نظم معرا کی تعریف :
معریٰ /معرا کے لغوی معنی ہیں برہنہ یا خالی۔ اصطلاح میں معرا
نظم اس نظم کو کہتے ہیں جس میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی یہ صنف قافیہ
سے عاری ہوتی ہے۔ لیکن اس کے سارے مصرعے کسی ایک بحر یا وزن میں ہوتے ہیں۔ یعنی اگرپہلے
مصرعہ میں چار بار فاعلن آیا ہے تو اس کا خیال ہر مصرعے میں رکھا جاتا ہے۔ اس لیے
اس کے سارے مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ آزاد نظم کی طرح کم یا زیادہ نہیں ہوتےہیں۔ اسی
طرح اس میں ردیف کی بھی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی معرا نظم میں بس وزن یا بحر کی
پابندی ہوتی ہے۔ ردیف اور قافیے کا التزام نہیں ہوتا ہے۔
نظم معرا کو
انگریزی میں Blank Verse کہتے ہیں۔
انگریزی شاعری کے اثر سے ہی اردو میں نظم معرا کی بنیاد پڑی۔ ابتدا میں اس صنف کا
نام ’’غیر مقفیٰ نظم‘‘ رکھا گیا لیکن عبدالحلیم شرر اور مولوی عبدالحق کے مشورورں
سے اس کا نام بدل کر نظم معرا رکھا گیا۔
نظم معرا کا آغاز و ارتقا:
اردو میں نظم
معرا کا آغاز کس نے کیا؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے محمد حسین آزاد کے یہاں
اس کے نمونے تلاش کیے ہیں۔ جیساکہ ڈاکٹر حنیف کیفی نے ان کی دونظموں (جغرافیۂ
طبعی کی پہیلی اور جذب دوری) کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے انہیں پہلا معرا نظم نگار
مانا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے اسماعیل میرٹھی اور کچھ لوگوں نے عبدالحلیم شرر کو
پہلا معرا نظم نگار مانا ہے۔ لیکن دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں میں اسماعیل
میرٹھی نے نظم معرا کا پہلا تجربہ کیا۔ پھر ۱۹۰۰ میں عبدالحلیم شرر نے معرا نظم
لکھی۔ اس کے بعد اسی سال شررؔ کے اثر سے نظم طباطبائی نے معرا نظم لکھی۔ دیکھا
جائے تو محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے معرا نظم کا محض تجربہ کیا۔ لیکن
عبدالحلیم شرر نے اس کی باقاعدہ روایت قائم کی اور اس کی روایت کو فروغ دینےمیں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہاں تک کہ انھوں نےاس کی باقاعدہ تحریک بھی چلائی۔ شروع میں
لوگوں نے مخالفت کی لیکن شررؔ نے اسے قبول بنانے میں حد درجہ کوشش کی اور آگے چل
کر اس کا اچھا نتیجہ سامنے آیا۔ نظم معرا کو فروغ دینے میں ان کے رسالے
’’دلگداز‘‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
شروع میں برج
موہن دتاتریہ کیفی اور اکبر الٰہ آبادی وغیرہ نے بھی نظم معرا کا تجربہ کیا لیکن
انھوں نے نظم معرا کی طرف توجہ کم دی۔
معرا نظم کے
دوسرے بڑے محرک مولانا تاجورؔ نجیب آبادی ہیں۔ انھوں نے شررؔ کی اس تحریک کو نیا راستہ
دکھایا۔ انھوں نے جگہ جگہ یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح غیر ضروری اصولوں نے
اردو نظم کو ترقی کرنے سے روک رکھا ہے۔ ان کی نظم ’’مشرق کا پیام اخوت مغرب کے نام‘‘
نظم معرا کی عمدہ مثال ہے۔ انہی کے زمانے میں حامد اللہ افسر نے بھی ایک معرا
نظم ’’وقت کی ڈبیہ‘‘ لکھی۔ ان کے علاوہ
عبدالرحمن بجنوری، عظمت اللہ خاں وغیرہ نے بھی معرا نظم کا تجربہ کیا۔
۱۹۳۵ کے بعد معرا
نظم کو اور زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اس دور کے شعرا میں یوسف ظفر، مخمور جالندھری،
مجید امجد، تصدق حسین خالد اور میراجی وغیرہ کے نام کافی اہم ہیں جنہوں نے آزاد
نظم کے ساتھ ساتھ معرا نظم میں بھی حصہ لیا۔
ان کے علاوہ ضیا
جالندھری، محمد دین تاثیر، اعجاز بٹالوی، سلام مچھلی شہری، شورش صدیقی اور پیام
وغیرہ نے بھی مختلف معرا نظمیں لکھ کر نظم معرا کی روایت کو بلندی عطا کی۔
اسی طرح آزادی
ہند کے بعد بھی اس کی روایت قائم رہی اور
بہت سے شعرا نے اس ہیئت میں آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر مطیع الرحمٰن
0 Comments