروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں تحقیقی رنگ موجود ہے۔ تاریخی کتابوں کے علاوہ تنقید اور ادبی کتابوں کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا تحقیق کرکے لکھا۔

شبلی کی نثر میں تخیل:

شبلی کی تحریروں میں تخیل کا عنصر بھی موجود ہے۔ شبلی جہاں ایک ادیب، شاعر، مورخ اور تاریخ نویس تھے وہیں ایک شاعر اور فلسفی بھی تھے۔ ان کے خیالات فلسفیانہ  ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں تخیل کا رنگ موجود ہے۔ اس کے ذریعہ شبلی نے اپنی نثر میں رنگینی پیدا کی ہے۔

شبلی کی نثر میں پرجوش انداز بیان:

شبلی نے اپنی تحریروں میں جوش بیان سے بھی کام لیا ہے۔ اور یہ رنگ ان کے یہاں بہت غالب ہے۔ ان کی تحریر جب قاری پڑھتا ہے تو اس کے اندر بھی جوش پیدا ہونے لگتا ہے۔ شبلی نے ایسے مقام پر خطیبانہ انداز اپنایا ہے۔ یہ انداز کہیں پر خوبی کی شکل میں موجود ہے تو بعض مقام پر وہی انداز خامیوں میں شمار ہوتا ہے۔

شبلی کی نثر میں ایجاز و اختصار:

شبلی کی تحریروں کی ایک خصوصیت ایجاز و اختصار بھی ہے۔ شبلی نے بڑی سی بڑی بات کو اور وسیع سے وسیع موضوع کو چھوٹے  چھوٹے معنی خیز جملوں میں بہت خوبصورتی سے شامل کیا ہے۔ اس میں انہیں کامیابی اس لیے ملی کیوں کہ وہ شاعر تھے اور انہوں نے شعری وسائل کے سہارے اپنی تحریروں میں ایجاز و اختصار پیدا کیا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments