پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کی لسانی و ادبی خدمات | Pandit Brij Mohan Dattatreya Kaifi

پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کی لسانی و ادبی خدمات

            پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ۱۳ دسمبر  ۱۸۶۶ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق  کشمیری پنڈتوں کے ایک معزز خاندان سے  تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ وہاں سے انہوں نے اردو اور فارسی کی تعلیم پائی۔ اس کے بعد کیفی اسکول گئے اور وہاں سے انہوں نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے بی۔ اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان کا انتقال ۱ نومبر ۱۹۵۵ میں ہوا۔

کیفی کو اردو اور فارسی سے کافی دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اردو فارسی کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ان کی دلچسپی کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نےاردو زبان کو اختیار کرکے اپنی شعری و نثری تخلیقات کے ذریعہ اردو زبان کی خدمت کی۔

اردو زبان کی خدمت کے حوالے سے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو ہندی جھگڑےکے وقت مولوی عبد الحق کا بہت ساتھ دیا۔ مولوی عبد الحق جنہوں نے انجمن ترقی اردو سے جڑ کر اردو کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، کیفی جب تک دہلی میں رہے مولوی عبد الحق کا ساتھ دیتے رہے۔ اوراردو کو فروغ دینے میں ان کے ساتھ بنے رہے۔اسی طرح آزادی کے بعد جب ہنگامے میں انجمن ترقی اردو کو برباد کردیا گیا تھا تو کیفی کی کوششوں اور محنتوں سے دوبارہ اس کو  زندگی ملی۔ اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کیفی  کو اردو سے کتنی محبت تھی۔

کیفی نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ بھی اردو کی خدمت کی۔ انہوں نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں قدم رکھ کر اردو ادب کی خدمت کی۔ کیفی جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثر نگار بھی تھے۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے کیا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کردی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ۹ یا ۱۰ سال کی عمر میں ہی پہلا شعر کہا تھا۔ شاعری میں  ان کی  غزل، نظم، مثنوی، مسدس، مربع اور مخمس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

کیفی کی نثری خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کے نثری کارناموں اور خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ یعنی کیفی ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انشا پرداز ، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، مضمون نگار، محقق اور مترجم بھی تھے۔خاص کر ان کو ڈرامے میں کافی دلچسپی تھی۔ ان کا پہلا ڈراما ’’راج دلاری‘‘ ہے۔ اسی طرح ان کے ناول اور دوسرے نثری کارنامے بھی کافی اہم ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے انشا کی دریائے لطافت کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ اس سے ان کو کافی شہرت ملی۔ کیفی ایک محقق بھی تھے۔ بلکہ لسانیات اور تحقیق ان کا خاص میدان تھا۔ اس سلسلے میں ان کی دو کتابیں ’’منشورات‘‘ اور ’’کیفیہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے دیگر تحقیقی مضامین بھی بہت اہم ہیں۔ منشورات میں بھی ان کے لکچر اور مضامین شامل ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر مضامین میں اردو زبان کو موضوع بنایا اور زبان کی غلطیوں کی اصلاح کی۔ کیفی عربی، فارسی الفاظ اور تراکیب کے استعمال کے خلاف تھے۔ کیفی نہیں چاہتے تھے کہ اردو کو عربی و فارسی کے الفاظ و تراکیب کے استعمال کے ذریعہ عبارت کو مشکل  اور بھاری بنایا جائے۔ بلکہ کیفی سادگی اور سہل  پسندی کے قائل تھے۔ انہوں نے نہ صرف کہا بلکہ عملی طور پر کر کے بھی دکھایا۔ یعنی انہوں نے اپنی تخلیقات اور ترجمے میں سادہ اور عام فہم زبان کا ہی استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری کی زبان بھی سادہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے ڈرامے، ناول، افسانے اورمضامین وغیرہ  ہر جگہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ زبان آسان رہے تاکہ قاری کو آسانی سے باتیں سمجھ میں آسکیں۔ یہاں تک کہ علمی اور تحقیقی مضامین میں بھی انہوں نے اس کا خاص خیال رکھا ہے۔

کیفی کو لسانیات سے بھی دلچسپی تھی۔ اس پر انہوں نے بہت سے مضامین بھی لکھے۔ انہوں نے اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ ساتھ ہی الفاظ، مرکبات، محاورات، ضرب المثل، تذکیر و تانیث وغیرہ پر بھی بحث کی ہے۔ اسی طرح قواعد زبان، بیان و بلاغت اور اسلوب کے مسائل پر بھی انہوں نے اپنا اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سادگی اور صفائی سے ان تمام مسائل پر بحث کی ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments