عبد الحلیم شرر کی ناول نگاری
عبد الحلیم شرر ۱۸۶۰ کو لکھنئو میں
پیدا ہوئے۔ یعنی شرر انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع کے ایک ادیب تھے۔
انہوں نے تاریخی ناول، انشائیہ، ڈراما، شاعری، سوانح اور تاریخ بھی لکھی۔ لیکن ان
کو شہرت تاریخی ناولوں سے ملی۔ انہوں نے ہی اردو میں تاریخی ناول نگاری کا آغاز
بھی کیا۔ ان کا پہلا تاریخی ناول ملک العزیز ورجینا ہے۔
دیکھا جائے تو
شرر کو تاریخ خصوصاً اسلامی تاریخ سے خاص
دلچسپی تھی۔ انہوں نے اپنے زیادہ تر ناولوں کا مواد تاریخ سے ہی حاصل کیا۔ شرر نے
اپنے تاریخی ناولوں میں مسلمانوں کے تہذیبی و سیاسی عروج کی کہانیاں پیش کی ہیں۔
ان کے ناولوں میں مسلمان جانبازوں کی بہادری کے واقعات بھی ہیں۔
چونکہ اس وقت
مسلم تہذیب اور تاریخ پر ہر طرف سے حملے کیے جارہے تھے اس لیے شرر نے اس کی حفاظت
کے لیے اپنے قلم کا سہارا لیا اور تاریخی حقیقتوں کو پیش کرنے کی بہترین کوشش کی۔
ناول کے علاوہ انہوں نے مضامین بھی لکھے۔ اس کے ذریعہ بھی انہوں نے مسلم معاشرے کی
اصلاح کی ہے۔
دیکھا جائے تو
شرر کے یہاں رومانوی انداز کے نمونے بھی موجود ہیں۔رومان میں حسن و عشق کی باتیں
ہوتی ہیں اور جذبات وتخیل سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ چیز شرر کے یہاں بھی موجود ہے۔
ان کے ناولوں میں حسن و عشق کی باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
شرر کے ناولوں کا
فنی مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تمام فنی لوازمات کو سامنے رکھتے
ہوئے ناول لکھا ہے۔ چونکہ ان کے ناول زیادہ تر تاریخی ہوتے ہیں اس لیے تاریخی ناول
نگاری کے اصولوں کے مد نظر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے انہوں نے سبھی ضرورتوں کو
پورا کیا ہے۔
شرر کے ناولوں
میں مکالمہ نگاری کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ان میں کچھ خامیاں نظر آتی ہیں۔ ان کے
مکالموں میں جان نہیں ہے۔ خاص کر ان کے مکالمے کافی طویل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری
جلد ہی اکتاہٹ کا احساس کرنے لگتا ہے۔ کردار نگاری کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے
کہ ان کے کردار بھی بے جان ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں حسن و عشق کی باتیں ہیں اور شرر نے
جذبات نگاری کا سہارا لیا ہے وہاں ان کے کردار متحرک ہیں۔ کردار نگاری میں شرر کو
خاص کامیابی تو نہیں ملی لیکن ان کے قصے کی ساخت اور پلاٹ کی ترتیب بہتر ہے۔
اسی طرح شرر کی
زبان اور ان کے اسلوب پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ادبی زبان کو
اختیار کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی نثر مشکل ہوگئی ہے۔ بعض مقام پر شرر نے سادگی
اور سلاست کا بھی سہارا لیا ہے جس سے ان کی نثر میں دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ شرر نے
اپنی نثر میں عربی اور فارسی اشعار، کہاوت اور مقولے وغیرہ کا بھی سہارا لیا ہے۔
اسی طرح ان کے یہاں انگریزی کے الفاظ بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ان الفاظ کا بہت ہی مناسب انداز میں استعمال کیا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں روانی موجود ہے۔
ناول ’’گذشتہ
لکھنئو‘‘ عبدالحلیم شرر کی ایک عمدہ تخلیق ہے۔ اس میں انہوں نے لکھنئو کے تاریخی
واقعات کو پیش کیا ہے۔ اس میں لکھنئوی تہذیب و معاشرت صاف طورپر نظر آتی ہے۔ شرر
نے اس میں لکھنئو کے حالات و واقعات کی بہتر منظر نگاری کی ہے جس سے شرر کی صلاحیت
کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اس ناول کے انداز بیان میں تسلسل اور روانی کا
خاص خیال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو پڑھنے والا اکتاہٹ کا احساس نہیں کرتا
بلکہ اسے لطف آتا ہے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments