Allama Iqbal ka taaruf | علامہ اقبال کا تعارف

 علامہ اقبال

علامہ اقبال کا پورا نام شیخ محمد اقبال تھا اور اقبال ان کا تخلص تھا۔ اقبال کو حکیم الامت اور شاعرِ مشرق کے القاب بھی عطا کیے گئے۔ علامہ اقبال کا تعلق ایک کشمیری برہمن سے تھا۔ ان کے اجداد میں بابا صالح نے سترہویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا۔اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو ہوئی۔  ان کے والد کا نام شیخ نور محمدتھا۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم مکتب ’عمر شاہ‘ میں حاصل کی۔ اس کے بعد ۱۸۸۳  میں انہوں نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔۱۸۹۳ میں انہوں نے میٹرک اور ۱۸۹۵ میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۷ میں علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۹ میں اسی کالج سے انہوں نے فلسفے میں ایم۔اے کیا۔ایم۔اے میں ان کے استاد پروفیسر آرنلڈ تھے جس سے اقبال کافی مستفید ہوئے۔ نظم ’نالۂ فراق‘‘ انہی کی یاد میں انہوں نے لکھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی کالج میں علامہ اقبال اسسٹینٹ پروفیسر مقرر کیے گئے۔ اس کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علامہ اقبال ۱۹۰۵ میں یورپ گئے۔وہاں کیمبرج یونیورسٹی میں انہوں نے داخلہ لیا۔ ۱۹۰۷ یا ۱۹۰۸ میں انہوں نے جرمنی کے میونخ یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا جس کا عنوان ’’ایران میں علم ما بعد الطبیعات کا ارتقا‘‘ ہے۔ ۱۹۰۸ میں اقبالؔ واپس ہندوستان آئے۔ ۱۹۲۳ میں حکومت کی طرف سے انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا گیا۔ ۱۹۳۱ میں انہوں نے دوسری گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کی ۔ اسی طرح ۱۹۳۲ کی تیسری گول میز کانفرنس میں بھی اقبالؔ شریک ہوئے۔

علامہ اقبال کو مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں بھی عطا کی گئیں۔ ۱۹۲۹ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے،۱۹۳۳ میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے، ۱۹۳۶ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی جانب سے، ۱۹۳۷ میں الٰہ آباد یونیورسٹی کی جانب سے  اور ۱۹۳۸ میں عثمانیہ یونیورسٹی کی طرف سے  انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی گئیں۔علامہ اقبالؔ  کا انتقال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو لاہور میں ہوا۔

علامہ اقبال کی شعر گوئی

            علامہ اقبال اردو زبان کے ایک عظیم شاعر تھے۔ انہوں نے نظمیں اور غزلیں بھی کہیں۔ لیکن نظم نگاری میں انہیں کافی شہرت ملی۔ انہوں نے اپنی شاعری کو بامقصد بنایا۔ خاص کر اپنی شاعری کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی موجود ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفے کو بھی پیش کیا ہے۔ خصوصاً عرفان ذات اور خودی کا فلسفہ ان کے یہاں غالب نظر آتا ہے۔

            علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے اشعار مختلف ادوار پر محیط ہیں۔ ان میں تین ادوار قابل ذکر ہیں۔

علامہ اقبال کی شاعری کا پہلا دور:

            علامہ اقبال کی شاعری کے پہلے دور کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شاعری کا آغاز پنجابی میں کیا۔ جب ان کے استاد مولوی میر حسن نے ان کو اردو میں شعر گوئی کا مشورہ دیا تو انہوں نے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔ پھر جلد ہی انہوں نے جلسوں اور مشاعروں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ ’نالہ یتیم‘ ان کی مشہور نظم ہے جو ان کی ابتدائی نظم ہے۔ اس نظم کے ذریعے اقبال کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ اسی نظم کے ذریعے انہوں نے باقاعدہ نظم نگاری کا آغاز کیا۔

            اقبالؔ کے پہلے دور کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ شروع میں ان کا رجحان غزل گوئی کی طرف بھی رہا۔ ان ابتدائی غزلوں میں ان کے استاد داغ دہلوی کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن اقبالؔ کا اصل میدان نظم نگاری ہے۔ ان کی پہلی مطبوعہ نظم ’ہمالہ‘ ہے۔ اقبال کی ابتدائی نظموں میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانہ ہندی اور جگنو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اقبال کی ابتدائی نظموں میں مناظر قدرت، وطنیت،قومیت کے موضوعات کثرت سے نظر آتے ہیں۔

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور:

            ۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک کی اقبال کی شاعری کو دوسرے دور میں رکھا گیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں مختلف تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔اس دور کی شاعری میں معاشرتی اور سیاسی مسائل بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ملک، ملت اور قوم کے نام ان کا پیغام بھی غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پیامی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

اقبال کی شاعری کا تیسرا دور:

            اقبال کی شاعری کا تیسرا دور اقبال کے سفر یورپ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کی شاعری میں ملت اور قوم کو بیدار کرنے کا جذبہ بہت واضح نظر آتا ہے۔ انہوں نے انگریزوں اور ان کی پالیسیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔ خاص کر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں کا پردہ فاش کیا ہے۔اسی طرح انہوں نے مسلمانوں کے دلی جذبات کی ترجمانی بھی کی ہے۔ مسلمان احساس کمتری کا شکار ہونے لگے تھے، اقبال نے  اپنی شاعری کے ذریعے انہیں ماضی کی یاد دلائی اور ان کی خودی کو ابھارا۔ اس دور کی شاعری میں اقبال کے فلسفیانہ خیالات و افکار میں وسعت دیکھی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments