برج نارائن چکبست کی نثر نگاری | Brij Narayan Chakbast ki nasr nigari

برج نارائن چکبست کی نثر نگاری

پنڈت برج نارائن چکبست ایک شاعر، نثر نگار اور نقاد کی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے  ہیں۔ شاعری میں برج نارائن چکبست  اپنی نظموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ نثر نگاری میں چکبست اپنے تنقیدی مضامین کی بدولت اہم مقام کے حامل ہیں۔

برج نارائن چکبست 19 جنوری 1882 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ جب وہ پانچ سال کے تھے تو ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ پھر ان کی پرورش ان کے ماموں کے ذریعہ ہوئی۔ چکبست نے ابتدائی تعلیم ایک مولوی صاحب سے حاصل کی۔ ان سے انہوں نے اردو اور فارسی کی تعلیم پائی۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کو بچپن میں ہی فارسی اور اردو زبان پر مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے اردو میں شعر کہنا بھی شروع کردیا تھا۔ پھر ان کا تعلیمی سلسلہ بڑھا اور انہوں نے مڈل اسکول پاس کرنے کے بعد ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن اور ایل۔ ایل۔بی کا امتحان بھی پاس کیا۔تعلیم کے بعد  انہوں نے وکالت بھی شروع کی ۔ چکبست کا انتقال 12 فروری 1926 میں ہوا۔

چکبست ایک اہم شاعر کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ لیکن نثر میں  جو ان کے خدمات ہیں وہ ان کی شاعری سے کم نہیں۔ نثر میں ان کے مضامین اور خاص کر تنقیدی مضامین قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کئی رسالوں کے لیے مضامین لکھے۔شروع میں رسالہ ’’کشمیر درپن‘‘ میں لکھتے رہے۔ بعد میں انہوں نے زمانہ، ادیب، اردوئے معلی جیسے مشہور ادبی رسالوں کے لیے بھی بہت سے مضامین لکھے۔ اسی طرح مشہور مزاحیہ اخبار  اودھ پنچ کے لیے بھی کئی مضامین لکھے۔ اس کے علاوہ  ان کے نثری نمونے زیادہ تر رسالہ ’’صبح امید‘‘ میں ملتے ہیں جو ان کی ادارت میں شائع ہوئے تھے۔

چکبست کے نثری اسلوب کے حوالے سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مختلف طرز تحریر کو اختیار کیا ہے۔ چکبست نے اپنے سے پہلے کے ادیبوں کی پیروی بھی کی۔ ان کے یہاں سرشار کے طرز تحریر کا اثر  بھی ہے لیکن زیادہ تر انہوں نے محمد حسین آزاد کے طرز تحریر کی تقلید کی ہے۔ آزاد کی طرح چکبست کے یہاں بھی شاعرانہ انداز موجود ہے۔ انہوں نے تشبیہوں اور استعاروں کا بھی استعمال کیا ہے، اسی طرح تمثیلی انداز بیان بھی ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ ان تمام شعری وسائل کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے استعمال میں لایا ہے۔اسی طرح چکبست نے اپنے مضامین میں عالمانہ انداز بھی اختیار کیا ہے۔

چکبست نے سرسید کے نثری اسلوب کی بھی پیروی کی ہے۔ سرسید کی نثر میں سادگی، بے تکلفی، روانی ہے اور ساتھ ہی ان کی نثر استدلالی بھی ہوتی ہے۔ چکبست نے بھی اسی انداز میں مضامین لکھے۔انہوں نے بعض مضامین میں علمی انداز کے بجائے صاف، سادہ اور بے تکلف زبان کو اپنایا ہے۔خاص کر ان کے سیاسی مضامین میں سادہ انداز ملتا ہے۔

چکبست اودھ پنچ سے وابستہ تھے۔ اس رسالہ میں ادبی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی مضامین لکھے جاتے تھے جس میں طنز و مزاح کا اسلوب اختیار کیا جاتا تھا۔ اس سے طنز و مزاح نگاری میں کافی اضافہ ہوا۔ چکبست نے بھی اس رسالے کے لیے کئی مضامین لکھے جن میں مزاح نگاری کےبہترین نمونےموجود ہیں۔ یعنی چکبست نے مزاح نگاری  میں بھی حصہ لیا اور اس سلسلے میں انہوں نے نرم لہجہ اپنایا ہے جسے پڑھ کر قاری جابجا مسکرانے لگتا ہے۔ کہیں کہیں انہوں نے تیز فقرہ بھی اختیار کیا ہے لیکن وہاں بھی نرمی کا ایک پہلو موجود ہوتا ہے۔ بعض مقام پر انہوں نے اپنی مزاح نگاری میں سخت لہجہ بھی اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں کہیں کہیں وہ اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں ابتذال کی کیفیت دکھائی دینے لگتی ہے۔ اسی طرح ان کی تحریروں میں تمسخر کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔

بہر حال اس طرح دیکھا جائے تو چکبست کی نثر میں مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ ان کی نثر میں کشش  بھی ہے۔ ان کی نثر میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں۔ چکبست نے جو بھی مضمون لکھا اس میں پوری صفائی اور وضاحت کا خاص خیال رکھا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments