Rajab Ali Beg Suroor aur Fasana-e-Ajaib | رجب علی بیگ سرور اور فسانۂ عجائب

رجب علی بیگ سرور

رجب علی بیگ سرور کا تعلق دبستان لکھنئو سے تھا۔ سرورؔ کی پیدائش لکھنئو میں ۱۷۸۶ میں ہوئی۔ سرور اردو نثر میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ سرور کو  اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبان پر بھی مہارت حاصل تھی۔ سرورؔ ایک شاعربھی تھے ۔ ان کے بہت سے اشعار موجود ہیں لیکن نثر نگاری میں انھیں جو مرتبہ ملا شاعری میں نہ مل سکا۔ اس کے علاوہ انہیں تیر اندازی، شہ سواری، سپہ گری، موسیقی، نجوم اور خوش نویسی میں بھی دلچسپی تھی۔ سرورؔ نے اپنی جوانی عیش و عشرت میں گزاری۔ ۱۸۲۴ میں والی اودھ غازی الدین حیدر نے انہیں لکھنئو سے نکال دیا جس کی وجہ سے ان کو کانپور کا رخ کرنا پڑا۔ کانپور جاکر ہی انھوں نے حکیم سید اسد کی فرمائش پر اپنی مشہور کتاب  ’’فسانہ عجائب‘‘ لکھی۔ نصیر الدین حیدر جب تخت نشین ہوئے تو انہیں لکھنئو میں رہنے کی اجازت مل گئی۔ پھر واجد علی شاہ کے درباری شاعر بھی بنے۔ ۱۸۵۷ کی پہلی ناکام جنگ آزادی کے بعد انہیں بنارس جانا پڑا ۔ بنارس میں ہی ۱۸۶۹ میں ان کا انتقال ہوا۔

سرورؔ نے فسانہ عجائب کے علاوہ سرور سلطانی، شرر عشق، شگوفہ محبت، گلزار سرور، شبستان سرور، انشائے سرور بھی لکھے لیکن سرورؔ کو فسانہ عجائب کی بدولت شہرت ملی جسے انھوں نے ۱۹۲۴ میں لکھی۔

فسانہ عجائب کا جائزہ

فسانۂ عجائب میں سرور نے حسن و عشق کی کہانی پیش کی ہے۔ ساتھ ہی لکھنئو کی پوری معاشرتی زندگی کی بہتر عکاسی کی ہے۔انھوں نے لکھنئو کے حالات اور وہاں کی زندگی کی بہت ہی دلچسپ انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ یعنی جگہ جگہ لکھنئو کی معاشرت، امیروں اور نوابوں کے طور طریقے ، وہاں کی محفلیں، کھیل کود اور تماشے، اہل علم و کمال اور شاعروں کے حالات، بازاروں کی رونق، دکانداروں کی خوبصورت آوازیں اور بھی مختلف چیزیں ان کی تحریر میں موجود ہیں۔

 یہ کہانی داستانوی انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس میں غیر فطری باتیں بھی کثرت سے موجود ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے داستان اور ناول کی درمیانی کڑی بھی کہا ہے۔

اس کتاب کے مقدمے میں سرورؔ نے میر امن کی زبان پر اعتراض کیا ہے اور ان کا مذاق بھی اڑایا ہے اور بعض اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ’’باغ و بہار‘‘ کی ضد میں فسانۂ عجائب تصنیف کی۔

زبان و اسلوب:

سرورؔ کی زبان بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ انھوں نے یہ کتاب لکھتے وقت تصنع اور بناوٹ کا سہارا لیا ہے۔ سرورؔ سادہ لکھنے کے بالکل مخالف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ فارسی آمیز مشکل عبارت لکھنا ہی صلاحیت  کی دلیل ہے۔

سرورؔ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے پاس لفظوں کا ایک ذخیرہ تھا۔ چونکہ انہیں فارسی اور عربی پر بھی مہارت حاصل تھی اس لیے ان کے یہاں لفظوں کی کمی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ موقع کی مناسبت سے اپنی نثر کو لفظوں میں پروتے جاتے ہیں۔ انھوں نے ہر کردار کے اعتبار سے بھی زبان کا استعمال کیا ہے۔

سرورؔ کے جملے بھی کافی لمبے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قاری کو اکتاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکل الفاظ اور خاص کر عربی و فارسی الفاظ  کے استعمال کی وجہ سے قاری اور زیادہ اکتانے لگتا ہے۔

سرورؔ نے جگہ جگہ قافیے کا بھی استعمال کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بھی قاری کے لیے عبارت پیچیدہ ہوجاتی ہے اور وہ روانی کے ساتھ ان کی نثر کو نہیں پڑھ پاتا ہے۔

سرورؔنے اپنی نثر میں تشبیہات و استعارات کا بھی سہارا لیا ہے۔ اس کے ذریعے بھی انھوں نے اپنی نثر کو خوبصورت بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ سرورؔ دیگر شعری وسائل سے بھی اپنی نثر کو شاعرانہ انداز سے قریب کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے اشعار کا بھی استعمال کیا ہے۔ بعد مقام پر ضرب الامثال بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر انھوں نے قرآنی آیات کو بھی جگہ دی ہے۔

بہر حال اس طرح رجب علی بیگ سرورؔ  نے اپنی نثر کو مشکل سے مشکل بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سہل نگاری کے دور میں ان کی تحریر کو پڑھنے میں قاری کو پریشانیوں اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                         

Post a Comment

0 Comments