مولوی عبد الحق اور ان کی نثری خدمات
مختصر تعارف : مولوی عبد الحق اردو ادب کےاہم ادیب، نقاد، محقق، مترجم، تبصرہ نگار،
مضمون نگار اورخاکہ نگار کی حیثیت سے جانے
ہیں۔ مولوی عبد الحق نے پوری زندگی اردو
ادب کی خدمت اور اس کی ترقی میں لگا دی تھی۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ اردو
ادب میں قیمتی اضافہ کیا۔ خاص کر انہوں نے اردو ادب کے قدیم مخطوطات اور کتابوں کو
جو الماریوں وغیرہ میں بند پڑی تھیں اور
ان کتابوں کے برباد ہوجانے ڈر تھا ان کو ترتیب د ے کر اور ان پر مقدمہ لکھ کر شائع
کیا۔ اس پیش قدمی کی بدولت آج وہ پرانی
کتابیں محفوظ ہیں۔ انہی تمام کارناموں اور خدمات کو دیکھتے ہوئے مولوی عبد الحق کو ’’بابائے اردو‘‘
کا لقب ملا۔ ۱۹۳۵ میں یہ خطاب ان کو جامعہ عثمانیہ کے طالب علم محمد یوسف نے عطا کیا تھا۔
بابائے اردو مولوی
عبدالحق ۲۰ اپریل ۱۸۷۰ کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی
حاصل کی۔ پھر آگے کی تعلیم میرٹھ میں حاصل کرنے کے بعد مولوی عبد الحق محمڈن
اینگلو اورینٹل کالج (علی گڑھ) گئے۔ وہاں سے انہوں نے ۱۸۹۵ میں بی۔اے کی ڈگری حاصل
کی۔ علی گڑھ میں ان کو تعلیم اور ادبی ماحول ملا۔ یہ ماحول ا ن کے لیے بہت مفید
ثابت ہوا۔ تعلیم کے بعد انہوں نے ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۱۱ میں مولوی عبد الحق
انجمن ترقی اردو کے سکریٹری بھی بنے۔ اسی طرح عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ ترجمہ سے جڑ کر بھی انہوں نے اردو کی خدمت کی۔ ۱۹۳۰ میں عثمانیہ یونیورسٹی کے
شعبہ اردو کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو سے منسلک رہ کر اردو کی خدمت کرتے رہے۔ تقسیم
ہند کے بعد مولوی عبد الحق کراچی چلےگئے تھے۔ کا انتقال ۱۶ اگست ۱۹۶۱ کو کراچی میں
ہوا۔
مولوی عبدا لحق کی نثری خصوصیات :
مولوی عبدا لحق نے
کئی نثری اصناف میں حصہ لے کر اردو ادب کے سرمائے میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ خاکہ
نگاری پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بہت سے خاکے لکھے۔ ان کے خاکوں
کا مجموعہ ’’چند ہم عصر‘‘ ہے۔ اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے خاکوں کی خصوصیت
یہ ہے انہوں نے اپنے خاکوں میں شیریں زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کی زبان صاف اور
سادہ ہے۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے خاکہ نگاری کے تمام لوازمات کو مدنظر
رکھا ہے۔ مولوی عبدالحق شخصیات کی خامیوں کو نہیں ابھارتے بلکہ انہوں نے بہت ہی ایمانداری اور صفائی کے ساتھ شخصیات کے
اوصاف بیان کیے ہیں۔
اسی طرح مولوی
عبدا لحق نے تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی
لکھے۔ یہ مضامین بھی اردو ادب کے لیے قیمی سرمایہ کی حیثیت رکھے ہیں۔انہوں نے جتنے
بھی تحقیقی مضامین لکھے ان میں صفائی کا خاص خیال رکھا اور دلیلوں کے ذریعے اپنی
باتوں کو ثابت کیا ہے۔
دیکھا جائے تو
مولوی عبد الحق نثر میں سرسید کی طرح مقصدیت کے بھی قائل تھے۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس
پہلو پر کافی زور دیا ہے۔ انہوں نے ادب کو وقت گزاری اور تفریح کا ذریعہ نہیں
سمجھا۔ بلکہ ان کا ماننا تھا کہ ادب زندگی کو سدھارنے کا بہتر آلہ ہے۔ اس لیے ادب
کو بامعنی اور بامقصد ہونا چاہیے۔ اسی طرح ان کے یہاں لفظ ومعنی دونوں کو یکساں
اہمیت حاصل ہے۔ ان کے نزدیک سادہ زبان لکھنا بہت مشکل کام ہے اور جو سادہ نہیں لکھ
سکتے وہی مشکل زبان میں لکھتے ہیں۔ شاعرانہ زبان یعنی تشبیہات و استعارات اور دیگر
شعری وسائل کے ذریعے نثر کو رنگین بنانا ان کے نزدیک نثر کی خامی تھی۔ یہ بات درست
بھی ہے کیونکہ اس سے عبارت کو سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بہر حال مولوی
عبد الحق نے نثر کی خوبی اور خامی کو نہ صرف دکھایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی تحریروں
میں اس راستے کو اختیار کرتے ہوئے ثابت بھی کیا ہے کہ اچھی نثر کیسی ہوتی ہے۔ ان
کی نثر میں بھاری یا مشکل الفاظ نہیں، نہ ہی تشبیہات و استعارات کے ذریعہ انہوں نے
اپنی تحریرکو رنگین بنانے کی کوشش کی ہے۔ نہ تو ان کی عبارت میں بناوٹ کا احساس
ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خیالات ان کی نثر میں آئینے کی طرح بالکل صاف اور
واضح ہیں۔ مولوی عبد الحق نے اپنے خیالات کے اظہار میں اتنے ہی الفاظ کا استعمال کیا
ہے جتنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مولوی عبد الحق
کی تحریروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے بعض مقام پر یہاں تک کہ سنجیدہ
موضوعات پر بھی لکھتے وقت بیچ بیچ میں ظریفانہ جملوں کو بھی لایا ہے۔ انہوں نے پر
لطف باتوں کے ذریعے اپنی تحریروں کودلکش بنایا ہے۔
ان کی تحریروں
میں طنز کی جھلک بھی موجود ہے۔ انہوں نے بڑی بے باکی سے ہر چھوٹے بڑے کو طنز کا
نشانہ بنایا ہے۔اور ہر ایک پہلو کو صاف انداز میں بیان کیا ہے۔
مولوی عبد الحق
کی معروف و مقبول تصانیف میں مرحوم دلی کالج، چند ہم عصر، اردو کی ابتدائی نشو
ونما میں صوفیائے کرام کاحصہ اور اردو کا المیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments