میر انیس کی مرثیہ نگاری
میر ببر علی انیس کا شمار اردو کے عظیم
مرثیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ شاعری میں ان کا اصل میدان مرثیہ نگاری ہی ہے۔میر انیس نے
مرثیہ نگاری کو آسمان کی بلندی تک پہنچایا۔میر انیس کو اردو مرثیہ نگاری کا
بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اردو میں ان سے بڑا مرثیہ نگار نہ تو ان سے پہلے پیدا
ہوا اور نہ ہی ان کے بعد۔ میر انیس نے ارد ومرثیہ کو ہر طرح سے ترقی کا راستہ
دکھایا۔ چاہے اس کا تعلق موضوع سے ہو یا فن سے۔ دونوں اعتبار سے انہوں نے مرثیہ
نگاری کو اتنی بلندی عطا کی کہ کوئی دوسرا مرثیہ نگار ویسا کارنامہ انجام نہ دے سکا۔بلکہ ان کے بارے
میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ انہوں نے مرثیہ نگاری کو ایسا فروغ دیا کہ ترقی کے سارے
امکانات بند ہوگئے۔
دیکھا جائے تو میر انیس کو شاعری ورثے میں ملی۔ ان کے والد میر خلیق خود ایک
مرثیہ نگار تھے۔ یہی نہیں بلکہ میر انیس کے دادا میر حسن (جنہوں نے مثنوی سحر
البیان لکھی) بھی ایک عظیم شاعر تھے۔ میر حسن اردو کے سب سے بڑے مثنوی نگارمانے جاتے ہیں۔ان
کا اثر میر انیس پر بھی قائم ہوا اور بچپن میں ہی انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی
پیدا ہوگئی تھی اور محض ۱۳ سال کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری
کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ ان کے والد میر خلیق نے ان کو سمجھایا تو انہوں نے
مرثیہ نگاری میں قدم رکھا اور پھر مرثیہ نگاری میں انہوں نے ایسی کامیابی حاصل کی
کہ ان کے والد جو خود ایک مرثیہ نگار تھے وہ اور سارے بڑے بڑے مرثیہ نگار ان کے
سامنے دھندلے نظر آنے لگے۔
میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات
میر انیس کی مرثیہ نگاری میں موضوعات کا تنوع :
میر انیس کی مرثیہ نگاری کی ایک خوبی
یہ ہے کہ انہوں نے نئے نئے موضوعات کو مرثیے میں جگہ دے کر اس کے دامن کو وسیع کیا
ہے۔ ان کے مرثیوں میں انسانی جذبات و احساسات،انسانی نفسیات، زندگی اور موت، جنگ و صلح، فتح اور شکست ، محبت
و و نفرت سبھی کچھ نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی
ان کے مرثیوں میں اخلاقی تعلیم، نیکی اور حق گوئی کا بھی درس دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں میر انیس کی خصوصیت یہ ہے
کہ ان کے مرثیوں میں ہر جگہ تنوع کا پہلو
موجود ہے۔خاص کر واقعاتِ کربلا کی دردناکی کو پیش کرنے میں بھی انہوں نے تنوع پیدا
کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ کوئی دوسرا شاعر
اب تک ویسا نہ کر سکا۔
میر انیس کی مرثیہ نگاری میں کردار نگاری :
میر انیس نے کردار نگاری میں بھی اپنی مہارت
کا ثبوت پیش کیا ہے۔ میر انیس انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے
کہ کرداروں کے انتخاب میں بھی انہیں کامیابی ملی۔ دیکھا جائے تو ان کے کرداروں میں
نیک لوگ بھی ہیں اور برے بھی۔ میر انیس کے کرداروں میں مرد، عورت، بچے ، جوان اور
بوڑھے سبھی موجود ہیں۔ میر انیس کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے تمام کرداروں کی نفسیات
اور ان کے مزاج کی بہتر عکاسی کی ہے۔
میر انیس کی مرثیہ نگاری میں واقعہ نگاری :
میر انیس نے واقعہ نگاری میں بھی اپنی
مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔یہی نہیں بلکہ میر انیس نے واقعہ نگاری کو اس بلندی تک پہنچایا کہ اس کی
مثال اردو میں اور کہیں موجود نہیں۔ بلکہ علامہ شبلی نعمانی نے تو یہاں تک کہہ دیا
ہے کہ فارسی میں بھی اس کی مثال نہیں۔ میر انیس کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے چھوٹی
چھوٹی چیزوں کو بھی اپنی نظروں میں رکھاہے اور واقعات کربلا، شہدائے کربلااور دیگر
جزئیات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
میر انیس کے مرثیوں میں منظر نگاری :
میر انیس کی مرثیہ نگاری کی ایک خوبی یہ ہے انہوں نے
جس بھی واقعے کو بیان کیا ہے اس کی پوری تصویر کھینچ دی ہے۔ یعنی انہوں نے منظر
نگاری سے بھی کام لیا ہے۔ میر انیس نے جنگ
کے تمام مناظر کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ پڑھ کر ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے سامنے سب کچھ
ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ میر انیس نے فطری مناظر کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ یعنی ان
کے مرثیوں میں صبح و شام، رات و دن، سورج چاند، درخت اور پھول وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔
میر انیس کے مرثیوں میں جذبات نگاری :
میر انیس کی مرثیہ نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مرثیوں میں جذبات نگاری کا
پہلو بھی غالب ہے۔ انہوں نے اپنے مرثیوں میں جذبات نگاری کے بہترین نمونے پیش کیے
ہیں۔ میر انیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جذبات نگاری کے جو نمونے پیش
کیے ہیں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
میر انیس کی مرثیہ نگاری کا فنی جائزہ
میر انیس کی مرثیہ نگاری کا فنی مطالعہ کیا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مرثیے کے تمام فنی اجزا کو بہت بہتر انداز سے
استعمال میں لایا ہے۔ مرثیہ کا پہلا جزو چہرہ ہے۔ اس میں شاعر مختلف تمہیدی
موضوعات کو اختیار کرتا ہے۔ میر انیس کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے
کہ انہوں نے اپنے مرثیوں کا آغاز بعض مقام پر
دعا سے کیا ہے اور کئی جگہ اخلاقی باتوں سے کیا ہے۔ اس سے میر انیس کے
مرثیوں کو اور زیادہ بلندی ملی۔اسی طرح سراپا میں بھی میر انیس نے کمال دکھایا ہے۔
انہوں نے کرداروں کا سراپا اور اس کے تمام اوصاف کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اجزا مثلاً رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین کو بھی میر انیس
نے بہت خوبصورت اور موثر انداز میں استعمال میں لایا ہے۔
میر انیس کے مرثیوں کی زبان :
زبان و بیان کے اعتبار سے دیکھا جائے
تو میر انیس وہاں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ میر انیس کو لفظوں پر مہارت حاصل تھی ،
یہی وجہ ہے کہ انیس لفظوں کے انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے مرثیوں میں الفاظ
اور محاورات کی کثرت ہے۔ اس کی بدولت میر
انیس اپنے تمام تر خیالات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے کرداروں کی نفسیات
کے اعتبار سے الفاظ کا استعمال کرکے اپنے مرثیوں میں ایک الگ اثر پیدا کیا ہے۔یہی
نہیں بلکہ انہوں نے الفاظ کی مناسب ترتیب کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔
میر انیس کے مرثیو ں میں تشبیہات و استعارات :
میر انیس نے تشبیہات و استعارات کا بھی استعمال بھی بہت دلکش انداز میں
کیا ہے۔ ان کی تشبیہوں میں نیچرل پن کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی تشبیہیں سادہ اور عام
فہم بھی ہیں۔ کہیں پر بھی بناوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔تشبیہات کے اعتبار سے بھی
ان کے یہاں جدت پائی جاتی ہے۔
اس طرح ان تمام خوبیوں کی بدولت اردو
مرثیہ نگاری میں میر انیس کی عظمت قائم ہوتی ہے اور وہ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں
سب سے اوپر نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments