نثری نظم کی تعریف:
نثری نظم اس نظم
کو کہتے ہیں جس میں بغیر شعری اصولوں یا لوازمات کے آزادی کے ساتھ کسی ایک خیال
کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی نثری نظم میں نہ تو وزن یا بحر کی
پابندی ہوتی ہے اور نہ ردیف اور قافیے کی۔ اس کے تمام مصرعے چھوٹے بڑے اور نثر کی
سطر کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں شعری رنگ اور صوتی آہنگ موجود ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص طرح کی شعری کیفیت
پائی جاتی ہے۔
اسی طرح دیگر
شعری اصناف کی طرح اس میں احساسات، داخلی کیفیات و جذبات کی شدت اور اثر انگیزی کی خصوصیت موجود
ہوتی ہے۔ اس میں الفاظ کا استعمال اور اس کی ترتیب بالکل سادہ اور بول چال کے
انداز میں ہوتی ہے۔ اس میں آرائش اور بناوٹ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اردو شاعری میں
نثری نظم ایک جدید ترین صنف سخن ہے۔ شروع میں اس کی بہت مخالفتت ہوئی۔ بلکہ یہ
ایسی صنف شاعری ہے جس کی سب سے زیادہ مخالفت ہوئی۔ بہت سے نقادوں نے اسے شعری صنف
ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان کےمطابق بغیر کسی بحر، وزن، قافیہ اور ردیف وغیرہ کے جو
کچھ لکھا جائے گا وہ شاعری کے دائرے میں نہیں آسکتا بلکہ اسے نثر میں شمار کیا
جائے گا۔لیکن نثری نظم کے حامی ناقدین کا ماننا ہے کہ اصولوں اور لوازمات سے ہٹ کر
بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ اور ایسی حالت میں ہم اپنے خیالات کا اظہار آزادی کے
ساتھ کر سکتے ہیں اور بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ بہر حال اس طرح اردو میں نثری نظم
لکھنے کا رجحان عام ہوا۔
نثری نظم کا آغاز و ارتقا:
نثری نظم کا
آغاز فرانس میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔ وہاں سے یہ صنف انگریزی ادب میں آئی اور
انگریزی کے اثر سے کافی دیر سے اردو شاعری میں اس کی روایت قائم ہوئی۔ بعد میں اس
کی باقاعدہ تحریک بھی چلی۔ لیکن اسے مقبول
ہونے میں کافی وقت لگا۔ جب اسے مقبولیت ملی تو بہت سے شعرا نے اس صنف کو اختیار
کرکے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اردو میں نثری
نظم کی ابتدا کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں ناقدین کے یہاں مختلف نظریات
ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے نثری نظم کے نمونے ادب لطیف میں تلاش
کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح بعض ہندی اور انگریزی کے اردو تراجم میں بھی اس کے نمونے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس کے علاوہ ایک دو نثری نظم کے نمونے بھی سامنے آئے۔ مثلاً جوش ملیح آبادی کے
پہلے مجموعے ’’روح ادب‘‘ میں نثری نظم کی مثالیں موجود ہیں۔ منٹو نے جاپانی نظموں
کا ترجمہ نثری نظم کی شکل میں کیا جسے بھی نثری نظم کے نمونوں میں شامل کیا گیا
ہے۔ اسی طرح میراجی نے کئی نثری نظمیں لکھیں جو ۱۹۴۸ میں رسالہ ’’خیال‘‘ میں شائع ہوئیں۔
لیکن بطور صنف سب سے پہلے سجاد ظہیر نے نثری نظمیں لکھیں اور انھوں نے ہی سب سے
پہلے اردو نثری نظوں کا پہلا مجموعہ ’’پگھلا
نیلم‘‘ اردو ادب کو دیا جو ۱۹۶۴ میں منظر عام پر آیا۔
بعض لوگوں کا
ماننا ہے کہ احمد ہمیش نے نثری نظم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ احمد ہمیش نے
خود اس کا دعویٰ بھی کیا ہے کہ انھوں نے ہی نثری نظم کو ایجاد کیا ہے۔ لیکن زیادہ تر محققین کا ماننا
ہے کہ سجاد ظہیر ہی پہلے باقاعدہ نثری نظم نگار ہیں۔
اسی زمانے میں
پاکستان میں بھی نثری نظم کا آغاز ہوا۔ وہاں اس صنف کو زیادہ ترقی بھی ملی۔ وہاں
نثری نظم کا آغاز محمد سلیم الرحمٰن اور مبارک احمد نے کیا۔ بعد میں رئیس فروغ
اور قمر جمیل نے بھی اس روایت میں حصہ لیا۔ قمر جمیل تو نثری نظم نگاروں میں کافی
بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ عارف عبدالمتین، رشید امجد، اعجاز احمد، قمر
تحسین، حفیظ صدیقی، ثروت حسین، سیما خان، گل صدیقی، مسعود منور، مخدوم منور اور شائستہ حبیب وغیرہ کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح ہندوستان
میں باقر مہدی، خورشید الاسلام، وزیر آغا، محمد حسن، کشور ناہید، احمد ہمیش،
شہریار، زبیر رضوی، صلاح الدین پرویز، عتیق اللہ، بلراج کومل، علی ظہیر، کمار پاشی،
صفیہ اریب، پرتپال سنگھ بیتاب، عادم منصوری، ندا فاضلی، خالد جاوید، اکرام خاور،
فوزیہ فاروقی اور مظہر مہدی وغیرہ شعرا نے
بھی نثری نظمیں لکھ کر اس روایت میں قیمتی اضافہ کیا۔ ا ن شعرا نے انسانی زندگی اور کائنات کے مختلف
مسائل کو اپنی نثری نظموں میں بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ خاص کر جدید مسائل ،
روز مرہ کے واقعات اور جنم لیتے سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو کھل کر
پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments