Josh Malihabadi ki nazm nigari | जोश मलीहाबादी की नज़्म निगारी | جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری

 جوش ملیح آبادی

مختصر تعارف:

جوش ملیح آبادی کی پیدائش ۵/دسمبر ۱۸۹۸ کو ملیح آباد (یو۔پی)میں ہوئی۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان اور تخلص جوش ہے۔ شاعر انقلاب، شاعر اعظم، شاعر فطرت، شاعر شباب، شاعررومان وغیرہ جوش  کے القاب ہیں۔ جوش کے والد کا نام بشیر احمد خاں  بشیرؔ تھا۔ ان کے دادا کا نام محمد احمد خان احمدتھا۔ مشہور شاعر فقیر محمد خان گویاؔ ان کے پر دادا تھے۔

جوش نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ شروع میں انھوں نے اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم پائی۔ مزید تعلیم کی حصولیابی کے لیے انھوں نے لکھنئو، علی گڑھ اور آگرہ کا بھی رخ کیا۔ لیکن والد صاحب کے جلد انتقال کر جانے کی وجہ سے جوش ملیح آبادی اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ ۱۹۲۴ میں جوش حیدرآباد گئے۔ وہاں دارالترجمہ میں انہیں ملازمت ملی۔ لیکن جلد ہی وہاں سے دہلی لوٹ آئے۔ دہلی میں انھوں نے ’’کلیم‘‘ کے نام سے ایک ماہ نامہ جاری کیا جو چار سال تک نکلتا رہا۔ اس کے بعد انھوں نے ممبئی کا رخ کیا اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔ بعد میں انھوں نے ’’آجکل‘‘ کی ادارت بھی کی۔ تقسیم ہند کے بعد جوش پاکستان ہجرت کرگئے۔ ۲۲ فروری ۱۹۸۲ میں ان کا انتقال اسلام آباد میں ہوا۔

جوش ملیح آبادی کی ادبی خدمات:

جوش ملیح آبادی اردو کے بڑے اور اہم شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمت کی۔ اسی خدمت کی بدولت ۱۹۵۵ میں انہیں پدم بھوشن ایوارڈ بھی ملا۔ شعلہ و شبنم، عروش و فروش، حرف و حکایت، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، سرود و خروش، سموم و صبا، طلوع فکر، الہام و افکار، نجوم و جواہر،روح ادب، آواز حق، شاعر کی راتیں، نقش و نگار، فکر و نشاط، جنوں و حکمت، عرش و فرش، عروس ادب، اوراق زریں، آیات و نغمات، جذبات فطرت،یادوں کی برات وغیرہ ان کے اہم ادبی کارنامے ہیں۔

جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری

جوش ملیح آبادی اردو شاعری کی روایت میں ایک اہم اور معروف و مقبول نام ہے۔ جوش نے اردو شاعری کو نیا رنگ، لہجہ اور اسلوب عطا کیا۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے ان کے اضافے قابل ذکر ہیں۔ شاعری میں ان کا اصل میدان نظم نگاری ہے۔ نظم نگاری میں انہیں کافی شہرت ملی۔ انھوں نے اپنی نظموں میں مختلف پہلوؤں کو موضوع بنایا۔ خاص کر انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے مختلف پہلوؤں کو انھوں نے اپنی نظموں میں جگہ دی ہے۔

جوش کی نظموں میں انقلابی رنگ:

جوش ملیح آبادی کی نظموں کا سب سے واضح پہلو ان کا انقلابی یا باغیانہ اسلوب ہے۔ انھوں نے ملک میں بڑھتے انگریزوں کے ظلم و ستم کو دیکھا۔ غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی مظلومیت دیکھی تو ان کے اندر انقلاب اور بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا۔ جس کا اظہار انھوں نے اپنی نظموں میں کیا ہے۔ اپنی نظموں کے ذریعے انھوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور مختلف سیاسی نظمیں لکھ کر انھوں نے تحریک آزادی میں حصہ بھی لیا۔ اپنی نظموں کے ذریعے انھوں نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جوش ملیح آبادی کو شاعر انقلاب کا لقب عطا کیا گیا۔

جوش کی ایسی نظمیں جو سیاست اور انقلاب یا تحریک آزادی پر مبنی ہیں وہاں جوش و جذبہ حد درجہ موجود ہے۔ ان کے الفاظ اور ان کا لہجہ بھی پر جوش ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں شکست زنداں کا خواب، ترانہ آزادی، کسان وغیرہ ان کی عمدہ نظمیں ہیں۔

جوش کی نظموں میں فطرت نگاری:

جوش کی نظموں میں فطرت نگاری کے بھی بہترین نمونے موجود ہیں۔ جوش نے مناظر فطرت کی عکاسی بہت دلکش انداز میں کی ہے۔ انھوں نے مناظر فطرت کی تصویر پیش کرنے میں اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس پہلو کے قائل بڑے بڑے نقاد بھی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے یہاں تک لکھا ہے کہ:

’’جوش نے مناظر فطرت پر جس کثرت سے نظمیں لکھی ہیں اس کی مثال پوری اردو شاعری میں نہیں ملے گی۔‘‘

جوش ملیح آبادی کی نظموں میں مناظر فطرت کی عمدہ تصویریں موجود ہیں۔ان کی نظموں میں مناظر فطرت کی مثالیں ایک دو نہیں بلکہ کثیر تعداد میں ہیں۔ اسی کے مدنظر جوش ملیح آبادی کو شاعر فطرت کا لقب بھی ملا۔ بدلی کا چاند، تاجدار صبح، البیلی صبح، برسات کی چاندنی، آبشار نغمہ، ساون کا مہینہ وغیرہ فطرت نگاری پر مبنی ان کی عمدہ نظمیں ہیں۔

جوش کی نظموں میں حسن و عشق:

جوش ملیح آبادی کی نظموں میں حسن و عشق کے موضوعات کی بھی کثرت ہے۔ انھوں نے حسن و عشق کی باتیں بہت خوبصورت انداز میں کی ہیں۔ حسن و عشق کے موضوعات کے مدنظر انہیں شاعر شباب کا لقب بھی ملا۔ حسن و عشق پر مبنی ان  کی نظموں میں مہترانی، مالن، جامن والیاں،اٹھتی جوانی، جوانی کے دن، جوانی کی رات، پہلی مفارقت، جوانی کا تقاضا، جوانی کی آمد آمد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جوش کی زبان:

جوش ملیح آبادی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انہیں زبان پر عبور حاصل تھا۔ جوش ملیح آبادی کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔انھوں نے مناسب الفاظ کے ذریعے اپنی زبان کو سنوارا۔ مناسب الفاظ کے انتخاب کے ذریعے انھوں نے اپنی زبان کو دلکش اور جاندار بنایا۔ اسی کے مدنظر جوش ملیح آبادی کو لفظوں کا بادشاہ بھی کیا گیا ہے۔

جوش کا لب و لہجہ:

جوش ملیح کی نظموں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں دو لہجے نظر آتے ہیں۔ غیر سیاسی نظموں میں ان کا لہجہ الگ ہے اور سیاسی موضوعات میں الگ۔ غیر سیاسی نظموں میں ان کے لہجے میں دھیماپن ہے اور سیاسی نظموں میں بلند آہنگی موجود ہے۔

جوش کی نظموں میں شعری وسائل:

جوش کی نظموں میں شعری وسائل بھی کافی متاثر کرتے ہیں۔ خصوصاً ان کی تشبیہات و استعارات میں حد درجہ لطافت موجود ہے۔ ان کے ذریعے جوش نے اپنی شاعری کو حسن عطا کیا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments