Masnavi ki tareef aur ajza-e-tarkibi | مثنوی کی تعریف اور اجزائے ترکیبی

مثنوی کی تعریف اور اجزائے ترکیبی

مثنوی  کی تعریف:

مثنوی عربی لفظ ’’مثنیٰ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہیں دو ۔دو۔ اصطلاح میں مثنوی اس شعری صنف کو کہتے ہیں جس کے تمام اشعار کسی ایک بحر میں ہوتے ہیں اور ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔اور ہر  شعر کے قافیے دوسرے اشعار کے قافیے سے مختلف ہوتے ہیں۔

مثنوی میں عام طور پر کسی کہانی یا واقعے کا تسلسل کے ساتھ بیان ہوتا ہے۔ چونکہ یہ صنف اپنے اندر کافی وسعت رکھتی ہے اس لیے اس میں طویل واقعے یا قصے بیان کیے جاسکتے ہیں۔لیکن ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ دلچسپی پیدا کی جاسکے۔ موضوعاتی اعتبار سے بھی اس کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ یعنی مثنوی میں سماجی، معاشرتی، اخلاقی، تہذیبی، مذہبی، تاریخی اور سیاسی وغیرہ ہر طرح کے موضوعات کو جتنا وسیع کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اشعار کی تعداد کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایسی کئی مثنویاں ہیں جن کے اشعار کی تعداد ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ مولانا حالیؔ نے اس صنف کی  تعریف بھی کی ہے اور اسے سب سے زیادہ کار آمد بتایا ہے۔

مثنوی کے اجزائے ترکیبی:

محققین نے مثنوی نگاری کے لیے متعدد اجزا متعین کیے ہیں جن پر مثنوی کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ ان اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، واقعہ نگاری، کردار نگاری،جذبات نگاری، منظر نگاری اور زبان و اسلوب کو کافی اہمیت حاصل ہے۔

پلاٹ:

چونکہ مثنوی میں واقعات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس میں ربط و تسلسل کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ قاری کو الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر بے ترتیبی ہوگی تو مثنوی میں کمی واقع ہوگی اور اسے مقبولیت نہ مل سکے گی۔ اسی لیے مثنوی میں پلاٹ کو اہمیت حاصل ہے۔

واقعہ نگاری:

مثنوی میں ہر طرح کے واقعات کو پیش کیا جاسکتا ہے چاہے وہ فطری ہوں یا غیر فطری۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان واقعات کے بیان میں چستی ہو، ان میں وضاحت ہو اور کسی طرح کا جھول یا پیچیدگی نہ ہو۔ ورنہ مثنوی میں کمی واقع ہوگی اور وہ اپنا اثر کھو دے گی۔ اسی کے مدنظر علامہ شبلی نعمانی نے مثنوی میں واقعہ نگاری کو کافی اہمیت دی ہے۔

کردار نگاری:

مثنوی میں کردار نگاری کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ مثنوی میں واقعات کو پیش کرنے کے لیے کرداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ان کرداروں کی مدد سے مثنوی کے واقعات آگے بڑھتے ہیں۔ اس لیے کردار نگاری میں چند باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی کرداروں کو ان کے اوصاف کے ساتھ بہتر انداز میں پیش کیا جائے۔وہ کردار جاندار ہوں اور ماحول، عہد اور حالات کے مطابق ہوں۔ ایسے میں مثنوی نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان کرداروں کی نفسیات کو سمجھنے میں مہارت رکھتا ہو تاکہ بہتر کردار وجود میں آسکیں۔

جذبات نگاری:

مثنوی میں جذبات نگاری سے بھی کام لیا جاتا ہے تاکہ جو واقعات یا خیالات پیش کیے جا رہے ہوں وہ پر اثر ہوسکیں۔ اور مثنوی نگار قاری کو اپنی مثنوی کی طرف مائل کرسکے۔

منظر نگاری:

مثنوی میں جو واقعات پیش کیے جاتے ہیں ان سے متعلق مختلف مقامات یا مناظر کی بہتر تصویر کشی کرنا بھی کافی اہم مانا جاتا ہے۔ اس سے مثنوی کو مقبولیت ملتی ہے۔ اس سے قاری کے اندر دلچسپی، دل کشی اور اثر انگیزی بھی پیدا کی جاتی ہے۔

زبان و اسلوب:

مثنوی میں زبان و اسلوب کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ مثنوی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ زبان سادہ، صاف، آسان، عام فہم اور دلکش بھی ہو  تاکہ قاری کو پوری مثنوی پڑھنے پر مجبور کیا جاسکے۔ جب زبان میں پیچیدگی ہوگی، قاری کو بھاری بھرکم الفاظ کا سامنا کرنا پڑے گا تو ظاہر سی بات ہے اسے اکتاہٹ کا احساس ہوگا اور وہ مثنوی سے دوری اختیار کرلے گا۔ اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ جو زبان یا جو اسلوب اختیار کیا جائے وہ فطری ہو، سادہ ہو اور پر اثر ہو۔

Post a Comment

0 Comments