Nazeer akbarabadi ki nazm nigari | نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبرآبادی کا مختصر تعارف:

نظیر اکبرآبادی کا اصل نام ولی محمد اور ان کے والد کا نام سید محمد فاروق تھا۔ نظیر کی پیدائش دہلی میں ۱۷۳۵ میں ہوئی ۔ نظیر  نے عام رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ ہندی، پنجابی اور سنسکرت پر بھی نظیر کو مہارت حاصل تھی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے آس پاس کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ اسی سے ان کی روزی روٹی چلتی تھی۔ نظیر کا تعلق عوام سے گہرا تھا۔ نظیر عوام کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ انہیں اس کا فائدہ بھی ہوا۔ یعنی جب انہوں نے شعر گوئی کی ابتدا کی تو عوامی زبان و لہجہ کا سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوام میں کافی مقبول ہوئی۔ نظیر کا انتقال ۱۸۳۰ کو آگرہ میں ہوا۔

نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبرآبادی اردو کے ایک عظیم اور مقبول عام نظم نگار تھے۔ انہوں نے دیگر اصناف شاعری میں بھی طبع آزمائی کی لیکن انہیں مقبولیت نظم نگاری میں ملی۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ایسے دور میں نظم نگاری کی طرف رخ کیا جب ہر طرف غزل گوئی، قصیدہ گوئی اور مثنوی نگاری وغیرہ کا خوب چلن تھا۔ اس وقت ان کے سامنے نظموں کے خاص نمونے بھی موجود نہیں تھے۔ نظیر اکبرآبادی نے ایسے دور میں نظم نگاری کی دنیا میں قدم رکھا اور اس صنف کو بلندی عطا کی۔

عوامی شاعری:

نظیر اکبرآبادی کی نظموں میں موضوعات کی ایک دنیا آباد ہے۔ خاص کر انہوں نے جن موضوعات کو اپنی نظموں کا حصہ بنایا ان کا تعلق عوامی زندگی سے ہے۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی زندگی کے ہر پہلو کی باریکیوں سے واقف تھے، انہوں نے اپنی نظموں میں اس کا بخوبی فائدہ اٹھایا ہے اور عام انسانوں کے جذبات و احساسات ، مختلف انسانی زندگی کے مسائل و معاملات ، مختلف سماجی و معاشرتی حالات  غرضیکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلؤوں کو اپنی نظموں میں شامل کیا ہے اور عوام کے سامنے انہی کی سچی، حقیقی اور جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔ خاص کر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ان کی نظموں کے حصے ہیں۔  انہوں نے ان کی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔ اس سلسلے میں معاشی بدحالی پر مبنی ان کی نظم ’مفلسی‘ قابل ذکر ہے جسے کافی مقبولیت ملی۔

نظیر اکبرآبادی نے امیر و غریب کے درمیان پائے جانے والےفرق کو بھی مٹانے کی کوشش کی ہے۔ معاشرے میں عوام کو طبقات میں منقسم کرنا ان کو ناپسند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جب اس فرق کو محسوس کیا تو امیر طبقہ کے حوالے سے انہوں نے موت کا ذکر ضرور کیا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ کام آنے والا نہیں ۔ نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ میں اس کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اسی طرح نظم ’’آدمی نامہ‘‘ میں انہوں نے انسانیت کا درس دیا ہے اور آپسی تفریق کو مٹانے پر زور دیا ہے۔

نظیر کی نظموں میں مقامی یا ہندوستانی رنگ:

نظیر اکبرآبادی کی نظموں میں ایک خاص پہلو جو سب سے زیادہ قابل توجہ ہے وہ ہے ان کا مقامی رنگ اور ہندوستانی عناصر۔ خاص کر میلے ٹھیلے، ہندو مسلم تیوہار، کھیل کود، تماشے وغیرہ جیسے موضوعات کی کثرت ہے۔ اسی طرح موسم، فضا، مقام اور ماحول وغیرہ کی بہتر عکاسی بھی ان کی نظموں میں موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی نظموں میں اخلاقی باتیں، نصیحت آمیز باتیں اور تصوف کے مضامین کی بھی کثرت ہے۔ ان تمام موضوعات کی خصوصیت یہ ہے ان میں مقامی اور ہندوستانی رنگ کا غلبہ ہے۔ نظیر کو ہندوستان اور تمام تر ہندوستانی تہذیب سے بے حد لگاؤ تھا۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں کیا ہے۔

محض اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والے انسان، جانور، چرند پرند، کیڑے مکوڑے غرضیکہ ہندوستان کی مٹی پر بسنے والے تمام مخلوقات سے ان کو محبت تھی۔ نظیر نے ان تمام کو اپنی نظموںمیں جگہ دی ہے۔

ہولی، دوالی، راکھی، بسنت، جنم کنھیاجی، بلدیو جی کا میلا، مہادیو کا بیاہ، کبوتر بازی، پتنگ بازی، آگرے کی تیراکی، عرس حضرت سلیم چشتی، شب برات، عید، عید الفطر، جاڑا، اومس، برسات کی بہاریں، تاج محل، تربوز، تل کے لڈو وغیرہ ان کی مقبول نظمیں ہیں جن میں عوامی زندگی کا پہلو صاف نظر آتا ہے اور عوام جگہ جگہ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

نظیر  کی نظموں میں قومی یکجہتی:

نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں میں قومی یکجہتی کا درس بھی دیا ہے۔ ان کی نظموں میں انسان سب سے اوپر ہے۔ یعنی مذہب کے نام پر انسانوں کو بانٹ کر دیکھنے کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے ہر مذہب اور اس کے ماننے والوں کا احترام کیا۔ یہی نہیں بلکہ نظیر مختلف تیوہاروں اور تقریبوں میں شرکت بھی کرتے تھے چاہے وہ مسلمانوں کا تیوہار ہو یا ہندو سماج کا تیوہار ہو، رسم و رواج ہو یا میلے ٹھیلے ہوں انہوں نے ہر ایک میں حصہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی نظموں میں اس کی تصویر بھی پیش کی ہے اور دوستی بھائی چارگی، محبت، ایک دوسرے کی عزت و احترام، آپسی اتحاد اور یکجہتی کا کھلا درس بھی دیا ہے۔درگا جی کے درشن، مہادیو کا بیاہ، کھیل کود کنھیا جی، حمد وغیرہ ان کی قابل ذکر نظمیں ہیں۔

اس کے علاوہ ان کی نظموں میں اور بھی موضوعات ہیں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان کی بہت سی نظمیں مختلف فلسفیانہ خیالات، صوفیانہ تصورات، حکایات،  پند و نصائح  اور اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ موت، فقیروں کی صدا، رہے نام اللہ کا، دنیا بھی کیا تماشا ہے، توکل، خواب غفلت،جوگی، مفلسی، آدمی نامہ اور ہنس نامہ وغیرہ انہی موضوعات کی حامل ہیں۔

اسی طرح عشق و محبت کے موضوعات پر بھی ان کی نظمیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔اس سلسلے میں ان کی نظمیں سوز فراق، جدائی، ملاقات یار اور مستی عشق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نظیر  کی نظموں میں ظرافت کی چاشنی:

نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ظرافت آمیز نظمیں بھی لکھیں۔ ایسی نظمیں قاری کے لیے کافی دلچسپ ہیں۔ ظرافت پر مبنی ان کی نظمیں حسن طلب، مزے کی باتیں اور چوہوں کا اچار وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نظیر کی نظموں میں جزئیات نگاری:

نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ایک بڑی خصوصیت جزئیات نگاری ہے۔ یعنی انہوں نے جس بھی موضوع کو اپنی نظموں کا حصہ بنایااس کے تمام اجزا کو پوری طرح سے منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظموں میں تفصیلات ہے۔ اور معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہوں نے جزئیات نگاری کے ذریعے سماج و معاشرے کے ہر ایک پہلو کی تصویر پیش کی ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نظیر اکبرآبادی کا مشاہدہ کافی وسیع تھا۔ نظیر اکبرآبادی نے جن موضوعات پر نظمیں لکھیں چاہے ان کا تعلق تیوہاروں،میلوں ٹھیلوں، تقریبوں، موسموں، مذاہب سے ہو، حکمت ، تصوف، فلسفہ سے ہو، جانوروں اور پرندوں سے ہو یا مختلف قسم کے پھلوں سے ہو ، ان کے تمام جزئیات  کو اس طرح انہوں نے پیش کیا ہے کہ قاری حیرت میں پڑ جاتا ہے۔

نظیر کی نظموں میں مصوری یا محاکات:

نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری کی ایک خصوصیت  مصوری ہے۔ یعنی نظیر نے جن حالات یا جن مناظر کو پیش کیا ہے انہیں اس انداز سے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ اس کی پوری تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ ویسے تو ان کی اکثر نظموں میں مصوری کے نمونے موجود ہیں لیکن جہاں انہوں نے موسمیات کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی مصوری کافی متوجہ کرتی ہے۔ برسات، برسات کا تماشا، برسات کی بہاریں، چاندنی، اومس، آندھی، جاڑے کی بہاریں وغیرہ ان کی عمدہ نظمیں ہیں جہاں نظیر اکبرآبادی مصوری کا پورا حق ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ان نظموں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  گویا یہ تصویروں کا ایک البم ہے۔

نظیر کی نظموں میں تمثیل نگاری:

نظیر اکبرآبادی نے اپنے پیغام کو پر اثر بنانے کے لیے تمثیل نگاری کا بھی سہارا لیا ہے۔ انہوں نے مختلف جانوروں اور پرندوں کی کہانیوں کے ذریعے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انسانوں کے مختلف منفی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ نظم ہنس نامہ اور بنجارہ نامہ تمثیل پر مبنی ان کی لازوال نظمیں ہیں۔ ان نظموں کے اندر بے حد دلکشی اور اثر انگیزی ہے۔

نظیر اکبرآبادی کی زبان اور ان کا لب و لہجہ:

نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظموں میں عوامی زبان و لب و لہجہ کا استعمال بخوبی کیا ہے۔ انہوں نے عوام سے متعلق موضوعات اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان اور لب و لہجہ کو بھی استعمال میں لایا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے اگر انہیں مکمل عوامی شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ نظیر اکبرآبادی کی زبان مشکل نہیں بلکہ انہوں نے بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔

نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ نظیر کو زبان پر مہارت حاصل تھی۔ ان کے پاس الفاظ کی کمی نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ مختلف اور نئے نئے موضوعات پر نظمیں لکھنے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان سے پہلے اتنے الفاظ کسی شاعر نے استعمال نہیں کیے جتنے الفاظ نظیر اکبرآبادی  نے استعمال میں لائے ہیں۔ انہوں نے بہت سے الفاظ خود سے بھی وضع کیے۔ اسی طرح انہوں نے بہت سے متروک الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments