راشد الخیری کی نثر نگاری | Rashidul khairi ki nasr nigari

 راشد الخیری کی نثر نگاری

مختصر تعارف :        علامہ راشد الخیری  کی پیدائش ۱۸۶۸ کو دہلی میں ہوئی۔ ان کا  نام محمد عبد الراشد تھا مگر وہ راشد الخیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبد الواجد تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد ان کے پھوپھا تھے۔ راشد الخیری ننھیال کی طرف سے بہادر شاہ ظفر کے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا عبدالقادر سے حاصل کی۔ اس کے بعد ان کا داخلہ عربی مدرسہ میں ہوا۔ راشد الخیری کو انگریزی سے دلچسپی تھی۔ انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین میں ان کو کوئی خاص  دلچسپی  نہ تھی۔ جب ان کے دادا اور پھر والد صاحب کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کردیا۔ اور محض نویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کر سکے۔  راشد الخیری کا انتقال ۱۹۳۶ کو دہلی میں ہوا۔

راشد الخیری کا ادبی سفر

راشد الخیری کے مضامین اور موضوعات:

مولانا راشد الخیری نے ادبی سفر کا آغاز مضامین سے کیا۔  انہوں نے شروع میں جو مضامین لکھے وہ رسالہ ’’مخزن‘‘ میں چھپتے رہے اور پھر بعدمیں انہوں نے خود بھی کئی رسالے نکالے۔ خصوصاً انہوں نے عورتوں کی بری حالت کو دیکھ کر ان کی اصلاح کے لیے ’’بنات‘‘، عصمت، جوہر نسواں، سہیلی اور تمدن جیسے  رسالے بھی نکالے۔ انہوں نے عورتوں کی حالت دیکھی۔ ان پر ہونے والے مظالم کا بھی مشاہدہ کیااور پھر انہوں نے ان کے ہر ایک پہلو کو درد بھرے انداز میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو مصور غم بھی کہا جاتا ہے۔

ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پرانی تہذیب پر چلنے پر زیادہ زور دیا ہے اور نئی تہذیب کی مخالفت کی ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور نو عمر لڑکیوں کو نئی تہذیب سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے مسلم سماج کی عورتوں کی حالت کو دیکھ کر بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی حالت میں بہتری لانے کے لیے مضامین، افسانے اور ناول وغیرہ لکھے۔

راشد الخیری کے ناول اور افسانے  اور ان کے موضوعات:

راشد الخیری نے مضامین کے علاوہ افسانے اور ناول وغیرہ بھی لکھے اور ہر جگہ تقریباً ان کے موضوعات اصلاح معاشرہ، حقوق نسواں اور عورتوں کے مختلف مسائل وغیرہ ہیں۔ خصوصاً ان کے موضوعات میں مسلم معاشرہ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ عام معاشرہ بھی ان کے تحریروں کا حصہ ہے۔

راشد الخیری کے افسانوں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی معاشرے کی اصلاح کا پہلو  غالب ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے افسانے میں معاشرتی اصلاح پسندی کی بنیاد ڈالی۔اسی طرح ان کے ناول بھی انہی موضوعات کے حامل ہیں۔ انہوں نے عورتوں کی حالت زار کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بری رسم و رواج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے متوسط طبقے کی گھریلو زندگی کے مسائل کو بھی پیش کیا ہے۔

راشد الخیری نے تاریخ اور سیرت پر بھی ناول لکھے۔ وہاں بھی ان کا مقصد اصلاح معاشرہ ہے۔ یعنی راشد الخیری تاریخ کے ذریعہ ماضی میں جاتے ہیں اور وہاں سے اصلاح معاشرہ کا پہلو نکالتے ہیں۔

بہر حال اس طرح انہوں نے ان تمام اصناف کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی۔ انہوں نے مذکورہ مسائل پر کھل کر لکھا۔ ان کی کتابوں کی تعداد تقریباً ۸۰ ہے۔ ان میں سمرنا کا چاند، صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی، نوحہ زندگی، ماہ عجم، جوہر عصمت، آمنہ کا لال، محبوب خداوند، عروس کربلا، بنت الوقت، سیدہ کا لال، روداد قفس، فریب ہستی  اور عالم نسواں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

راشد الخیری کا اسلوب

پر اثر انداز :

راشد الخیری کی نثر  کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کی حالت کو بہت پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی ان کی تحریروں میں ان کے تئیں ہمدردی بھی موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ  غم کی ایسی تصویر سامنے لاتے ہیں جس سے ان کی تحریر مزید پر اثر ہو جاتی ہے۔

سادہ اور عام فہم زبان :

راشد الخیری کی نثر کی ایک خصوصیت یہ ہے انہوں نے جو کچھ لکھا بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کی نثر پڑھ کر قاری کو کہیں پر بھی دقت یا الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اسی طرح ان کا جو انداز بیان ہے وہ بھی بہت پر اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ان کی تحریروں کو پڑھ کر بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے۔ انہوں نے موقع و محل کے اعتبار سے محاوروں کا بھی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح ان کے فقرے بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ جن کے اندر بھی اثر موجود ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments