رشید احمد صدیقی | Rasheed Ahmad Siddiqui

رشید احمد صدیقی

رشید احمد صدیقی کی پیدائش ۲۴ دسمبر ۱۸۹۲ کو جونپور(اترپردیش)  میں ہوئی۔ انہوں نے وہیں سےابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد رشید احمد صدیقی نے  اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی کا گڑھ کا رخ کیا۔ چونکہ ان کی مالی حالت بہتر نہ تھی اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کچہری میں نوکری بھی کرتے رہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر بھی بنے۔ ان کا انتقال علی گڑھ میں ہی ۱۹۷۷ میں ہوا۔

رشید احمد صدیقی ایک محقق اور ناقد تھے  لیکن انہیں شہرت طنز و مزاح نگاری میں ملی۔ یعنی رشید احمد ایک طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے انشائیے،خاکے اور مضامین وغیرہ کثرت سے لکھے۔ اس سلسلے ان کی مشہور کتابیں آشفتہ بیانی میری، گنجہائے گراں مایہ اور ہم نفسان رفتہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ان کے مضامین کا مجموعہ  ’’مضامین رشید‘‘ بھی کافی اہم ہے۔ ان کے مضامین کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں، ناہمواریوں اور خرابیوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ان کا طنز پاک صاف اور عمدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو موضوع بنایا ہے۔ رشید احمد صدیقی سماج کے ہر طبقےکو نشانہ بناتے ہیں چاہے وہ عام انسان ہوں یا کوئی لیڈر، آفیسر، معلم، دکیل ہو یا ایڈیٹر ۔ خاص بات یہ ہے  کہ انہوں نے شہری زندگی کے ساتھ ساتھ دیہاتی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایسے ایسے پہلوؤں  کو نمایاں کیا  ہے جن کے بارے میں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔

رشید احمد صدیقی کی تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ علمی ہوتی ہے۔ یعنی ان کا انداز زیادہ تر عالمانہ ہوتا ہے۔ انہوں نے شعر و ادب کے ساتھ سیاست، تاریخ اور دیگر علوم کو ملاکر پیش کیا۔ اس سے عام لوگوں کو ان کی تحریر سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ یعنی ان کی تحریر وہی سمجھ سکتا ہے اور لطف حاصل کرسکتا ہے جو عالم ہو اور ادبی فہم رکھتا ہو۔

دیکھا جائے تو ان کے یہاں مقامی رنگ بھی موجود ہے۔ رشید احمد صدیقی کی وابستگی علی گڑھ سے زیادہ رہی۔ اس لیے ان کے یہاں علی گڑھ کا اثر صاف طور پر نظر آتا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے اپنی تحریروں میں جس بھی موضوع کو اختیار کیا ہے وہاں علی گڑھ کا ذکر ضرور موجود ہے۔ یعنی ان کی شخصیت میں علی گڑھ رچ بس گیا تھا جس کا نکلنا مشکل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ لیکن بعض نقادوں نے اسے خامی تصور کیا۔ کیونکہ جو شخص علی گڑھ اور وہاں کی روایات سے واقف ہوگا وہی ان کی تحریر سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا دائرہ بہت محدود تھا۔

لیکن اس کے باوجود ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کو آسان اور عام فہم بھی بناکر پیش کیا ہے۔ ان کی زبان و اسلوب پر بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں زبان پر مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے موقع و محل کی مناسبت سے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے لیکن جہان علمی گفگتو کرتے ہیں وہاں بوجھل پن کا احساس ہوتا ہے۔

دیکھا جائے تو رشید احمد صدیقی نے طنز و مزاح پر زیادہ زور دیا ہے۔ اسی  کی بدولت  رشید احمد صدیقی اردو دنیا میں کافی مقبول ہوئے۔انہوں نے طنز و مزاح کو بہت خوبصورتی سے اپنایا ہے۔ بہر حال اس طرح رشید احمد صدیقی نے اردو طنز و مزاح نگاری کو بلندی عطا کی اور اپنے قیمتی سرمایوں سے اردو ادب میں اہم اضافہ کیا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments