آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری | Agha Hashar Kashmiri ki drama nigari

آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری

            آغا حشر کاشمیری ایک شاعر، فلم ساز اور ڈراما نگار کی حیثیت سے مقبول ہوئے۔ خصوصاً آغا حشر کاشمیری کی  ڈراما نگاری  اردو ڈراما نگاری کی روایت میں مشعل راہ ثابت ہوئی۔اردو ڈراموں کی وجہ سے ان کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ ڈراموں میں ان کو اتنی شہرت ملی کہ وہ اردو کے شیکسپٔر کہے جانے لگے۔

آغاز حشر کاشمیری کو بچپن سے ہی ڈرامے سے دلچسپی تھی۔ اسی دلچسپی کا ہی نتیجہ ہے کہ  انہوں نے اردو ڈراما نگاری میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ ان کا پہلا ڈراما ’’آفتاب محبت‘‘ کے نام سے ۱۸۹۷ میں شائع ہوا۔ یہ ڈراما انہوں نے ۱۸ سال کی عمر میں محض آٹھ دنوں میں لکھ کر مکمل کیا تھا۔آغا حشر بنارس میں رہتے تھے لیکن ڈرامے سے ان کی دلچسپی نے ان کو ممبئی پہنچا دیا۔ ممبئی میں ان کو سازگار ماحول ملا۔ وہاں انہوں نے مختلف کپمنیوں میں ملازمت کی اور بہت سے ڈرامے لکھے۔ ساتھ ہی انہوں نے فلمی ڈرامے بھی لکھے۔ان کے مشہور ڈراموں میں مار آستین، میٹھی چھری، سفید خون، دام حسن، قید ہوس، خواب ہستی، خوبصورت بلا، سلور کنگ عرف نیک پروین، یہودی کی لڑکی، آنکھ کا نشہ، رستم و سہراب، شیریں فرہاد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

آغا حشر نے اردو ڈراموں کو نیا راستہ دکھایا۔ انہوں نے ادبی اور تفریحی دونوں اعتبار سے اردو ڈراما نگاری کے معیار کو بلند کیا۔ دیکھا جائے تو انہوں نے زیادہ تر سماجی مسائل کو اپنےڈراموں کا موضوع بنایا ہے اور زندگی کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔

آغا حشر کے ڈراموں کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نئے نئے تجربے کیے ہیں۔ اسی طرح فنی اعتبار سے انہوں نے ڈرامے کے تمام لوازمات کا استعمال بہت خوبصورتی  سے کیا ہے۔

ان کے ابتدائی ڈراموں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے عام ڈراموں کی طرح ڈرامے لکھے ہیں۔ ان ڈراموں میں انہوں نے عوام کی دلچسپی کو مدنظر رکھا ہے۔ اس وقت آغا حشر کاشمیری ڈرامے لکھ کر عوام کو سنایا کرتے تھے ۔ سناتے وقت ان کی نظر ناظرین پر رہتی اور دیکھتے کہ اس کا اثر ان پر کتنا ہوا۔ اگر وہ ڈراما ان کو پسند آتا تو اسے اسٹیج پر پیش کرتے تھے۔

آغا حشر کے ڈراموں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے ڈراموں میں عوام کی دلچسپی کے مدنظر  گیت اور عشقیہ غزلوں کو کثرت سے شامل کیا ہے۔

اسی طرح ان کے ڈراموں میں ظریفانہ اور مزاحیہ پلاٹ بھی نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق مرکزی کردار سے نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ آغا حشر اسے بطور تفریح  اور عوام کے لیے دلچسپ بنانے کی خاطر اصل قصے کے ساتھ ساتھ مزاحیہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں۔

ان کے ڈراموں کے پلاٹ کی بات جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے پلاٹ بہت سادہ ہیں۔ اسی طرح کرداروں کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کردار مثالی ہیں۔ لیکن  ان کے کرداروں میں ارتقائی پہلو نہیں ہے۔ یعنی جو کردار  جیسا ہے وہ آخر تک ویسا ہی رہتا ہے۔شاید اس پہلو میں بھی انہوں نےعوام کی پسند کو مدنظر رکھا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ کی خاطر ایسے کرداروں کو تخلیق کیا ہو۔آغا حشر کے ڈراموں کے مکالموں پر نظر  ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مکالموں میں روز مرہ کی بول چال کو استعمال میں لایا  ہے۔ انہوں نے مکالموں میں چھوٹے چھوٹے فقروں کا استعال کیا ہے۔

بہر حال اس طرح آغاحشر کاشمیری نے اردو ڈراما نگاری میں حصہ لے کر ڈراما نگاری کی روایت میں قیمتی اضافہ کیا۔ ان کے یہاں چند خامیاں بھی موجود ہیں لیکن وہ ان کی خوبیوں کے نیچے دب جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کی اس روایت میں آغا حشر اور ان کے ڈراموں کو  کافی مقبولیت و شہرت ملی۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments