Aziz Lakhnavi ki ghazal goi | عزیز لکھنوی کی غزل گوئی

عزیز لکھنوی کی غزل گوئی

عزیز لکھنوی کا اصل نام مرزا محمد ہادی تھا  اور عزیز ان کا تخلص تھا۔ عزیز کی پیدائش ۱۸۸۲ کو لکھنئو میں ہوئی۔ عزیز  کا خاندان علم و ادب کا گہوراہ تھا۔ اس کا اثر عزیز پر بھی پڑا۔ عزیز  نے صرف و نحو، فقہ، ادبیات اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائے عمر سے ہی انہیں شاعری کا شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھ کر غزل گوئی اور قصیدہ نگاری کی روایت میں اہم اضافہ کیا۔ گل کدہ، انجم کدہ اور صحیفۂ ولا ان کے شعری مجموعے ہیں۔ عزیز لکھنوی کا انتقال ۱۹۳۵ میں ہوا۔

عزیز لکھنوی کا تعلق لکھنئو سے تھا لیکن انھوں نےدبستان لکھنئو سے انحراف کیا ہے۔ یعنی ان کی غزلوں میں لکھنئو کا رنگ نظر نہیں آتا ہے بلکہ انھوں نے میرؔ اور غالبؔ کی تقلید  کرکے اردو غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے غالبؔ کے خیال کی گہرائی، میؔرکا سوز و گداز اور ان کی سادہ زبان اور لکھنئو کی زبان کے امتزاج کے ذریعے ایک نئے رنگ و اسلوب کو جنم دیا ہے۔

غالبؔ کی تقلید میں انھوں نےمحض غالبؔ کے خیالات و فکرکی گہرائی کو اخذ کیا ہے۔ ان کی طرح عزیرؔ نے فارسی الفاظ و تراکیب کا زیادہ استعمال نہیں کیا ہے لیکن فارسی کا اثر ضرور  نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقام پر ان کے اشعار کو سمجھنےدقت پیش آتی ہے۔اس پر بعض لوگوں کو اعتراض بھی تھا۔

میرؔ کے رنگ کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عزیز نے میرؔ کی طرح دنیا کی بے ثباتی، انسانی ناکامی، مایوسی، اداسی اور غم سے اپنے اشعار کو بھر دیا ہے۔ عزیزؔ نے اس کا اظہار بھی کیا ہےکہ ان کو میرؔ  کا رنگ بہت پسند تھا۔ یہی  وجہ سے کہ ان کا رنگ ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ خاص کر یاس پسندی کا رنگ اتنا غالب ہے کہ ان کی شاعری کو ماتمی شاعری کا نام بھی دیا گیا ہے۔

عزیزؔ نے عشق و محبت کو بھی موضوع بنایا ہے۔اس سلسلے میں بھی عزیزؔ لکھنئو کے رنگ کو نہیں بلکہ دہلی کے رنگ کو اختیار کرتے ہیں۔ عشقیہ مضامین میں عزیزؔ ہجر وفراق کے صدمات، دکھ درد کا ذکر سادگی سے کرتے ہیں۔ اہل لکھنئو کی طرح ان کی شاعری میں سطحیت یا ابتذال نہیں بلکہ ان کا عشق بہت صاف ستھرا ہے۔ عزیز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے عشق مجازی کے ساتھ عشق حقیقی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں بھی انھوں  نے لکھنئو کی روایت سے انحراف کیا ہے۔

عزیزؔ لکھنوی کی غزل گوئی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں بھی بہت معنویت اور فکری گہرائی موجود ہے۔ان کا خیال سطحی نہیں تھا بلکہ ان کا خیال بہت بلند ہوتا ہے۔ ان کے یہاں تکلف، تصنع، بناوٹ اور مبالغہ بھی نہیں ہے۔

عزیزؔ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ کسی ایک موضوع کو اختیار کرتے ہیں تو اسے مختلف رنگ عطا کرتے ہیں اور مختلف طریقے سے اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔

عزیزؔ لکھنوی نے دہلی کے رنگ کو اختیار کرتے ہوئے لکھنئو کی زبان سے سلاست اور شیرینی لی ہے۔ اور ان دونوں کے آپسی ملاپ سے ایک الگ رنگ پیدا کیا ہے۔ زبان کو حوالے سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عزیزؔ کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ عزیزؔ عربی اور فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے غیر مانوس تشبیہات و استعارات کے استعمال سے بھی اپنی شاعری کو محفوظ رکھا ہے۔

ان تمام خصوصیات کی بنا پر عزیز لکھنوی غزل کی دنیا میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے ان کی شاعری الگ پہچان رکھتی ہے۔ میرؔ اور غالبؔ کی تقلید کرکے لکھنئو کی زبان میں سادگی سے شاعری کرکے ایک نئے انداز و اسلوب کو جنم دینے کی وجہ سے عزیزؔ لکھنوی منفرد شناخت کے حامل ہیں۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                           

عزیز لکھنوی کا اصل نام مرزا محمد ہادی تھا  اور عزیز ان کا تخلص تھا۔ عزیز کی پیدائش ۱۸۸۲ کو لکھنئو میں ہوئی۔ ان کا خاندان علم و ادب کا گہوراہ تھا۔ اس کا اثر عزیز پر بھی پڑا۔ انھوں نے صرف و نحو، فقہ، ادبیات اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائے عمر سے ہی انہیں شاعری کا شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھ کر غزل گوئی اور قصیدہ نگاری کی روایت میں اہم اضافہ کیا۔ گل کدہ، انجم کدہ اور صحیفۂ ولا ان کے شعری مجموعے ہیں۔ عزیز لکھنوی کا انتقال ۱۹۳۵ میں ہوا۔

عزیز لکھنوی کا تعلق لکھنئو سے تھا لیکن انھوں نےدبستان لکھنئو سے انحراف کیا ہے۔ یعنی ان کی غزلوں میں لکھنئو کا رنگ نظر نہیں آتا ہے بلکہ انھوں نے میرؔ اور غالبؔ کی تقلید  کرکے اردو غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے غالبؔ کے خیال کی گہرائی، میؔرکا سوز و گداز اور ان کی سادہ زبان اور لکھنئو کی زبان کے امتزاج کے ذریعے ایک نئے رنگ و اسلوب کو جنم دیا ہے۔

غالبؔ کی تقلید میں انھوں نےمحض غالبؔ کے خیالات و فکرکی گہرائی کو اخذ کیا ہے۔ ان کی طرح عزیرؔ نے فارسی الفاظ و تراکیب کا زیادہ استعمال نہیں کیا ہے لیکن فارسی کا اثر ضرور  نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقام پر ان کے اشعار کو سمجھنےدقت پیش آتی ہے۔اس پر بعض لوگوں کو اعتراض بھی تھا۔

میرؔ کے رنگ کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عزیز نے میرؔ کی طرح دنیا کی بے ثباتی، انسانی ناکامی، مایوسی، اداسی اور غم سے اپنے اشعار کو بھر دیا ہے۔ عزیزؔ نے اس کا اظہار بھی کیا ہےکہ ان کو میرؔ  کا رنگ بہت پسند تھا۔ یہی  وجہ سے کہ ان کا رنگ ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ خاص کر یاس پسندی کا رنگ اتنا غالب ہے کہ ان کی شاعری کو ماتمی شاعری کا نام بھی دیا گیا ہے۔

عزیزؔ نے عشق و محبت کو بھی موضوع بنایا ہے۔اس سلسلے میں بھی عزیزؔ لکھنئو کے رنگ کو نہیں بلکہ دہلی کے رنگ کو اختیار کرتے ہیں۔ عشقیہ مضامین میں عزیزؔ ہجر وفراق کے صدمات، دکھ درد کا ذکر سادگی سے کرتے ہیں۔ اہل لکھنئو کی طرح ان کی شاعری میں سطحیت یا ابتذال نہیں بلکہ ان کا عشق بہت صاف ستھرا ہے۔ عزیز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے عشق مجازی کے ساتھ عشق حقیقی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں بھی انھوں  نے لکھنئو کی روایت سے انحراف کیا ہے۔

عزیزؔ لکھنوی کی غزل گوئی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں بھی بہت معنویت اور فکری گہرائی موجود ہے۔ان کا خیال سطحی نہیں تھا بلکہ ان کا خیال بہت بلند ہوتا ہے۔ ان کے یہاں تکلف، تصنع، بناوٹ اور مبالغہ بھی نہیں ہے۔

عزیزؔ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ کسی ایک موضوع کو اختیار کرتے ہیں تو اسے مختلف رنگ عطا کرتے ہیں اور مختلف طریقے سے اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔

عزیزؔ لکھنوی نے دہلی کے رنگ کو اختیار کرتے ہوئے لکھنئو کی زبان سے سلاست اور شیرینی لی ہے۔ اور ان دونوں کے آپسی ملاپ سے ایک الگ رنگ پیدا کیا ہے۔ زبان کو حوالے سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عزیزؔ کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ عزیزؔ عربی اور فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے غیر مانوس تشبیہات و استعارات کے استعمال سے بھی اپنی شاعری کو محفوظ رکھا ہے۔

ان تمام خصوصیات کی بنا پر عزیز لکھنوی غزل کی دنیا میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے ان کی شاعری الگ پہچان رکھتی ہے۔ میرؔ اور غالبؔ کی تقلید کرکے لکھنئو کی زبان میں سادگی سے شاعری کرکے ایک نئے انداز و اسلوب کو جنم دینے کی وجہ سے عزیزؔ لکھنوی منفرد شناخت کے حامل ہیں۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                         

Post a Comment

0 Comments