حالی کی غزل گوئی | Hali ki ghazal goi

 حالی کی غزل گوئی

مولانا الطاف حسین حالی :

خواجہ الطاف حسین حالی نےاردو ادب کو کئی طرح سے متاثر کیا۔ حالی نے نثر اور شاعری دونوں میدانوں میں اہم اضافہ کیا۔ حالی جتنے بڑے نثر نگار تھے اتنے بڑے شاعر بھی تھے۔ نثر نگاری میں حالی ایک اہم نقاد اور سوانح نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور شاعری کی دنیا میں حالی اپنی غزلوں اور خاص کر نظموں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں حالی کی غزل گوئی پر بات کی جائے گی۔

حالی کی غزلیں :

مولانا الطاف حسین حالی نے شاعری کا آغاز غزل سے کیا ۔ ان کا شعری مجموعہ ’’دیوان حالی‘‘ ہے جس میں ان کی کل غزلوں کی تعداد ایک سو سولہ ہے۔ان میں ۲۹ غزلیں ابتدائی دور کی  ہیں اور ۸۷ غزلیں جدید ہیں۔ اس کے علاوہ ’’جواہرات حالی‘‘ میں ان کی سات غزلیں ہیں۔ سب ملا کر ان کی غزلوں کی تعداد ۱۲۳ پہنچ جاتی ہے۔ ان تمام غزلوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حالی کی غزل گوئی  کا سلسلہ تقریباً چالیس سال تک رہا۔

حالی کی غزلوں کی  خصوصیات

حالی کی غزل گوئی میں موضوعات کا تنوع :

حالی نے غزل گوئی کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی غزلوں کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔ خاص کر سیاسی حالات، اخلاقی باتیں، قومی زوال کا درد اور قوم کی ترقی کا جذبہ وغیرہ ان کی غزلوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان کی ابتدائی غزلوں میں میر، غالب، اور شیفتہ کا رنگ نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی غزلوں میں نیا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے میر سے درد دل لیا، درد سے تصوف کا رنگ لیا، غالب سے حسن تخیل لیا اور شیخ سعدی سے بیان کی سادگی اور معنی کی گہرائی لی اور شیفتہ سے سیدھی سچی باتیں لے کر اپنی غزلوں کی تعمیر کی ہے۔

بہر حال اس طرح حالی اپنی غزلوں میں نیاپن پیدا کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں روایتی مضامین تو ہیں لیکن انہوں نے اس میں جدت پیدا کی۔ ساتھ ہی نئے مضامین کو بھی شامل کیا۔ مثلاً سیاسی و سماجی اور قومی مضامین۔ خاص کر سماجی مضامین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو غزل میں پہلی بار اسے جگہ دی ہے۔

حالی کی غزلوں میں علامات و اشارات :

حالی کی غزل گوئی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب حالی سماج و سیاست اور خاص کر انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرتےہیں تو علامتوں اور اشاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ انگریزوں کے ظلم و ستم، ناانصافی، لوٹ مار وغیرہ جیسے حالات کو حالی نے علامتوں اور اشاروں کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اور بھی نئے مسائل اور نئے حالات کو حالی نے اپنی غزلوں کا حصہ بنایا ہے۔ جیساکہ دلی کی تباہی کا حال انہوں نے  کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے    ؎

تذکرہ دہلی کا اے دوست نہ چھڑ

نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

            حالی نے اپنی غزلوں میں زندگی کے مسائل کو بھی بیان کیا ہے اور ساتھ ہی عشق کے موضوعات کو بھی بہت سادگی سے پیش کیا ہے، مثلاً:

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا

وہ وعدہ نہیں جو وفا ہوگیا

 

رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ

زندگی موت ہے حیات کے ساتھ

حالی کی غزلوں میں غزل مسلسل :

حالی کی غزلوں کی ایک خصوصیت غزل مسلسل ہے۔ یعنی حالی اپنی غزلوں میں ایک موضوع کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں۔ حالی ایک موضوع کو اپنی غزل میں اختیار کرتے ہیں۔ اور پھر تسلسل کے ساتھ اس کو کئی اشعار میں لاتے ہیں۔

حالی کی غزلوں میں طنز و مزاح:

حالی کی غزل گوئی کی ایک خصوصیت یہ کہ ان کی غزلوں میں  طنز و مزاح کے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ خاص کر جب حالی مولوی ، زاہد اور خطیب کو اپنے موضوع میں شامل کرتے ہیں تو ان کی ریاکاری اور بے عملی کو نشانہ بناتے ہیں۔

حالی کی غزلوں میں سادگی :

حالی کی غزلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت سادہ اور عام فہم زبان کو استعمال میں لاتے ہیں۔جب حالی نے شاعری میں اصول قائم کیے تو انہوں نے سب سے پہلے سادگی پر زور دیا۔ اور پھر عملی طور پر انہوں نے سادگی کی مثال بھی قائم کی۔ ان کی نثر اور شاعری دونوں سادگی کے بہترین نمونے ہیں۔ حالی نے  ہندی الفاظ اور بول چال کے الفاظ  کو بھی استعمال میں لایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے محاوروں کےذریعہ بھی اپنی غزلوں کو خوبصورت بنایا ہے۔ اس طرح حالی نے غزل کی روایت میں حصہ لے کر قیمتی اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments